جھمپیر، جہاں پہلے میلے تھے، اب صرف ویرانی ہے
اس دھرتی پر جو مخلوق بستی ہے اور پھر ذہن کی بے پناہ وسعتوں میں کہیں شعور کا دیپ بھی جلتا ہے۔ وہ شعور آپ کو اپنے گزرے ماہ و سال سے رشتہ توڑنے نہیں دیتا بلکہ تلقین کرتا ہے کہ اپنی جڑوں کی آبیاری میں کوئی کمی مت رہنے دو کیونکہ اگر گزرے وقتوں کی میٹھی اور تلخ یادوں کو اندر سے کُھرچ کر الگ کردیں گے تو بچے گا کیا؟ فقط ایک تم؟ تو ایک تم سے کچھ نہیں بنتا۔ رونے کے لیے بھی 2 آنکھیں چاہئیں اور تالی کے لیے بھی 2 ہاتھوں کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔
چنانچہ قافلوں کے سوا منزلوں پر پہنچنے کا خواب دیکھنا ایک عبث ہی ہے کہ اپنی جڑیں ہی ہم کو توانائی دیتی ہیں، سو جڑوں کی قدر کرنی چاہیے کہ ہم ان کی وجہ سے ہی زیست کے پُرنور اور پُرسوز سے گیت گا پاتے ہیں۔
ٹھنڈی ہوائیں شمال سے بہتی ہوئی آتیں ہیں، ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہیں اور جنوب کی طرف نکل جاتیں ہیں۔ میں مکلی قبرستان کے شمال میں جام نظام الدین سموں کی آخری آرام گاہ کے قریب شمال کی طرف کھڑے پیلو کے درخت کے پاس کھڑا تھا۔ نیچے خشک ہوچکا دریائے سندھ کا قدیم بہاؤ تھا۔ وہاں سے آپ اگر شمال کی طرف دیکھیں تو کہرے کی وجہ سے دھند کی ایک تہہ سی بچھی ہوئی ہے۔ اس تہہ میں کیرتھر پہاڑی سلسلے کی وہ پہاڑیاں بھی ہیں جہاں انسان نے اپنی ابتدائی منزلیں طے کیں۔
اگر آپ یہاں کھڑے ہوکر 20 ہزار برس پیچھے چلے جائیں تو آپ کے سامنے منظرنامہ کچھ یوں گا کہ کیرتھر سلسلے کی کچھ پہاڑیاں ہیں اور سمندر کا نیلا پانی، پھر گزرتے وقت کے ساتھ سمندر کو دریائے سندھ کا میٹھا پانی پیچھے دھکیلتا جاتا ہے اور سمندر کے نیلے پانی کی جگہ دریا کا مٹیالا پانی آجاتا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں میٹھا پانی بہتا ہے وہاں حیات کے متنوع رنگ جنم لیتے ہیں۔
یحییٰ امجد لکھتے ہیں کہ ’یورپ اور برِصغیر پاک و ہند میں جتنے بھی حجری ادوار کے اوزار ملے ہیں وہ اکثر و بیشتر دریاؤں کے قریبی میدانوں سے ملے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دریاؤں کے قریب اونچی اور خشک جگہوں پر رہتا تھا۔ گوکہ یہ تصور کرنا تو مشکل ہے کہ وہ پناہ گاہیں بناکر مستقل رہائش رکھتا تھا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن بھر کی آوارہ خرامی کے بعد رات کو دریا کنارے درختوں پر یا دیگر اونچے ٹھکانوں پر قیام کرتا ہوگا، اور ان کا سارا سفر دریاؤں کے قریب قریب رہتا ہوگا‘۔
حجری زمانے کو 3 ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:
قدیم حجری دور (Lower Paleolithic) — 6 لاکھ سے ایک لاکھ قبل مسیح تک
وسطی حجری دور (Middle Paleolithic) — ایک لاکھ سے 40 ہزار قبل مسیح تک
جدید حجری دور (Upper Paleolithic) — 40 ہزار قبل مسیح سے 10 ہزار قبل مسیح تک
