نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نوٹی فکیشن جاری
اسلام آباد: وزارت قانون نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد نیب ترمیمی آرڈیننس کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
نوٹی فکیشن کو قومی احتساب دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نام دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کی بذریعہ سرکولیشن منظوری دی تھی، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی آرڈیننس پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ نافذ العمل ہو گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملک کے احتساب قانون، قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں غیر معمولی تبدیلیاں کر دیں جس سے نہ صرف سیاستدان بلکہ بیوروکریٹس اور کاروباری برادری کو 'فائدہ' پہنچے گا۔
نئے آرڈیننس نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو غیر موثر بنادیا کیونکہ اب نیب صرف 50 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن سے متعلق کیسز کی انکوائری کرسکے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم
ترمیمی آرڈیننس نے احتساب قانون کی بنیاد کو ہلادیا ہے جسے 1999 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹنے کے فوری بعد اس وقت کے آمر حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے پہلی مرتبہ نافذ کیا تھا۔
بیوروکریسی اور کاروباری برادری کی متعدد شکایت کو مدنظر رکھتے ہوئے نیب کے اختیارات میں کمی کی گئی۔
خیال رہے کہ بیوروکریسی اور کاروباری برادری نے شکایات کی تھی کہ نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے بیوروکریٹس، کاروباری افراد اور صنعت کار بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا یہ افسران فائلوں پر دستخط سے گریز کرنے لگے اور کاروباری افراد کوئی سرمایہ کاری کرنے اور نیا انیشیٹو لانے کے خواہش مند نہیں رہے تھے۔
کچھ ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔
ترامیم کے مطابق نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پروسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری / تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں: مجوزہ نیب قوانین: نجی شہری احتساب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہوں گے
بیوروکریٹس کی پروسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کرسکتا ہے۔
علاوہ ازیں ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
ایک ترمیم کے مطابق ’ متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔
اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا‘۔