دماغ کے بارے میں 2019 میں ہونے والے حیران کن انکشافات
دماغ کے بارے میں 2019 میں ہونے والے حیران کن انکشافات
ہمارا دماغ ہمیں بتاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے، کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہے، کیا سوچنا اور کیا بولنا چاہیے۔
یہ دماغ ہی ہے جو سڑکوں یا گلیوں میں پھرتے اجنبیوں کے چہروں کو یاد رکھتا ہے اور ہمیں فکروں سے بچاتا ہے۔
زندہ رہنے اور کچھ بھی سیکھنے کے لیے ہم دماغ پر انحصار کرتے ہیں مگر یہ جسم کا وہ عضو ہے جس کے بارے میں بہت کچھ اب بھی صیغہ راز میں ہے۔
ہر سال اس حیران کن عضو کے بارے میں سائنس کی جانب سے نئی معلومات سامنے آتی ہیں اور 2019 میں بھی دماغ کے بارے میں حیران کن تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
درحقیقت کچھ نتائج تو دنگ کردینے والے ہیں یہاں جانیں کہ 2019 میں ہم انسانی دماغ کے بارے میں کیا جاننے میں کامیاب ہوئے۔
خوابوں کی عجیب دنیا
نیند کے دوران لوگوں کو متعدد جذبات کا سامنا ہوتا ہے یہاں تک کے غصے کا بھی، یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی تھی، جس میں محققین نے دماغی سرگرمیوں کے تجزیے سے دریافت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی فرد غصے والے خواب دیکھتے ہیں یا نہیں، انہوں نے ایسے دماغی حصوں کا جائزہ لیا جو جذبات کے اظہار کو کنٹرول کرنے اور مسائل حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
فرنٹل لوبز نامی ان حصوں میں نیند سے پہلے اور بعد میں ہونے والی سرگرمیوں سے معلوم ہوا کہ کوئی فرد غصے یا اینگری ڈریم بھی دیکھ سکتا ہے۔
جب ہم آرام کررہے ہوتے ہیں، تو دماغ الفا دماغی لہروں کو جاری کرتا ہے، مگر کئی بار ان لہروں کا اخراج بہت زیادہ ہوتا ہے جس سے اس دماغی حصے کے افعال کم ہوجاتے ہیں جو غصے کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔
17 افراد میں ان دماغی لہروں کے تجزیے سے دریافت کیا گیا کہ ایسا ہی نیند کے دوران ہوتا ہے، جن لوگوں میں نیند کے دوران یہ سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں، وہ اس طرح کے غصے والے خواب بھی زیادہ دیکھتے ہیں۔
انٹارکٹیکا میں تنہائی اور دماغ پر اثرات
انسانی دماغ پر تنہائی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ایک تحقیق میں ایسے 9 مہم جو افراد کو دیکھا گیا جو ایک سال سے زائد تک کا عرصہ انٹارکٹیکا میں تنہا گزار چکے تھے اور دریافت کیا کہ ان کے دماغ کچھ چھوٹے ہوگئے ہیں۔
انٹار کٹیکا جانے سے پہلے اور واپس آنے کے بعد محققین نے ان کے دماغی اسکین کا موازنہ کیا اور دریافت کیا کہ دماغی حصے جیسے ہیپوکمپس (سیکھنے اور یاداشت بہتر بنانے میں مدد دینے والا حصہ) کا حجم اس عرصے میں گھٹ گیا۔
مزید براں مہم جوﺅں کے دماغ میں ایک پروٹین کی سطح کم ہوئی جسے بی ڈی این ایف کہا جاتا ہے، جو نئے عصبی خلیات کی نشوونما اور بقا میں معاونت کرتا ہے اور نئے دماغی کنکشن کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اب محققین ایسے ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو تنہا رہنے والے افراد میں دماغ کو سکڑنے سے بچانے میں مدد دے سکیں۔
دماغی بلب
