• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

سال 2019ء پاکستانی سینما کے لیے کیسا رہا؟ تفصیلی جائزہ

ان باتوں کو سمجھےبغیر اندازہ نہیں ہوسکے گا کہ فلمی صنعت کیلئےجو نعرہءِ بحالی لگایا جارہا ہے اس میں کہاں تک پیش رفت ہوئی؟
شائع December 24, 2019 اپ ڈیٹ December 31, 2019

رواں برس 2019ء میں پاکستانی فلمی صنعت کے حالات بہت حوصلہ افزا نہیں رہے، جس کی کئی وجوہات ہیں، اور ان وجوہات کو باریکی سے سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کو سمجھے بغیر ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوسکے گا کہ فلمی صنعت کہاں کھڑی ہے اور طویل عرصے سے فلمی صنعت کے لیے جو نعرہءِ بحالی لگایا جا رہا ہے، اس میں کہاں تک پیش رفت ہوئی؟ کچھ کامیابی حاصل ہوئی بھی ہے یا ابھی تک دُور کے ڈھول سہانے ہی ہیں۔

رواں برس کی فلموں پر طائرانہ نظر

پاکستان میں اس سال نمائش کی غرض سے جتنی فلموں کا اعلان کیا گیا، ان کی تعداد 30 سے زیادہ تھی، لیکن عملی طور پر پورے سال میں جو فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوسکیں، ان کی کل تعداد 23 ہے۔

سال کے 12 مہینوں کو اگر 3 حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو پہلے حصے میں جنوری سے لے کر اپریل کے درمیان ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 6 ہے۔ ان فلموں میں

  • جیک پاٹ،
  • لال کبوتر،
  • شیر دل،
  • جنون عشق اور
  • پروجیکٹ غازی شامل ہیں۔

ان فلموں میں سے باکس آفس پر صرف 2 فلمیں ’لال کبوتر‘ اور ’شیر دل‘ کامیاب رہیں بلکہ لال کبوتر کو تو سال کی 3 بہترین فلموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ پھر رواں برس پاکستان کی طرف سے آسکر کے لیے بھیجی جانے والی آفیشل نامزدگی بھی اسی فلم کی ہوئی۔ یہ اب تک کئی غیر ملکی فلمی فیسٹیولز میں اعزازات بھی سمیٹ چکی ہے۔ یہ خالص طور پر مقامی رنگ میں رنگی پاکستانی فلم ہے، جس میں کراچی شہر کے مقامی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔

سال کے دوسرے حصے یعنی مئی سے اگست کے درمیان نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلموں کی کل تعداد 11 ہے۔ ان نمائش کی جانے والی فلموں میں

  • چھلاوا،
  • رونگ نمبر 2،
  • کتاکشا،
  • باجی،
  • ریڈی اسٹیڈی گو،
  • تم ہی تو ہو،
  • تیور،
  • ہیر مان جا،
  • پرے ہٹ لو،
  • سپر اسٹار شامل ہیں۔

ان میں سے ’چھلاوا‘، ’رونگ نمبر 2‘، ’پرے ہٹ لو‘ اور ’سپر اسٹار‘ نے باکس آفس پر نمایاں کامیابی حاصل کی۔

اسی طرح سال کے تیسرے اور آخری حصے میں کل 6 فلمیں نمائش پذیر ہوئیں، جن میں

  • دال چاول،
  • دُرج،
  • کاف کنگنا،
  • تلاش،
  • سچ اور
  • بے تابیاں شامل ہیں۔

اس حصے میں کوئی بھی فلم باکس آفس پر نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی اور تمام ہی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یعنی سال کی ابتدا بھی ناکامی سے شروع ہوئی اور اختتام بھی ناکامی پر ہوا، صرف درمیانی عرصے میں چند ایک فلمیں باکس آفس پر توجہ بٹورنے میں کامیاب ہوئیں۔

سال کی بہترین فلموں کا انتخاب کیا جائے تو وہ 3 فلمیں ہیں، جن میں میری رائے کے مطابق سب سے بہتر فلم لال کبوتر ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار کمال خان ہیں۔ جبکہ دوسری فلم باجی ہے، جس کی ہدایات ثاقب ملک نے دی ہیں۔ اس فلم کے ذریعے تمثیلی طور پر بہت ہی ماہرانہ انداز میں پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے عمل کی کوششوں کو فلم میں ایک اداکارہ کے کیرئیر کی بحالی کے ساتھ جوڑ کر دکھایا جاتا ہے، پھر اس فلم میں جس طرح اس اداکار کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے موجودہ سینما کے ساتھ وقوع پذیر ہے۔ تیسری فلم رونگ نمبر 2 ہے، جس کے ہدایت کار یاسر نواز ہیں۔ یہ ایک ہلکی پھلکی مزاحیہ فلم ہے، جس کو ہر طرح کا فلم بین دیکھنا چاہتا ہے۔