جدید حجری دور (The Late (upper) Palaeolithic) کے جو مقامات بچ گئے ہیں وہ یقیناً سمندر کی سطح سے بہت اونچے رہے ہوں گے۔ ایم ایچ پنھور صاحب کی تحقیق کے مطابق، آج سے 20 ہزار برس پہلے ملتان تک ساری زمین، سارا تھر اور راجھستان کا مغربی حصہ یقیناً پانی کے نیچے رہے ہوں گے۔ 9 ہزار برس پہلے، سمندر کا کنارا حیدرآباد کے قریب رہا ہوگا اور پھر دریا کی مچھلی اور جنگلات نے ضرور ’وسطی حجری دور‘ کو اپنی طرف بلایا ہوگا۔ ان دنوں سندھ اور جنوبی ایشیا میں انسان کے لیے خوراک کی فراوانی دنیا کے دیگر اکثر مقامات سے زیادہ تھی، سو یہاں زیادہ حیات پنپ سکتی تھی۔ ہمارے پاس وسطی حجری زمانے کا فی الوقت جھرک کے قریب فقط ایک ہی مقام ٹریس ہوپایا ہے جبکہ حیدرآباد، کراچی اور جھمپیر کے نزدیک ہمیں جدید حجری دور کی چقماقی پتھر کی فیکٹریاں ملی ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ابتدائی طور پر انسان عارضی گھر بنا کر رہتا ہوگا اور پھر خوراک کی تلاش میں آگے کی طرف نکل پڑا ہوگا‘۔
یاد رہے کہ انسان کی قدامت اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے۔ چونکہ کوئی بھی دریا اپنے ڈیلٹا پر آکر ختم ہوتا ہے، اس لیے وہاں ارتقائی سفر کا آخری ٹھکانہ ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی سندھ میں ہمیں حجری کے طویل زمانے کا آخری پڑاؤ ملتا ہے اور اسی آخری پڑاؤ پر یونیورسٹی آف وینس کے ’پائلو بیگی‘ Paolo Baigi نے بہت زیادہ تحقیق کی ہے۔ ہم اس کی سائنسی تحقیق کی بنیادوں پر جھمپیر کو تاریخ کا انتہائی اہم مقام سمجھتے ہیں، مگر کیرتھر پہاڑیوں کے بیچ موجود اس جھمپیر سے جڑی بہت ساری تاریخی، پُراسرار اور دلچسپ کہانیاں ہیں جو سننے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
آپ اگر کینجھر جھیل پہنچ کر اس کا مشرقی کنارہ لے کر شمال کی طرف چل پڑیں تو یہ راستہ آپ کو ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں دکھاتا ’کلری بگھاڑ کینال‘ پر لے آئے گا، جس کے دروازوں سے پانی شور مچاتا، کینجھر سے ملنے کے لیے سرپٹ بھاگتا ہوا نظر آئے گا۔ اس بہتی ندی کے دونوں کناروں پر گہری ہریالی ہے جس کا رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔
کینال کے کنارے گھنے درخت ہیں جو گرمیوں میں لوگوں کو ٹھنڈی چھاؤں اور پُرسکونیت کا احساس فراہم کرتے ہیں۔ آپ دل میں کسی خوشبو کی طرح اُترنے والے مناظر سے جیسے مغرب کی طرف چلنا شروع کرتے ہیں تو سبزے کے رنگ اچانک گُم ہوجاتے ہیں اور آپ کے پیروں تلے ہلکے مٹیالے رنگ کی زمین ہوتی ہے۔ یہاں کہیں کہیں فصل اُگانے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔
مگر پانی ان زمینوں سے کسی محبوب کی طرح روٹھا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کچھ بھی اُگانے سے لاچار دکھائی دیتی ہے۔ پھر آپ جیسے آگے بڑھتے ہیں تو زمین چٹانی سطح اختیار کرلیتی ہے اور پھر بے رنگ پہاڑیوں کا ایک سلسلہ پھیل جاتا ہے۔ پھیکے رنگ کی پہاڑیوں کا یہ وہ سلسلہ ہے جہاں جدید حجری دور کے انسان کے قدموں کے نشانوں کا پتہ چلتا ہے۔ چلتے چلتے کہیں کہیں آپ کو، زقوم کی جھاڑیاں نظر آجاتی ہیں۔ اس بے رنگ پہاڑی سلسلے میں، زقوم کا تیز ہرا رنگ آپ کو بہت ہی اچھا لگتا ہے۔
میں ان پہاڑیوں پر بسے جھمپیر کے چھوٹے سے شہر میں کئی بار آیا ہوں، مگر جب بھی آیا تپتے دنوں میں آیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میری یہاں آمد جاڑوں کے دنوں میں ہوئی۔ موسم سرما کے شب و روز میں ایک سحر بستا ہے۔ اس سحر میں خوبصورتیوں کے زمانے بستے ہیں۔ وہ لوگ جو گرمیوں کے تپتے دنوں میں اونگھتے رہتے ہیں، ان کے اندر جاڑوں کے دنوں میں چاق و چوبند رہنے کی قوت بھر جاتی ہے۔ اگر ٹھنڈ زیادہ ہو تو الاؤ کے پاس بیٹھ کر گپے لگانے کا اپنا ایک الگ لُطف ہوتا ہے۔
جھمپیر کے چھوٹے سے شہر کے جنوب میں آپ اگر چلے جائیں تو مندر اور قبرستان دکھائی دیں گے، لیکن کہتے ہیں کہ گزرے زمانوں میں اسی مقام پر ایک قلعہ ہوا کرتا تھا جسے ’ہیم کوٹ‘ پکارا جاتا تھا۔ تاریخ کے صفحات اس قدیم قلعے کے حوالے سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر تنازعات کی دھول اتنی اُڑتی ہے کہ ان حوالات کے میدان میں کچھ صاف دکھائی نہیں دیتا۔
اس قلعے کے حوالے سے اشتیاق انصاری لکھتے ہیں کہ ’آج سے 1300 برس پہلے 710ء میں، جب محمد بن قاسم، شیراز کے گورنر تھے تب انہیں حجاج بن یوسف نے سندھ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ محمد بن قاسم نے 6 ہزار کا لشکر اور بہت سارے اونٹ ساتھ لے کر سندھ کا رُخ کیا۔ حجاج نے کچھ جنگی سامان کشتیوں کے ذریعے دیبل بندر کے طرف بھیجا۔ محمد بن قاسم مکران، دیبل، نیرون کوٹ، سیوستان وغیرہ کو فتح کرکے خیمہ گاڑے بیٹھے تھے کہ انہیں خبر ملی کہ سیوستان میں ’چندرام‘ نے بغاوت کرکے قلعے پر پھر قبضہ کرلیا ہے۔ محمد بن قاسم نے بغاوت ناکام بنانے کے لیے محمد بن مصحب کو ایک ہزار گھڑ سوار اور 2 ہزار پیادوں کا لشکر دے کر وہاں بھیج دیا۔ سیوستان والوں نے قلعے سے باہر نکل کر جنگ کی مگر جیت نہ سکے، جس کے بعد چند رام مجبور ہوکر ’جھم‘ کی طرف فرار ہوئے۔ محمد بن مصحب نے جنگ میں فتحیاب ہوکر محمد بن قاسم سے ملاقات کی۔ اسی دوران راجہ ڈاہر کے ساتھی ’موکو پٹ وسایو‘ نے غداری کی اور محمد بن قاسم سے آکر ملے۔ یہ خبر جب راجہ ڈاہر کو پہنچی تو انہوں نے اپنے بیٹے ’جیسینہ‘ کو جنگی تیاری کے ساتھ ’بیٹ (جزیرہ) کے قلعے‘ بھیجا کہ اسلامی لشکر پانی سے گزر نہ سکے۔ جیسینہ کا لشکر ’کوتکہ ندی‘ کے کنارے پر پہنچا۔ دوسری طرف، جیسینہ کے لشکر کا سامنا کرنے کے لیے محمد بن قاسم کا لشکر بھی ’جھم‘ اور ’کرہل‘ کے علاقوں میں آکر پہنچا۔ حالات موافق نہ ہونے کی وجہ سے عربی لشکر کو 50 دنوں تک وہیں پر ٹھہرنا پڑا جس کی وجہ سے اناج اور گھاس کی کمی واقع ہونے لگی، جبکہ مختلف گھاس کھانے کی وجہ سے گھوڑے بیمار ہونے لگے۔ جو گھوڑا بیمار ہوتا اسے کاٹ کر خوراک کے طور پر استعمال کرلیا جاتا‘۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تحقیق کے مطابق ’جھیم کا علاقہ اسی رقبے پر مشتمل تھا جس کا مرکز اب ’جھمپیر‘ ہے۔ جبکہ جھم کا مطلب ہے ’نشیبی علاقہ‘۔ اس علاقے کو نشیبی علاقہ کہنا ٹھیک بھی ہے کیونکہ جھمپیر کے شمال سے جنوب میں دُور تک نشیبی زمین پھیلی ہوئی ہے جس میں کینجھر جھیل بھی آجاتی ہے۔ اس نشیبی علاقے کا اختتام کینجھر جھیل کے جنوبی کنارے کو سمجھنا چاہیے جو ننگر ٹھٹہ سے شمال کی طرف 20 میل دُور ہے‘۔
میں نے اس قلعے کی چند دیواروں کی صورت میں بچے کچھے آثار اور دیگر نشانات کو 1998ء میں دیکھ رکھا تھا مگر اب ماضی کے سارے آثار وقت کے بے رحم ہاتھوں نے تہس نہس کردیے ہیں۔ اب ان آثاروں پر بنے قبرستان کی قبروں پر بتیاں جلتی ہیں اور نازبو کی جھاڑیاں سوکھی ہونے کے باوجود بھی ہوا کے جھونکوں میں اپنی مخصوص خوشبو بھردیتی ہیں۔ قبرستان کے شمالی کونے میں ’حسین شاہ‘ کی درگاہ ہے اور درگاہ کے شمال مشرق میں نیچے چشموں کے قریب تاڑ کے درخت ہیں، جہاں گرمیوں میں لوگ پکنک منانے آتے ہیں۔
اس درگاہ کے شمال میں جہاں جھم کوٹ کی اختتامی جنوبی دیوار ہوتی تھی وہیں پر ایک مندر ہے۔ بلندی پر واقع مندر سے کینجھر جھیل کا نظارہ کرنے پر جھیل کا پانی ایسا نظر آتا جیسے نیلی چادر تاحدِ نگاہ بچھی ہوئی ہے۔ جاڑے کے دنوں میں پانی میں زوردار لہریں نہیں اُٹھتیں اس لیے ان دنوں میں پانی بڑا پُرسکون نظر آتا ہے۔ اس مندر کی قدامت سے متعلق تاریخ کی کتابوں سے حوالے مل جاتے ہیں۔
انصاری صاحب کے مطابق ’یہ ’شِوَ‘ کا مندر ہے، جس کی پوجا کا ذکر ہمیں ’تحفتہ الکرام‘ میں بھی ملتا ہے۔ ہمیں سندھو گھاٹی میں ’ہڑپہ‘ سے ملی ایک مہر میں بھی شِوَ کی پوجا کا حوالہ ملتا ہے، جس میں شِوَ دیوتا کو ’پشو پتی‘ (یعنی حیوانات کا تخلیق کرنے والا) دکھایا گیا ہے۔ سندھ میں شِوَ کی پوجا کا سلسلہ آریوں کی آمد سے پہلے ہی موجود تھا کیونکہ ’رگوید‘ میں شِوَ کا ذکر نہیں ملتا۔ شِوَ کا یہ مندر اور ہیم کوٹ ایک زمانے میں دریا کے بہاؤ کے کنارے پر تھے، آگے چل کر بہاؤ نے منہ موڑ لیا لیکن کینجھر جھیل کی صورت میں پانی آج بھی اس مقام کے مشرقی حصے پر اپنی موجودگی کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ یہ مندر پانی کی سطح سے 50 فٹ کی بلندی پر واقع ہے‘۔
آپ جب مندر کی سیڑھیاں اُتر کر کینجھر کے کنارے پر آجائیں تو آپ کو چند مذہبی مقامات نظر آئیں گے اور ساتھ میں ایک ہرا بھرا برگد کا پیڑ کھڑا دکھائی دے گا جس پر کئی رنگوں کے دھاگے لپٹے ہوئے ہیں کہ امیدوں اور تمناؤں کے حصول کے لیے انسان نہ جانے کیا کیا جتن کرتا ہے۔ یہ رنگین دھاگے ان تمناؤں کے رنگوں کے عکاس ہیں کہ کسی نے اولاد کی تمنا میں پھیرے لگائے ہوں گے، کوئی اپنے والدین کی صحتیابی کے لیے نم آنکھوں کے ساتھ دھاگا لپیٹا ہوگا۔ جس طرح رنگ انیک ہیں اسی طرح تمناؤں کی فصلیں بھی دلوں میں کئی رنگوں میں اُگتی ہیں کہ یہی زندگی کی جادوگری ہے کہ دکھ اور سکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
’آپ جن چند کھجور کے درختوں کو دیکھ کر آئے ہیں، سمجھ لیجیے کہ یہ اس کھجور کے جنگلات کی آخری سسکیاں ہیں جو یہاں جھمپیر میں قدرتی چشموں پر بے تحاشا ہوتے تھے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسا نخلستان تھا جس کو دیکھ کر روح کو راحت ملتی تھی۔ ویسے بھی کھجور کے درخت کو قدرت نے ایک منفرد حُسن سے نوازا ہے۔ میں جب چھوٹا تھا تو تاحدِ نظر میٹھے چشموں کے پانی پر ان درختوں کی ہریالی دکھائی دیتی تھی، بلکہ ہم ان چشموں کے پانی کی مدد سے قرب و جوار میں موجود اپنی زمینوں پر فصلیں بھی اگایا کرتے تھے۔ ان درختوں سے ’تاڑی‘ نکالی جاتی تھی۔ تاڑی نکالنے کے لیے جو مٹکے ان درختوں سے بندھے ہوتے تھے، ان دنوں کوے اور مینائیں ان مٹکوں سے تاڑی پی کر اکثر جھومتے نظر آتے۔‘
یہ بات محترم رسول بخش درس نے جھمپیر شہر میں اپنی اس جگہ پر بتائی جو یہاں ادبی کچہریوں اور مہمان نوازی کے حوالے سے مشہور ہے۔ کوئی ادیب، شاعر اور لکھاری جھمپیر آئے اور سائیں رسول بخش درس سے نہ ملے تو یہ ممکنات کے دائرے سے باہر کی بات ہے۔ مگر جس وقت وہ یہ ساری باتیں بتا رہے تھے تو گزرے وقت کا درد ان کے چہرے اور آنکھوں میں عیاں تھا، وہی درد جو انمول چیز چِھن جانے پر ہر انسان کے چہرے اور آنکھوں میں واضح دکھائی دینے لگتا ہے۔ یہ ایک کیفیت ہوتی ہے جو بے بسی کے سوکھے پتے پر سوار وسیع بہاؤ کی سطح پر تیرتی جاتی ہے۔ اس کے بس میں کچھ نہیں ہوتا۔ بس بہاؤ کی مرضی ہے کہ وہ اسے کہاں لے جاتا ہے۔
’تاڑی کیا ہوتی ہے؟‘ میں نے سوال کیا۔
’کھجور کے بے چارے درخت سے بھی انسان نے کُچھ اچھا نہیں کیا۔ تاڑ کی نسل کے جو بھی درخت ہیں ان سب میں سے ایک طریقے سے رس نکالا جاتا ہے۔ کھجور کی تاڑی (اسے عربی میں نبیذالنخل، فارسی میں طاری، ہند و سندھ میں تاڑی، جبکہ انگریزی میں Toddy palm juice کہا جاتا ہے۔)
’یہ شراب کی ایک قسم ہے، جو کھجور کے درخت میں چھید کرنے کے بعد اس میں ایک چھوٹا پائپ پیوست کرکے نکالی جاتی تھی۔ درخت کے بالائی حصے میں جہاں سے شاخیں نکلتی ہیں وہاں ایک مخصوص طریقے سے ضرب لگائی جاتی، اس ضرب کے ساتھ مٹی سے بنی ہوئی مٹکی کو باندھ کر دوسرے دن تک چھوڑ دیا جاتا تھا، جس میں سے قطرہ قطرہ رس ٹپک کر جمع ہوتا تھا۔ سورج ڈھلتے ہی رس کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا، یعنی اگر اسے طلوع آفتاب سے قبل پیا جائے تو مفید ہے لیکن طلوع آفتاب کے بعد یہ نشہ آور مشروب بن جاتا ہے۔
’سورج کی کرنوں کے نہ پڑنے تک اسے 'نیرو' کہا جاتا تھا مگر جیسے ہی اس پر سورج کی کرنیں پڑنے لگتی تھیں تو اسے 'تاڑی' کہا جاتا تھا۔ اس رس کشید کرنے سے درخت کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جہاں سے کٹ لگایا جاتا ہے درخت کا وہ حصہ ایک طرح سے مفلوج ہوجاتا ہے اور درخت کی افزائش رُک جاتی ہے جس کی وجہ سے دھیرے دھیرے وہ درخت مرجاتا ہے۔