سائنسدانوں کا ایک گروپ یہ جان کر دنگ رہ گیا کہ دنیا میں کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس وقت بھی سونگھ سکتے ہیں، جب ان کے دماغ کا وہ اہم ترین حصہ غائب ہوتا ہے جو سونگھنے کی صلاحیت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اولفیکٹری بلبس نامی یہ حصہ دماغ میں سامنے کی جانب ہوتا ہے جو ناک سے آنے والی بو کے بارے میں معلومات کا تجزیہ کرتا ہے۔ محققین نے یہ دریافت ایک 29 سالہ خاتون کے دماغی اسکین کے ذریعے کی جو عام لوگوں کی طرح سونگھ سکتی تھی حالانکہ اس کے دماغ میں اولفیکٹری بلبس غائب تھے۔
بعد ازاں انہوں نے ایسی مزید 2 خواتین میں یہی چیز سامنے آئی جن کے دماغ میں بھی یہ حصہ نہیں تھا مگر پھر بھی وہ سونگھ سکتی تھیں۔
تاہم سائنسدان یہ نہیں جان سکے کہ یہ جادوئی صلاحیت خواتین میں کیسے آئی مگر ان کے خیال میں دماغ کا کوئی اور حصہ اولفیکٹری بلبس کا کردار سنبھال لیتا ہے اور اس سے دماغ کی خود کو ڈھالنے کی زبردست صلاحیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
کشش ثقل
کچھ جانور نادیدہ کشش ثقل کے میدان کو استعمال کرکے اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں اور اب معلوم ہوا ہے کہ کچھ افراد بھی ہمارے سیارے کے مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر یہ واضح نہیں کیسے۔
مارچ 2019 میں شائع ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے 34 افراد کے دماغ کو اسکین کیا جن کو مصنوعی مقناطیسی میدان والے تاریک ٹیسٹ چیبر میں بیٹھنے کی ہدایت کی۔
دماغی تجزیے سے ثابت ہوا کہ 34 میں سے 4 افراد نے مقناطیسی میدان کا رخ شمال مشرق سے شمال مغرب کی جانب ہونے پر مضبوط ردعمل کا اظہار کیا، مگر دیگر سمتوں پر ایسا نہیں ہوا۔
ان چاروں افراد میں ایک دماغی لہر گھٹ گئی جو اس بات کا عندیہ تھا کہ دماغ کوئی سگنل پکڑ رہا ہے جو کہ ممکنہ طور پر مقناطیسی تھا۔
یہ واضح نہیں کہ کچھ افراد کیوں مقناطیسی میدان پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں جبکہ دیگر کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی واضح نہیں کہ دماغ کیسے ان سگنلز کو شناخت کرتا ہے مگر ماضی میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ انسانی دماغ میں متعدد ننھے مقناطیسی ذرات موجود ہوتے ہیں جو ممکنہ طور پر اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔
موت کا خوف دور کرنا
ہر انسان کو ہی ایک دن مرنا ہے مگر یہ ہمارا دماغ ہے جو ہماری موت کے خیال کے خلاف ڈھال ثابت ہوتا ہے۔
یعنی دماغ اس خیال کو طاری نہیں ہونے دیتا کہ ایک دن ہمیں بھی مرنا ہے۔
ویسے تو دماغ پرانی معلومات کو مسلسل استعمال کرکے مستقبل میں ملتے جلتے حالات کی پیشگوئی کرتا ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دماغ یہ بھی پیشگوئی کرسکتا ہے کہ آپ کو ایک دن مرنا ہے۔
مگر سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ ہماری اپنی موت کا خیال معلومات کے تجزیے دماغی عمل میں کہیں گم ہوجاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے 24 افراد کے دماغوں کے ردعمل کا اس وقت دیکھا گیا جب ان کے سامنے موت سے جڑے الفاظ کو دکھایا گیا، ان کی دماغی سرگرمیوں کے پیمانے سے معلوم ہوا کہ دماغ کا پیشگوئی کرنے والا طریقہ کار کسی فرد کی اپنی موت کے خیال پر کام نہیں کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
