بھارت میں متنازع قانون کے خلاف احتجاج، بزرگ نارویجن خاتون کو ملک چھوڑنے کا حکم
بھارت کی حکومت نے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں شرکت کرنے والے جرمن طالب علم کے بعد ناروے سے تعلق رکھنے والی 71 سالہ بزرگ خاتون کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 71 سالہ میٹ جوہانسن کا کہنا تھا کہ پولیس نے انہیں زبانی طور پر اجازت دی تھی کہ متنازع شہریت قانون کے خلاف وہ پرامن احتجاج میں شرکت کرسکتی ہیں جو بھارت کے مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا ہے۔
غیرملکی خاتون کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ روز (جمعرات) کو بھارتی امیگریشن کے عہدیدار پوچھ گچھ کے لیے میرے پاس ہوٹل میں آئے اور مجھے ذہنی طور پر تشدد کیا’۔
مزید پڑھیں:شہریت قانون کے خلاف احتجاج پر جرمن طالبعلم کو بھارت چھوڑنے کا حکم
بھارتی عہدیداروں کی جانب سے تفتیش کے حوالے سے ان کا کہناتھا کہ ‘آج پھر وہی لوگ میرے ہوٹل میں نظر آئے اور مجھے کہا کہ آپ ملک چھوڑ دیں یا قانونی کارروائی کریں گے اور ڈی پورٹ کردیا جائے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ فوری طور پر بھارت سے دبئی جائیں گی اور وہاں سے سویڈن چلی جائیں گی۔
نارویجن شہری نے 23 دسمبر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک پوسٹ کے ساتھ تصاویر جاری کی تھیں جس میں بھارت کی جنوبی ریاست کیرالا میں ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے حوالے سے تفصیل سے لکھا تھا۔
بھارت کی فارن ریجنل رجسٹریشن آفس کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ میٹ جوہانسن نے ویزا قواعد کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ یورپی سیاحوں کو بھارت میں آنے کے لیے ویزا حاصل کرنا ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے ہی بھارت کے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر بیورو آف امیگریشن کے عہدیداروں نے ایک جرمن طالب علم کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا۔
جرمن تعلیمی ادارے ٹیکنیکل یونیورسٹی ڈریسڈن سے ایکسچینج پروگرام کے تحت مدراس کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم جیکوب لِنڈینتھل کو بتایا گیا تھا کہ انہوں نے ویزے کے ضوابط کی خلاف ورزی کی۔
یہ بھی پڑھیں:بھارتی ریاست کی مظاہرین کو جائیدادیں ضبط کرنے کی دھمکی
جرمن طالب علم جیکوب لِنڈینتھل نے مدراس کیمپس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر '1933 سے 1945 تک ہم یہاں موجود ہیں' درج تھا۔
بھارت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج میں جرمنی میں نازی حکومت کے حوالے سے ایک اور پلے کارڈ پر درج تھا کہ 'اختلاف رائے کے بغیر جمہوریت نہیں'۔
جیکوب لِنڈینتھل کا کہنا تھا کہ 'میں جرمنی سے ہوں اور بخوبی واقف ہوں کہ جب اس قسم کے امتیازی سلوک کا رویہ روا رکھا جائے گا تو کیا ہوتا ہے'۔
جرمن طالبعلم کو چنئی میں بی او آئی کے دفتر طلب کیا گیا تھا جہاں ان سے بھارتی سیاست اور شہریت ترمیمی قانون مخالف مظاہروں کے بارے میں متعدد سوالات کیے گئے۔
بھارتی امیگریشن عہدیداروں نے تفتیش کے بعد انہیں آگاہ کیا کہ ان کو فوری طور پر ملک چھوڑنا پڑے گا تاہم بھارت میں واپسی کے لیے دوبارہ درخواست دے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مختلف ریاستوں میں احتجاج پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:گجرات مسلم کش فسادات: بھارتی کمیشن نے مودی کو کلین چٹ دےدی
متنازع شہریت قانون کے خلاف طلبہ اورمسلمانوں سمیت ہزاروں شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔
بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں متنازع بل 9 دسمبر 2019 اور ایوان بالا(لوک راجیا سبھا) میں11 دسمبر کو منظور ہوا تھا جس کے اگلے روز بھارتی صدر نے اس بل پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد یہ بل قانون بن گیا تھا۔
اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے 2015 سے قبل بھارت میں داخل ہونے والے غیر مسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت فراہم کی جائے گی، اس قانون کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