اگر میرے پیچھے کوئی گاڑی نہیں آئی، تو پھر وہ روشنیاں کیسی تھیں؟
تحریر و تصاویر: عبیداللہ کیہر
پہلی قسط یہاں اور دوسری قسط یہاں پڑھیے
بنی گالا کا بھوت
اسلام آباد اپنی دلکش آب و ہوا، دلفریب ماحول، امن و امان، اعلیٰ انتظامات، خوبصورت سبزہ زاروں اور رنگارنگ چمن زاروں کی وجہ سے دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ ملک بھر سے ہی نہیں، دنیا بھر سے جو بھی یہاں آتا ہے وہ اس کی خوبی و خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ لیکن یہ تو اسلام آباد کا وہ پہلو ہے جو سب کو نظر آتا ہے، البتہ اسی بارونق اسلام آباد کے کچھ گوشے ایسے بھی ہیں جو خاصے عجیب اور پُراسرار ہیں۔
یہاں لوگوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعات بھی پیش آجاتے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شہر نہ صرف انسانوں کو، بلکہ بھوت پریت اور جنات وغیرہ کو بھی بڑا پسند ہے۔ وہ بھی اس شہر کے پُرسکون اور ویران گوشوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ البتہ ضروری نہیں کہ یہ آسیبی مخلوق ہر ایک کو نظر آئے، بس کبھی کبھی کسی کو نظر آجاتی ہے۔
یہاں کچھ نہ کچھ ایسے پُراسرار واقعات بھی ہوتے ہیں جو اسلام آباد کے ویران گوشوں میں کسی نہ کسی کو پیش آجاتے ہیں۔ بس اسی طرح کا ایک واقعہ ایک مرتبہ میرے ساتھ بھی پیش آیا۔
ہمارے دوست آصف (جن کو ایک رات مری روڈ پر برقعہ پوش جن نظر آئے تھے) اسلام آباد کی مضافاتی بستی بنی گالا میں رہتے ہیں۔ میں اکثر ان سے ملنے جاتا ہوں۔ بنی گالا میں چونکہ عمران خان کا بھی گھر ہے اس لیے اب اس بستی سے اکثر لوگ واقف ہیں۔
اگرچہ بنی گالا آتا تو اسلام آباد ہی کی حدود میں ہے، لیکن یہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصہ نہیں۔ یہ راول ڈیم کے پچھلی طرف مشرق میں اس اراضی پر آباد ہے جو مرگلہ نیشنل پارک کا حصہ ہے، یعنی یوں کہیں کہ یہ ایک غیر قانونی آبادی ہے۔
راول جھیل کے مشرقی ساحل سے متصل یہ بستی سن 2000ء سے پہلے یہاں موجود ہی نہیں تھی، بلکہ خود راول ڈیم بھی 1960ء سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا۔ اس وقت تو یہاں صرف سرسبز جنگل اور ویران پہاڑی کا ڈیرہ تھا، جن میں چند قدیم گاؤں تھے یا پھر یہ جنگلی جانوروں کی آماجگاہیں ہوتی تھی۔
جب جنرل ایوب نے پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس کے لیے کوہِ مرگلہ کے دامن میں اسلام آباد کے نام سے نیا شہر بسانے کا آغاز کیا گیا۔ اس نئے شہر کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مری کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والی ’کورنگ ندی‘ پر یہاں ایک ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ یہاں شہر راولپنڈی سے موسوم ’راول ڈیم‘ بنا دیا گیا۔
اس ڈیم کے لیے کورنگ ندی کے علاوہ مرگلہ کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے کئی اور ندی نالوں کا پانی بھی دستیاب تھا۔ اس ڈیم کے اطراف میں موجود جنگلات کو نیشنل پارک کی حیثیت دے دی گئی اور یہاں ہر قسم کی تعمیرات کو ممنوع قرار دیا گیا۔ لیکن یہاں جو گاؤں دیہات پہلے سے موجود تھے اور ڈیم میں آنے سے بچ گئے تھے، وہ اسی طرح آباد رہے۔