یہ واضح نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اپنی موت کا شعور کسی فرد میں ایسا خوف پیدا کرسکتا ہے جو اسے زندگی میں آگے بڑھنے یا مختلف کاموں کے لیے خطرہ مول لینے سے روکے گا۔
دماغ کی صفائی
سائنسدان عرصے سے جانتے ہیں کہ نیند کے دوران دماغی سرگرمیاں کافی مختلف ہوتی ہیں مگر 2019 میں پہلی بار یہ دریافت کیا گیا کہ انسان جب سوتے ہیں تو عصبی خلیات خاموش ہوتے ہی خون سے باہر بہہ جاتا ہے اور ایک پانی جیسے سیال کا بہاﺅ شروع ہوجاتا ہے جو دماغ کی صفائی کرتا ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار سائنسدان نیند کے دوران دماغ میں ہونے والے اس عمل کی تصاویر لینے میں کامیاب ہوئے اور انہیں توقع ہے کہ اس سے دماغی امراض کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔
کیئر برو اساپئنل فلوئیڈ (سی ایس ایف) نامی یہ سیال ریڑھ کی ہڈی میں پایا جاتا ہے اور اس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ دماغ سے زہریلے مواد کو صاف کرتا ہے جو ڈیمینشیا (بھولنے کی بیماری) کا باعث بنتا ہے۔
تحقیقی ٹیم میں شامل پروفیسر لورا لوئس کا کہنا تھا کہ یہ ایک ڈرامائی اثر ہے، سی ایس ایف نیند کے دوران یہ کام کرتا ہے، یہ کچھ ایسا ہے جس کا ہمیں پہلے علم نہیں تھا۔
تحقیق کے دوران 23 سے 33 سال کے 13 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کرکے دوران نیند ایم آر آئی اسکینر سے ان کے دماغ کا جائزہ لیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں نے رضاکاروں کے دماغوں میں مختلف قسم کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی اور الیکٹروڈز سے اعضابی خلیات کی جانچ پڑتال کی گئی جبکہ ایم آر آئی سے ان عصبی خلیات کو توانائی فراہم کرنے والے آکسیجن ملے خون کی موجودگی کو دیکھا گیا۔
ایم آر آئی کی ایک اور قسم سے تحقیقی ٹیم نے دماغ میں سی ایس ایف کی سرگرمیوں کا بھی معائنہ کیا۔
انہوں نے دیکھا کہ نیند کے دوران برقی سگنلز جن کو ڈیلٹا ویوز بھی کہا جاتا ہے، نمودار ہوئیں اور اس کے چند سیکنڈ بعد سر سے خون باہر نکلنے لگا اور پھر سی ایس ایف دماغ میں بھرنے لگا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ دیکھ کر اچھل پڑے کیونکہ یہ بہت چونکا دینے والا تھا۔
الزائمر (ڈیمینشیا کی سب سے عام قسم) امراض کے شکار افراد میں ڈیلٹا ویوز کمزور اور بہت کم ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں دماغ میں دوران خون متاثر ہوتا ہے اور سی ایس ایف کی نیند کے دوران صفائی کا عمل بھی پورا نہیں ہوتا۔
اس کے نتیجے میں زہریلے پروٹین کا اجتماع ہونے لگتا ہے اور یاداشت متاثر ہوجاتی ہے۔
دماغ کی خود کو ڈھالنے کی حیرت انگیز صلاحیت
دماغ میں خود کو بدلنے اور حالت کے مطابق ڈھالنے کی حیران کن صلاحیت موجود ہے، جس کا اظہار ایسے افراد کے چھوٹے گروپ میں ہوا جن کا آدھا دماغ بچپن میں مرگی کے نتیجے میں ختم ہوگیا تھا۔
دماغ کے 50 فیصد حصے سے محرومی کے باوجود دماغی افعال بدستور پوری مضبوطی سے کام کرتے رہے۔
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے 20 سے 30 سال کی عمر کے 6 افراد کے دماغوں کا تجزیہ کیا جن کا 50 فیصد دماغ 3 ماہ سے 11 سال کے دوران ختم ہوگیا تھا اور اس کا موازنہ صحت مند افراد کے دماغوں سے کیا گیا۔