فلموں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟

پورے سال 20 پاکستانی فلمیں کچھ خاص کمائی نہیں کرسکیں، بلکہ ان میں کئی فلمیں تو ایسی ہیں جو اپنا خرچہ بھی نہیں نکال پائیں۔

دوسری طرف انڈین فلمیں بند ہونے سے جدید سینما گھروں کے مالکان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنا نظام کیسے چلائیں؟ ہر چیز کے ساتھ یہ تفریح بھی مہنگی ہے، تو پھر یہ کس طرح ترقی کرے گی؟ اسی بھیڑ چال میں ’لال کبوتر‘ جیسی معیاری فلمیں بھی متاثر ہوئیں، جن سے بہت زیادہ پیسے تو نہیں کمائے جاسکے، البتہ ایک مختلف سینما کے رجحان کو ضرور متعارف کروایا گیا، جو صرف کراچی کی فلمی صنعت ہی کرسکتی ہے۔

اس صورتحال کے اسباب درج ذیل ہیں جس کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں فلمی صنعت کو درپیش مسائل سمجھ آسکیں اور پھر ان مسائل کا کوئی تدارک بھی کیا جاسکے۔

ہمارا مقصد بھی زبانی تنقید کی بجائے تعمیری تنقید ہے تاکہ پاکستانی سینما کو حقیقی فروغ دیا جاسکے۔ اس ذیل میں چند ایک موٹی موٹی وجوہات ہیں اور یہی وہ وجوہات معلوم ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہماری فلمی صنعت اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو پارہی ہے۔

2020ء کے لیے اب جن کی فلموں کی نمائش کا اعلان کیا گیا ان میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ اور ’زندگی تماشا‘ جیسی اہم فلمیں بھی شامل ہیں، یوں اگلے سال ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے، لیکن جس طرح اس سال تمام فلمیں ریلیز نہیں ہوسکیں، اگلے سال بھی سب فلموں کی نمائش ممکن ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔

تو اس جائزے کے ساتھ ساتھ ان اسباب کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستانی فلمی صنعت تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکی ہے۔ اتنے برسوں میں بھی صرف چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکا ہے۔ انگلیوں میں گنی جانے والی کامیاب فلموں کی بنیاد پر فلمی صنعت کو کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔

فلموں کی نمائش میں عدم تسلسل

پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی لگنے کے بعد سینما مالکان اور فلم بینوں کے لیے انتخاب بہت محدود ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں مشکل سے نکلنے کے لیے یہی ایک راستہ ہے کہ یا تو انگریزی فلمیں باقاعدگی سے نمائش کے لیے پیش ہوتی رہیں یا پھر پاکستانی فلموں کی تعداد اتنی ہوجائے جن کو تسلسل کے ساتھ نمائش کے لیے پیش کیا جاسکے۔

اب معاملہ یہ ہے کہ انگریزی فلمیں دیکھنے کے خواہشمند سینما تک آنے اور اتنا زیادہ پیسہ خرچ کرنے کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں، اس لیے ان کی اکثریت ڈاؤن لوڈ کے آپشن کو اختیار کرلیتی ہے۔

اگر پاکستانی فلموں کا ذکر کریں تو ان کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے اور ان میں سے بھی اکثر فلمیں باقاعدہ فلموں کی تعریف پر بھی پوری نہیں اتر رہی ہوتیں۔ مسلسل ان غلطیوں اور خامیوں کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اتنے برسوں سے پاکستانی سینما کی بحالی کا نعرہ سننے والے فلم بین بھی اکتا چکے ہیں۔ وہ فلم کے ٹیزر اور ٹریلر سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس پر پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟

اگر حکومتی کردار پر روشنی ڈالی جائے تو موجودہ حکومت کو بھی پچھلی حکومتوں کی طرح اس شعبے میں کوئی دلچسپی نہیں، اس لیے وہ اس کی بہتری کے لیے کچھ کریں گے، اس کی امید لگانا بھی فضول ہے۔

اچھے اسکرپٹ کی کمی ہی ناکام فلموں کی وجہ

پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں میں بننے والی فلموں کی ناکامی کی بڑی وجہ اچھے اسکرپٹ کی کمی بھی ہے۔ ہمارے ہاں تکنیکی اعتبار سے تو بہت تبدیلی آگئی ہے، جیسے پڑھے لکھے فلم ساز منظر نامے پر ابھر رہے ہیں، لیکن کہانی کے لکھے جانے یا اس کے انتخاب میں تاحال ناکامی ہے۔