جب یہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پھر عمران خان نے بھی اپنے بنگلے بنالیے تو پھر عام لوگوں نے بھی یلغار کردی۔ بنی گالا تیزی سے آباد ہوتا چلا گیا لیکن یہ آبادی کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوئی بلکہ دیہاتی انداز میں خودرو طریقے سے ہوتی چلی گئی۔ جس کو جو جگہ ملی ، جس سائز کی ملی، اس نے اپنی مرضی کے نقشے پر اپنا عالیشان یا غریبانہ مکان کھڑا کر لیا۔
اسلام آباد سے بنی گالا جانے کے لیے صرف 2 ویران سے راستے ہیں جو راول ڈیم کے اطراف سے گھوم کر جاتے ہیں۔ جھیل کے کناروں اور پہاڑی ڈھلوانوں کے درمیانی جنگل سے گزر نے والے ان راستوں پر کچھ ایسے ویرانے بھی ہیں جہاں دُور دُور تک کوئی ذی روح نظر نہیں آتا۔ یہاں بالکل سناٹا ہوتا ہے یا پھر ہوا میں جھومتے درخت اور سرسراتی گھاس ہوتی ہے۔
ان میں سے ایک راستہ راول ڈیم کی جنوبی طرف سے آتا ہے۔ یہ راستہ بارہ کہو کے قریب مری روڈ سے نکلتا ہے اور ایک ویران جنگل سے گزرنے کے بعد کورنگ ندی کا پل عبور کرکے بنی گالا میں داخل ہوتا ہے۔
بنی گالا کا دوسرا راستہ شمالی طرف سے راول ڈیم اسپل وے Spillway کے قریب چک شہزاد روڈ میں سے نکلتا ہے۔ یہ راستہ چند کھیتوں اور باغات میں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پھر اوپر پہاڑیوں کی طرف بلند ہوتا ہے۔ یہاں ایک موڑ آتے ہی پچھلے سارے منظر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور لوگ خود کو ایک ویرانے میں پاتے ہیں۔ یہاں سڑک کے دونوں طرف پہاڑیاں اور جنگل ہیں۔ ان پہاڑیوں کے درمیان میں کہیں کہیں راول ڈیم کا خوبصورت منظر بھی دکھائی دیتا ہے لیکن زیادہ تر ویرانہ ہی ہوتا ہے۔
یہ ویران سڑک ان پہاڑیوں میں کچھ دُور تک لہراتی ایک مختصر سے گاؤں لکھوال تک پہنچتی ہے۔ لکھوال کے ساتھ ہی ایک موڑ آجاتا ہے جہاں سڑک پہاڑی سے نیچے اترنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر چند کھیتوں اور وسیع و عریض فارم ہاؤسز کے درمیان سے گزرتی ہوئی بنی گالا کی آبادی میں داخل ہوجاتی ہے۔ آصف بھائی کا گھر مجھے اسی راستے سے قریب پڑتا ہے اس لیے میں اکثر اسی سڑک سے بنی گالا جاتا ہوں۔ البتہ اس رستے کی ویرانی کے پیش نظر میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ دن کی روشنی میں ہی واپس آجاؤں۔
لیکن ایک دن یہ ہوا کہ میں آصف کے گھر آیا ہوا تھا۔ آصف کہنے لگا کہ آج وہ مجھے جلدی نہیں جانے دے گا کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے بہت اچھی مچھلی آئی ہے جو ان کی بیگم میرے لیے فرائی کر رہی ہیں۔ آصف کی ضد تھی کہ میں مچھلی کھائے بغیر نہ جاؤں۔ میں نے کہا ’بھائی مچھلی، مرغی، گوشت جو بھی کھلانا ہے جلدی سے کھلا دیں۔ میں عصر اور مغرب کے درمیان یہاں سے نکل جانا چاہوں گا۔‘
’کیوں کیوں؟‘، آصف بولا۔
’بھائی یہ بنی گالا اور چک شہزاد کے درمیان والا پہاڑی راستہ کچھ زیادہ ہی ویران ہے، بلکہ مجھے تو یہ آسیب زدہ ہی لگتا ہے‘، میں بولا۔
’او رہنے دیں بھائی، یہ آپ کا وہم ہے۔ ہم تو یہاں سے دن رات گزرتے رہتے ہیں ہم نے تو کبھی ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘
’لیکن میرا تاثر تو یہی ہے۔ بہرحال کوشش کرو کہ میں یہاں سے جلدی نکل جاؤں۔‘
لیکن انہوں نے وہی کیا، جو انہیں کرنا تھا۔ مچھلی تو تلی ہی گئی، ساتھ میں شامی کباب بھی بنائے گئے اور پھر چائے بھی پیش کی گئی۔ ان سب چیزوں سے نمٹتے نمٹتے مغرب ہو ہی گئی۔ خیر میں نے نماز پڑھی اور نکلنے کے لیے تیار ہوگیا۔
میں تھا بھی موٹر سائیکل پر اور سردیوں کا موسم تھا، اس لیے جیکٹ پہنی، کنٹوپ چڑھایا، ہیلمٹ پہنا اور اللہ کا نام لے کر چل پڑا۔ بنی گالا سے باہر نکلا تو ہر طرف اندھیرا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے بنگلے سے تھوڑا آگے آتے ہی پہاڑی چڑھائی شروع ہوگئی۔ لکھوال کے قریب سڑک 90 درجے پر گھومی تو بنی گالا کی دُور سے نظر آنے والی روشنیاں بھی نظروں سے اوجھل ہوگئیں اور میں ایک گھپ اندھیرے میں آگیا۔ یہاں سڑک راول ڈیم کے ویران ساحل پر پہاڑی نشیب و فراز میں چلنے لگی۔ میں بھی کچھ محتاط ہوگیا۔
لکھوال موڑ سے میں کوئی 50 میٹر آگے آیا ہوں گا کہ اچانک موٹر سائیکل ہیڈ لائٹ کی روشنی میں مجھے سڑک کے بائیں طرف ایک سفید ہیولا نظر آیا۔ میں چونکا۔ کوئی سر سے پیر تک سفید چادر اوڑھے سڑک کنارے کھڑا تھا۔ مجھے پہلی نظر میں یوں لگا جیسے وہاں کوئی عورت کھڑی ہے اور اللہ جانے کیوں کھڑی ہے۔ میں ڈر تو گیا، مگر رُکے بغیر بائک پوری رفتار سے دوڑاتا ہوا اس کے قریب ہوتا چلا گیا۔ لیکن میں جیسے ہی اس کے قریب پہنچا تو اس ہیولے میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں یوں اٹھایا جیسے مجھے روکنا چاہتا ہو۔
مجھے خیال گزرا کہ یہ عورت شاید مجھ سے لفٹ لینا چاہ رہی ہے۔ لیکن کیسی لفٹ کہاں کی لفٹ، میرے تو اوسان خطا ہو رہے تھے۔ اللہ جانے یہ کیا بلا تھی جو سرد رات کے اس اندھیرے میں یہاں اس ویرانے میں لفٹ لینے کھڑی تھی۔ میں نے اپنی رفتار اور بڑھا دی۔ جیسے ہی میں اس کے قریب سے گزرا تو میں نے ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کی طرف دیکھا! اوہ ... یہ کیا؟ اس کے چہرے پر تو داڑھی تھی۔ میں اچنبھے میں پڑگیا کہ یہ کیا ہے جو دُور سے عورت نظر آیا مگر قریب آنے پر مرد نکلا؟
خوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں رُکے بغیر بائک تیزی سے بھگاتا ہوا اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا۔ سڑک پہاڑیوں میں موڑ در موڑ گھوم رہی تھی اور میں بھی اپنی بائک کو لہراتا چلا جا رہا تھا۔ اس وقت میری موٹر سائیکل کے علاوہ دُور دُور تک کوئی گاڑی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس تنہائی سے بھی میری گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی وقت مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی گاڑی آ رہی ہے۔ اس کی ہیڈ لائٹس کی ہلتی جلتی روشنی میرے قریب آکر پڑ رہی تھی۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ میں اکیلا نہیں، میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے۔ میں پُرسکون ہوا مگر بائک اسی رفتار سے دوڑاتا رہا۔ گاڑی ایک مخصوص فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے پیچھے آتی رہی۔
یہ جو سڑک ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک یہ چک شہزاد کا مین روڈ نہ آجائے اس وقت تک نہ اس کے دائیں طرف کوئی راستہ نکلتا ہے نہ بائیں طرف۔ اس کے دونوں اطراف میں جنگل ہے یا کھیت ہیں۔ یہ سیدھی مین روڈ پر آکر ختم ہوتی ہے۔ میں بائک چلاتا رہا اور سڑک پر اپنے اطراف میں پڑنے والی روشنی سے اندازہ لگاتا رہا کہ وہ گاڑی بھی میرے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے۔ حتیٰ کہ میں چک شہزاد کی ڈبل روڈ تک پہنچ گیا۔
اس جگہ کچھ پھل فروش کھڑے تھے اور ان کے ٹھیلوں پر روشنی تھی۔ یہ رونق دیکھی تو مجھے اطمینان ہوا اور میں نے بریک لگا کر بائک روک دی۔ بائک روکتے ہی میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا کہ وہ کونسی گاڑی ہے جس نے اس اندھیرے ویرانے میں میرا ساتھ دیا اور اپنی روشنی میں مجھے یہاں تک لے آیا۔ لیکن یہ کیا؟ میں پیچھے دیکھتے ہی اچھل پڑا۔ پیچھے تو دُور دُور تک صرف اندھیرا اور سناٹا تھا۔ میرے پیچھے تو کوئی گاڑی تھی ہی نہیں۔ یااللہ! پیچھے تو کوئی موڑ بھی نہیں آیا تو وہ گاڑی آخر کہاں گئی؟ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟
اگر میرے پیچھے کوئی گاڑی نہیں آئی، تو پھر وہ روشنیاں کیسی تھیں جو میری بائک کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں؟ یہ سوچ کر تو میں اور ڈر گیا۔ کیا میرا تعاقب کرنے والی وہ روشنیاں بھی آسیبی تھیں؟
بہرحال میں گھر پہنچ گیا۔ کچھ دن بعد میری ملاقات آصف سے ہوئی تو میں نے شکایت کی کہ دیکھیں اس دن مچھلی کھلانے کے چکر میں آپ نے مجھے دیر کروا دی اور پھر یہ پُراسرار واقعہ پیش آیا۔ آصف بھائی ہنسنے لگے۔
’چھوڑیں یار آپ تو خواہ مخواہ ہی ڈرتے ہیں۔ اس راستے میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔‘
’کیا آپ کو واقعی اس راستے پر کبھی کچھ محسوس نہیں ہوا؟‘، میں نے پوچھا۔
’نہیں بھائی‘، انہوں نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
لیکن اسی وقت آصف کا بڑا بیٹا سعد بولا ’ابو ایک دفعہ ہوا تو تھا‘۔
’کیا ہوا تھا؟‘، میں چونکا۔
’انکل میں اور ابو ایک رات اسی سڑک سے راول ٹاؤن جا رہے تھے، تو جو جگہ آپ بتا رہے ہیں اسی جگہ ہمیں ایک عورت کھڑی نظر آئی۔ گاڑی میں چلا رہا تھا۔ جب ہم قریب ہوئے تو اس عورت نے ہماری گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اسی وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ زخمی ہے۔ اس کے کپڑوں پر جگہ جگہ خون کے نشانات لگے ہوئے تھے۔ ابو نے کہا گاڑی روک دو تو میں نے گاڑی روک دی۔ گاڑی رکتے ہی عورت نے تیزی سے پچھلا دروازہ کھولا اور فوراً اندر آ کر بیٹھ گئی۔‘
’خدا کے واسطے مجھے جلدی سے یہاں سے لے چلو‘، اس نے جلدی جلدی کہا۔ ’مجھے یہاں کچھ لوگ مار رہے تھے، میں ان سے کسی طرح جان چھڑا کر آئی ہوں۔ آپ لوگ مجھے روڈ تک پہنچا دیں۔‘
’ہم لوگ کچھ گھبرا گئے۔ میں نے بغیر کچھ کہے گاڑی چلا دی اور تیزی سے ڈرائیو کرتا ہوا چک شہزاد کی ڈبل روڈ تک آگیا۔ لیکن جیسے ہی ہم سڑک پر چڑھ کر راول ٹاؤن کی طرف مڑے تو اس نے گاڑی روکنے کا کہا۔ میں نے بریک لگا دیا۔ گاڑی رکتے ہی اس نے دروازہ کھولا اور نیچے اتر کر اندھیرے میں غائب ہوگئی۔ پتہ نہیں کیا چیز تھی؟ ابو کتنی پُراسرار تھی وہ؟ انکل کو بھی تو اسی جگہ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔‘
سعداللہ نے بات ختم کی اور میں دونوں باپ بیٹے کا منہ دیکھتا رہا۔ ان کے منہ سے یہ بات سن کر میں نے طے کرلیا کہ آئندہ کبھی بھی اس راستے سے رات کے وقت نہیں گزروں گا۔
لال کوٹھی پر بھٹکتی روح
کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ آپ جتنا بھی مبالغہ کرکے بتائیں، لوگ یقین کرلیں گے۔ ڈیڑھ کروڑ، 2 کروڑ، 3 کروڑ جو چاہیں کہہ لیں چل جائے گا۔ لیکن کراچی شروع سے ایسا نہیں تھا۔
پاکستان بننے سے پہلے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہوا کرتا تھا۔ اس کی آبادی 50، 60 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد چونکہ یہ شہر ملک کا دارالحکومت بنا اور بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں روزگار کے مواقع بھی بہت تھے، اس لیے نہ صرف بھارت سے آنے والے مہاجرین، بلکہ پورے پاکستان سے لوگوں نے اس شہر کا رخ کیا۔ پھر اس شہر میں کوئی ایسی خاص بات بھی ہے کہ جو یہاں آتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ شہر کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی اور بڑھتی بڑھتی کروڑوں تک پہنچ گئی۔
تو بات یہ ہے کہ اس کروڑوں کے شہر کراچی میں جہاں بہت سارے انسان بستے ہیں، جہاں ان انسانوں کی بہت سی کہانیاں ہیں، وہیں کچھ ایسی پُراسرار اور غیر مرئی مخلوقات بھی ہیں کہ جن کی کہانیاں لوگ سناتے ہیں۔ انہی مافوق الفطرت کہانیوں میں سے ایک کہانی میں آپ کو سناتا ہوں۔
کراچی کی مرکزی سڑک شارع فیصل، جو پہلے ڈرگ روڈ کہلاتی تھی، اس پر سردیوں کی راتوں میں بھٹکنے والی ایک روح کی کہانی بہت مشہور ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی روح ہے جو دسمبر کی یخ بستہ اور ویران راتوں میں ڈرگ روڈ پر یعنی شارع فیصل پر لال کوٹھی اسٹاپ کے قریب آدھی رات کے وقت لوگوں کو ٹہلتی ہوئی نظر آتی تھی۔ اب تو اس شہر میں اتنا ٹریفک، اتنا شور اور اتنی افراتفری ہے کہ اس بیچاری کی روح اب شاید ہی کسی کو نظر آئے، لیکن کئی سال پہلے وہ کسی نہ کسی کو ہر سال نظر آجایا کرتی تھی۔
ہوتا یہ تھا کہ رات گئے کوئی ٹیکسی ڈرائیور یہاں سے گزر رہا ہوتا تو اسے روڈ کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک ایسی لڑکی کھڑی نظر آتی کہ جس کی گردن سے خون بہہ رہا ہوتا۔ وہ لڑکی ٹیکسی والے کو ہاتھ دیتی ہے تو وہ فوراً رک جاتا ہے اور لڑکی کا خون بہتا دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟ اور یہ کیا ہوا ہے آپ تو بہت زخمی ہیں۔ آپ کو کسی گاڑی نے مارا ہے؟‘
تو وہ کہتی ہے’نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں، تم بس مجھے جلدی سے میرے گھر پہنچادو‘۔
ڈرائیور کہتا ہے ’باجی آپ گھر نہیں جائیں آپ ہسپتال جائیں۔ آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے‘۔
وہ کہتی ہے ’نہیں میں پہلے گھر جاؤں گی، پھر وہاں سے ہسپتال جاؤں گی‘۔
مجبوراً ڈرائیور کہتا ہے ’اچھا باجی بیٹھ جائیں‘۔
لڑکی خون ٹپکاتی ہوئی گاڑی کے اندر آکر بیٹھ جاتی ہے تو ڈرائیور اس سے پوچھتا ہے ’باجی آپ کو کہاں جانا ہے؟‘
تو وہ کہتی ہے ’ناظم آباد‘۔
(جاری ہے)
تبصرے (4) بند ہیں