پی آئی سی ہنگامہ آرائی: عدالت کا گرفتار 25 وکلا کی رہائی کا حکم
لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار تمام 25 وکلا کی ضمانتیں منظور کر تے ہوئے فوری رہائی کا حکم دے دیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج چوہدری محمد اقبال نے 25 وکلا کی جانب سے دائر بعد از گرفتاری درخواست ضمانت پر سماعت کی جس کی پیروی رانا انتظار ایڈووکیٹ نے کی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تمام ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں اور ان سے مزید تفتیش درکار نہیں ہے اس لیے وکلا کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
رانا انتظار نے دلائل میں کہا کہ جب مزید تفتیش درکار نہیں ہے تو پھر عدالت گرفتار وکلا کو رہا کرنے کا حکم دے جبکہ سرکاری وکلا نے ضمانت کے لیے دائر درخواستوں کی مخالفت کی۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی سی حملہ: سپریم کورٹ بار نے وکلا پر 'غیر قانونی الزامات' مسترد کردیے
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج چوہدری محمد اقبال نے دونوں فریقین کے دلائل اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنایا۔
عدالت نے ملزمان وکلا کی ایک، ایک لاکھ کے مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کی اور گرفتار تمام وکلا کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اس سے قبل مذکورہ کیس میں گرفتار 17 وکلا کو گزشتہ ہفتے ضمانتوں پر رہا کردیا گیا تھا جبکہ شناخت پریڈ نہ ہونے پر 7 وکلا کو مقدمے سے الگ کر دیا گیا تھا۔
لاہور کی ہی ایک خصوصی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے اسی کیس میں وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کی ضمانت قبل از گرفتاری میں 2 جنوری تک توسیع کر دی تھی۔
حسان نیازی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے تاحال رپورٹ پیش نہیں کی جاسکی حالانکہ حسان نیازی تفتیش میں شامل ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حسان نیازی پولیس سے مکمل تعاون کر رہے ہیں، لہٰذا ان کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کی جائے۔
بعد ازاں عدالت نے حسان نیازی کی ضمانت قبل از گرفتاری میں 2 جنوری تک توسیع کردی اور انہیں اگلی سماعت کے دوران دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کردی۔
مزید پڑھیں:پی آئی سی واقعہ: وزیراعظم کے بھانجے کی عبوری ضمانت میں 2 جنوری تک توسیع
یاد رہے کہ 11 دسمبر کو لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر وکلا نے ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی تھی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔
جس کے بعد پی آئی سی پر حملے کے بعد پولیس نے 81 وکلا کو گرفتار کرلیا تھا، لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے متعدد وکلا کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا تھا جبکہ پولیس کی جانب سے پی آئی سی پر حملے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق پولیس کی درخواست مسترد کردی تھی۔
شادمان پولیس نے 200 سے 250 وکلا کے خلاف کے 2 ایف آئی آرز درج کی تھیں جن میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ نمبر 7 شامل کی گئی تھی۔
ڈاکٹر عرفان کے خلاف مقدمے کے اندراج کا حکم
دوسری جانب عدالت نے 21 دسمبر کو پی آئی سی میں وکلا کو ہنگامہ آرائی کے لیے مبینہ طور پر اکسانے کا سبب بننے والی متنازع تقریر کرنے والے ڈاکٹر عرفان کے خلاف انکوائری مکمل کر کے مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ نے حیدر زمان ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی جہاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر عرفان کے خلاف درخواست پر انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی سی ہنگامہ آرائی: عدالت کا ڈاکٹر عرفان کے خلاف مقدمہ درج کا حکم
انہوں نے کہا تھا کہ سائبر کرائم سرکل کو حیدر زمان ایڈووکیٹ کے علاوہ دیگر وکلا کی درخواست بھی موصول ہوئی ہے جس پر کارروائی کی جارہی ہے۔
عدالت نے ڈاکٹر عرفان کے خلاف انکوائری شروع کرنے کی ایف آئی اے کی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ نے ایڈووکیٹ حیدر زمان کی درخواست نمٹاتے ہوئے ایف آئی اے کو ڈاکٹر عرفان کے خلاف انکوائری کے عمل کو تیز کرنے اور مکمل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