پنجاب میں تلور کی آبادی میں مسلسل کمی، رپورٹ
کراچی: ہوبارا باسٹرڈ کمیشن کی جانب سے حال ہی میں منظور کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں 2017 سے 2019 کے درمیان 3 سال کے عرصے میں تلور کی آبادی میں کمی آئی ہے اور شکار کی شرح کسی ایک سطح پر برقرار نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے 2017 میں تعینات کیے گئے کمیشن کو یہ پتہ لگانے کے لیے فیلڈ سروے کا ٹاسک دیا گیا تھا کہ تلور کا شکار جاری ہے۔
3 مقامات اور پنجاب بھر میں تلور کی آبادی کا اندازہ کرنے کے لیے معیاری پروٹوکول کے ذریعے ڈیٹا جمع کیا اور شماریات کے معیاری اصولوں کے مطابق اس کا تجزیہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بحرین کے بادشاہ کو تلور کے شکار کی اجازت
کمیشن کی دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ پنجاب میں تلور کی آبادی 2017 میں 6 ہزار 2 سو 23، دسمبر 2018 میں 6 ہزار 7 سو 59 اور دسمبر 2019 کے سروے میں 5 ہزار 3 سو 2 جس کا مطلب ہے کہ 3 برس میں تلور کی آبادی میں کمی آئی ہے۔
کمیشن کی جانب سے 25 فروری 2018 کی حتمی اور 8 فروری 2019 کی سپلیمینٹل رپورٹ کے بعد 26 دسمبر 2019 کو رپورٹ جاری کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: قطری شہزادے کو تلور کے شکار کی اجازت
رپورٹ کے مطابق 2019 کے تلور کی آبادی کو جب 2018 اور 2017 کے ساتھ موازنہ کیا گیا تو چولستان ( 2017 میں 4 ہزار 2 سو 99 سے 2019 میں 3 ہزار 5 سو 75) اور تھل کے علاقے میں ( 2017 میں 591 سے کم ہوکر 2019 میں صفر) میں تلور کی آبادی میں کمی دیکھنے میں آئی۔
تاہم راجن پور روجھن کے علاقے میں (2017 میں ایک ہزا 3 سو 33 اور 2018 میں ایک ہزار 8 سو 80) جب 2017 اور 2018 کا موازنہ کیا گیا تو آبادی میں تھوڑا سا اضافہ دیکھا گیا جبکہ 2018 اور 2019 کے موازنے میں کمی ( 2018 میں ایک ہزار 8 سو 80 اور 2019 میں ایک ہزار 7 سو 27) دیکھی گئی۔