دماغی اسکین سے ثابت ہوا کہ آدھے دماغ کے مالک افراد کے دماغی حصے ایک نیٹ ورک کی طرح مل کر اسی طرح کام کرتے ہیں جیسے صحت مند افراد کا دماغ کرتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایک حصے سے محرومی کے باوجود بھی مختلف دماغی حصے ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دماغ بڑے حصے سے محرومی کے باوجود خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
زبان سیکھنے کے لیے مختص اسٹوریج
آپ کے دماغ کو کسی زبان میں مہارت کے لیے اسٹوریج کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اوسط انگلش بولنے والے بالغ افراد کے دماغ کو اس زبان سے جڑی تفصیلات کے لیے 12.5 ملین بٹ یا 1.5 میگا بائیٹس اسٹوریج کی ضرورت ہوتی ہے۔
زبان کی اتنی زیادہ تفصیلات کے لیے دماغ کو صرف و نحو کی بجائے الفاظ کے مطلب کے لیے زیادہ اسٹوریج کی ضرورت ہوتی ہے۔
اچھے حالات میں ایک دن میں ایک بالغ فرد اپنی کسی آبائی زبان کا ایک سے 2 ہزار بٹ یاد کرسکتا ہے، اور بدترین حالت میں یہ شرح 120 بٹ ہوسکتی ہے۔
مردہ دماغ کو 'زندہ' کرنا
سائنسدانوں نے مردہ جانوروں کے دماغ میں سرکولیشن اور خلیاتی سرگرمی کو ان کی موت کے کئی گھنٹوں بعد بحال کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس تجربے میں سائنسدانوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ خلیات کے مرنے کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اور کچھ کیسز میں اسے معطل یا ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
محققین نے ایسے مردہ دماغوں کے تجزیے کے لیے ایک سسٹم برین ایکس تیار کیا جو سنیتھک خون کے متبادل کو دماغی شریانوں میں داخل کرتا۔
اس سیال کو 32 مردہ جانوروں کے دماغوں میں ان کی موت کے 4 گھنٹے بعد داخل کیا گیا اور اسے 6 گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ اس سے دماغی خلیات کا اسٹرکچر محفوظ ہوگیا، خلیات کی موت کی شرح کم ہوگئی اور کچھ خلیاتی سرگرمیاں بحال ہوگئیں۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس سے کسی قسم کی سرگرمی تو دماغ میں نمودار نہیں ہوئی جو ہوش یا شعور اجاگر ہونے پر ہوتی ہے، جس پر سائنسدانوں نے سوال کیا کہ تو پھر دماغ کو زندہ کرنے کے دعویٰ کیا مطلب ہے؟ فی الحال یہ تحقیق جانوروں پر ہوئی ہے انسانوں پر نہیں۔
چھپا ہوا شعور
کوما یا ہوش و حواس سے عاری کچھ مریضوں میں 'خفیہ شعور' کی علامات نظر آتی ہیں۔
ایک تحقیق کے دوران سو سے زائد مریضوں کی دماغی لہروں کا تجزیہ کیا گیا جو کسی دماغی چوٹ کے باعث ہوش و حواس سے محروم ہوچکے تھے اور دریافت کیا کہ انجری کے چند دنوں کے اندر ہر 7 میں سے ایک مریض میں انتہائی گہرائی میں دماغی سرگرمی کا پیٹرن یا خفیہ شعور اس وقت نظر آتا ہے، جب انہیں ہاتھ ہلانے کا کہا جاتا ہے۔
اس سے عندیہ ملتا ہے کہ مریض ہدایت تو سمجھ لیتے ہیں مگر حرکت نہیں کرپاتے، ایک سال بعد 44 فیصد مریضوں میں خفیہ شعور کی ابتدائی نشانیاں نظر آنے لگیں جو روزانہ کم از کم 8 گھنٹے تک فعال رہتا۔
14 فیصد مریضوں میں اس خفیہ شعور کی ابتدائی علامات نظر نہیں آئیں، اور محققین کا کہنا تھا کہ اس خفیہ شعور کی علامات جن مریضوں میں نظر آتی ہیں، ان کی صحت یابی کا امکان دیگر مریضوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں