ای سی ایل کا معاملہ: وفاقی حکومت اپنے فیصلے سے مریم نواز کو آگاہ کرے، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر جو بھی فیصلہ کرے اس سے درخواست گزار (مریم نواز) کو آگاہ کیا جائے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت عالیہ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں جسٹس انوار الحق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مریم نواز کی نئی درخواست پر سماعت کی۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے ایڈووکیٹ امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ کیا عدالتی حکم کو 7 دن ہوگئے ہیں، جس پر مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ اس حکم کے روز سے آج تک 14 دن ہوگئے ہیں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ 9 دسمبر کو عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کی نظرثانی کمیٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ ان کی موکلہ کے نمائندے عطا تارڑ حکومتی کمیٹی کے سامنے پیش بھی ہوئے تاہم کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اس موقع پر عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نظرثانی کمیٹی اپنی سفارشات کابینہ کو دیتی ہے اور پھر ای سی ایل سے نام نکالنے کا فیصلہ کابینہ کرتی ہے۔
وفاقی حکومت نے بتایا کہ کابینہ کا اجلاس کل ہوگا اور امید ہے کہ کل ہی مریم نواز کے معاملے پر فیصلہ ہوجائے۔
اس پر عدالت نے وفاقی حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ کل آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے مریم نواز کو آگاہ کریں۔
دوران سماعت جسٹس انوار الحق نے مریم نواز کے وکیل سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں یہ کیس قابل سماعت کیسے ہے، آپ نے یہ درخواست مریم نواز کے لیے کی ہے یا میاں نواز شریف کے لیے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مریم نواز اور نواز شریف کے کیسز آپس میں جڑے ہوئے ہیں اس لیے نواز شریف کے کیسز کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
اس پر جسٹس انوار الحق نے کہا کہ ابھی حکومت نے ای سی ایل سے نام نکالنے کے معاملے پر فیصلہ کرنا ہے۔
ساتھ ہی عدالت کے یہ ریمارکس بھی دیکھنے میں آئے کہ آج اخبار پر نظر پڑی اس میں لکھا تھا کہ حکومت مریم نواز کو باہر نہیں جانے دے گی۔
علاوہ ازیں جسٹس انوارالحق نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جو فیصلہ کرنا ہے وہ کرے لیکن وہ فیصلے سے پہلے بیان کیسے دے رہی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ہدایت دی کہ حکومت جو بھی فیصلہ کرتی ہے اس سے درخواست گزار کو آگاہ کیا جائے، جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت 26 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
مریم نواز کا معاملہ کیا ہے؟
خیال رہے کہ 8 اگست 2019 کو چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو ان کے کزن یوسف عباس کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں 25 ستمبر 2019 کو احتساب عدالت نے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے 30 ستمبر کو اسی کیس میں ضمانت بعد ازگرفتاری کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
تاہم اکتوبر کے اواخر میں ان کے والد نواز شریف کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی جس کے باعث انہوں نے 24 اکتوبر کو بنیادی حقوق اور انسانی بنیادوں پر فوری رہائی کے لیے متفرق درخواست دائر کردی تھی۔
اس درخواست پر سماعت میں نیب کے ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرل نے مریم نواز کی انسانی بنیادوں پر ضمانت کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ واضح کردیا گیا کہ انتہائی غیر معمولی حالات میں ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مریم نواز کا کیس انتہائی غیر معمولی حالت میں نہیں آتا۔
تاہم عدالت عالیہ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا لیکن انہیں اپنا پاسپورٹ اور ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا کہا گیا تھا۔
بعد ازاں نیب نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مریم نواز کو دی گئی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرلیا تھا۔
اسی اثنا میں مریم نواز نے اپنے پاسپورٹ کی واپسی اور بیرون ملک جانے کے لیے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکلوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
مریم نواز سے 7 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے، جس کے بعد 9 دسمبر کو جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے حکومت کی نظرثانی کمیٹی کو 7 روز میں مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی نظرثانی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹادی تھی۔
تاہم اس کے بعد پھر 21 دسمبر کو مریم نواز نے اپنے بیرون ملک روانگی کے لیے ایک مرتبہ پھر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
حالیہ درخواست میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے ایک مرتبہ پھر 6 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی تھی۔
مذکورہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’حکومت کو مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کی ہدایت دی جائے‘۔