پاکستانی فلم بین کیسی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں یہ بات کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ایک اور اہم سوال ہے جو فل بنانے والوں کو خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا سب فلموں سے پیسے ہی کمانے ہیں؟ کیا کچھ فلمیں پاکستان کی تہذیبی شناخت اور غیر ملکی پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے نہیں بنائی جاسکتیں؟ پاکستانی ادب اتنا زرخیز ہے، اس سے ماخوذ کرکے بھی بہت اچھی کہانیوں پر فلمیں بن سکتی ہیں، اس طرف کسی کا دھیان کیوں نہیں ہے؟

نئی فلموں میں سارا زور تکنیک اور اسے پیش کرنے پر ہی ہوتا ہے، جبکہ متن اور اسکرپٹ بُری طرح نظر انداز ہے۔ لہٰذا جب تک اس مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا، ہماری فلمیں شائقین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکیں گی۔ لطف کی بات یہ ہے جو فلمیں باکس آفس پر ہٹ ہیں، اسکرپٹ وہاں بھی عنقا ہے۔

فلموں کا جعلی باکس آفس

پاکستان میں کچھ سال سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلموں کا بزنس کروڑوں میں ہونے لگا ہے، اسی طرح ان فلموں کی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس سال کی سب سے زیادہ کمانے والی فلم ’سپر اسٹار‘ ہے، جس نے تقریباً 27 کروڑ روپے کمائے۔

2017ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ نے باکس آفس پر 50 کروڑ سے زیادہ کمایا لیکن دوسری طرف ایک عجیب معاملہ یہ بھی سامنے آیا کہ کئی ایسی فلمیں جو تخلیقی طور ناکام ہوئیں یا انہیں فلم بینوں نے پسند نہیں کیا، وہ بھی عمدہ بزنس کرنے والی فلموں میں شامل رہیں۔

پہلے تو مجھے خیال ہوا کہ اتفاق سے ایسا ہو بھی سکتا ہے، لیکن جب ہر دوسری گھٹیا اور غیر معیاری فلم کروڑوں کمانے لگی اور کم، کم لیکن چند ایک معیاری فلمیں مسلسل باکس آفس پر ناکامی سے دوچار ہوئیں تو اس باکس آفس پر شبہ ہوا۔ ذرا چھان بین کرنے پر پتہ چلا کہ چند نجی تفریحی ادارے، جن کا کام باکس آفس کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھنا ہے، وہ اس گیم میں شامل ہیں اور ہندسوں کا ہیر پھیر کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں کراچی اور لاہور کے مقامی فلم سازوں کی اکثریت بھی ملی ہوئی ہے۔

اس بات پر یقین اس لیے کرنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ جتنے برسوں سے ہماری فلمیں کروڑوں کا بزنس کر رہی ہیں، وہ اگر واقعی ہوا ہوتا اور فلمی صنعت میں دولت کی اتنی ریل پیل ہوتی تو اب تک سینماؤں کی تعداد مزید بڑھ گئی ہوتی، پروڈکشن میں بھی اضافہ ہوچکا ہوتا اور سب سے اہم بات فلمی صنعت میں روزگار بڑھتا، خوشحالی آتی، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، زمینی حقائق کوئی اور داستان کہہ رہے ہیں۔

فلمی صنعت کی حالت مزید پتلی ہوتی جا رہی ہے، پاکستان کے کئی بڑے چینل اور کئی بڑے فلم ساز ایک ایک کرکے باکس آفس پر ناکام ہوئے اور اب سب راوی کے ساتھ بیٹھے چین لکھ رہے ہیں۔

کہیں ایسا کیا جانا چند لوگوں کی سرمایہ کاری کو گھیرنے کی منصوبہ بندی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی قیمت پوری فلمی صنعت کو دینی پڑے گی۔ چند ایک نئے فلم سازوں نے ہمت کی کہ اچھی، سنجیدہ اور کم بجٹ کی فلمیں بنائی جائیں، جس کی وجہ سے سینما میں کچھ سنجیدگی کا عنصر محسوس ہوا، لیکن ان کی شمولیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

لہٰذا اس مصنوعی باکس آفس سے متعلق سنجیدگی سے چھان بین ہونی چاہیے۔ ایسا کرکے اگرچہ وقتی طور پر فلمی صنعت کا عروج دکھایا جارہا ہے لیکن بعد میں سارا ملبہ اپنے ہی پیروں پر گہری چوٹ مار سکتا ہے۔

پاکستانی سینما کے ماضی پر ایک نظر

ایک اندازے کے مطابق پاکستان بننے کے بعد سے اب تک 17 سے 18 ہزار فلمیں ریلیز ہوئیں، جس میں اردو فلموں کی تعداد تقریباً 2 ہزار، پنجابی فلمیں 8 ہزار، پشتو فلمیں 6 ہزار، جبکہ سندھی اور بلوچی ملاکر 2 ہزار فلمیں بنی ہیں۔

لیکن ان 70 سالوں میں 60ء اور 70ء کی دہائی ہمارے لیے سنہری دور ثابت ہوئی۔ اس کے بعد فلم پر جو زوال آیا، وہ الگ داستان ہے۔

پھر گزشتہ 4 برسوں کی بہترین فلموں کا جائزہ لیں تو اس میں 2016ء میں ریلیز ہونے والی ماہِ میر، 2017ء میں ریلیز ہونے والی ساون، 2018ء میں ریلیز ہونے والی کیک اور اب 2019ء کی بہترین فلم لال کبوتر ہے۔

یہ وہ فلمیں ہیں پاکستان کی طرف سے آسکر نامزدگی کے قابل بھی سمجھی گئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی باکس آفس پر اچھا بزنس نہیں کرسکی۔ اس صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ کیا ہمارے لوگ غیر معیاری فلمیں شوق سے دیکھنے لگے ہیں؟ کیا ہم اچھی فلم بناتے وقت یہ سوچ لیں کہ اس سے کمائی نہیں ہونے والی؟

اس صورتحال پر سنجیدہ طریقے سے دیکھنے، سمجھنے اور اس پر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ مصنوعی انداز میں سینما کی بحالی زیادہ دنوں تک چل نہیں پائے گی۔ اس بحالی کے منجن کا وقت اب ختم ہورہا ہے، یہ پرانا منجن زیادہ دنوں تک نہیں چلے گا۔

باہمی اشتراک وقت کی اہم ضرورت

ہماری فلمی صنعت میں ہر کوئی اپنا ڈیڑھ اینٹ کا گوشہ بنائے بیٹھا اور فلمیں بنارہا ہے، جس سے فلمی صنعت مجموعی طور پر یکساں دکھائی نہیں دے رہی۔ پھر جس ادارے یا شخص کی فلم ہوتی ہے، اس کو لگتا ہے اس سے اچھا کوئی فلم ساز اس ملک میں ہے ہی نہیں اور اس طرح کے دیگر رویے بھی فلمی صنعت کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں صورتحال کچھ بہتر ہو تو ہمیں ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ جو بھی تھوڑی بہت فلمیں بن رہی ہیں، ان کی ایک ترتیب بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پورا سال پاکستان کے سینماؤں پر فلمیں ریلیز ہوتی رہیں۔ انڈین فلموں کو بھی محدود اور مشروط نمائش کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ہمارے ہاں سینما مالکان کے اخراجات نکل سکیں اور فلم بین اسی بہانے سے سینما کا رخ بھی کرے۔

حرف آخر

پاکستان میں فلم کے زرخیز ذہن موجود ہیں، حال ہی میں سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ کا ٹیزر اور ٹریلر ریلیز ہوا. اس کی کہانی، موسیقی اور پیشکش سب کچھ مقامی ہے، لیکن یہ سب باکمال ہے۔ ہمیں اپنے اندر کی پاکستانیت کو عملی طور پر اپنانا ہوگا، پڑوسیوں کے ساتھ موازنہ کرنے یا ہولی وڈ کے رعب میں آنے سے بہتر ہے، آزاد ذہن کے ساتھ اپنے موضوعات پر کام کریں۔

اپنی زمین سے جڑی کہانیوں کو فلموں کی زینت بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ بناوٹ اور دکھاوے کی بجائے حقیقی طور سے ان فلموں کا فریم تیار کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے کام سے مخلص ہوں، صرف فلمیں ریلیز کرنے اور ان سے کمائی کے ہندسے ہی نہ گنتے رہیں، بلکہ پاکستانی سینما کی تعمیر کو اپنی ترجیح بناکر کام کریں اور بحالی کا نعرہ لگانا بند کرکے کام میں لگ جائیں، کیونکہ جب اس طرح کام شروع ہوگا تو سب کچھ خود ہی بحال ہوجائے گا۔

پاکستان کے موجودہ سینما کو اسی سوچ کی ضرورت ہے، امید ہے نئے سال میں اس پر عمل درآمد ہوسکے گا۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