70ء کی دہائی میں تاڑی کشید کرنے کے لیے یہاں ورجینیا کی کمپنی کا ٹھیکہ حاصل کیا تھا۔ وہ یہاں سے اِس رس کو کراچی لے جاتے اور فلٹر و دیگر مراحل سے گزارنے کے بعد کراچی کے باروں میں سپلائے کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب چینی کی اتنی فراوانی نہیں تھی تو اس رس سے شیریں گُڑ بھی تیار کیا جاتا تھا جو کھانوں میں گڑ کی جگہ استعمال ہوتا۔‘
میں نے درس صاحب سے جب چشموں کے خشک ہونے کا سبب پوچھا تو جواب وہی آیا جس کی مجھے توقع تھی۔
’ٹیوب ویل کے آنے سے زیرِ زمین پانی کا فطری توازن بگڑ گیا۔ جیسے جیسے وافر مقدار میں پانی زمین سے کھینچ کر نکالا جانے لگا ویسے ویسے پانی کی سطح نیچے چلی گئی یوں دھیرے دھیرے چشمے بھی خُشک ہوتے چلے گئے۔
’اب آپ قدرتی نظام میں دخل اندازی کریں گے تو پھر بگاڑ کو کوئی روک نہیں پاتا کیونکہ فطری نظام ایک زنجیر کی طرح ہوتا ہے۔ ایک کڑی دوسری کڑی سے جُڑی ہوتی ہے۔ ایک کڑی آپ نکال دیں گے تو پورا سلسلہ متاثر ہونا ہی ہے، اور فطرت کا یہ قانون صرف اسی جگہ پر نہیں بلکہ ہر علاقے پر لاگو ہوتا ہے۔ ہم فقط اپنے پیٹ بھرنے کے چکر میں اتنے مصروف اور اندھے ہوچکے ہیں کہ آنے والی نسلوں سے متعلق ہم نے کچھ سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے، اب یہ ذہنی غربت نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھے نہیں پتہ آنے والے وقت میں جو نسلیں آئیں گی وہ ہمیں کِن کِن القاب سے نوازیں گی‘، رسول بخش درس صاحب نے انتہائی گہری بات کی جو معلوم نہیں کتنے لوگ ہی سمجھ پائیں گے۔
میں درس صاحب سے باتیں کرتا اور گلیوں سے گزرتا ہوا جھمپیر کے اس ریلوے اسٹیشن پر آیا جس کی ہر اینٹ میں خاموشی اور ویرانی بستی تھی۔ گورے نے جتنے بھی ریلوے اسٹیشن بنوائے ان کی تعمیراتی ماڈل ایک سا ہی رکھا۔ پاک و ہند میں جو بھی ریلوے اسٹیشن ہیں وہ ایک جیسے ہی ہیں۔ اس ریلوے اسٹیشن کا ماضی یقیناً شاندار ہی ہوگا۔ مقامی لوگ جھمپیر ریلوے کے گزرے مصروف شب و روز کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے نظر آتے ہیں۔
میں نے درس صاحب سے ان دنوں کے بارے میں پوچھا، جب اس اسٹیشن پر 8 سے زائد ریل گاڑیاں اسٹاپ کرتی تھیں۔ وہ گویا ہوئے کہ ’میں تو ان ریلوے اسٹیشنوں کو ’ریلوے کلچر‘ کا نام دیتا ہوں جو اب نہیں رہا۔ آج سے 40 سے 50 برس پہلے، ریلوے اسٹیشن ہی تھے جہاں معاشی اور ثقافتی رنگارنگی اپنے عروج پر تھی۔ کیسے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ دراصل اس زمانے میں یہاں کے نوجوان جو ڈاکٹر یا انجینئر بنے وہ ہاسٹلوں میں نہیں رہتے تھے۔ صبح کو جو پہلی گاڑی جاتی تھی اس میں چلے جاتے تھے۔ یونیورسٹی یا کالج کی کلاسز مکمل کرکے پھر آتی گاڑی میں چلے آتے اور دوپہر کی روٹی گھر آکر کھاتے۔ کیونکہ حیدرآباد اور کوٹڑی سے کراچی آنے جانے والی ٹرینوں کی آمد و رفت یہیں سے ہوتی، اسی وجہ سے اس راستے اور ریلوے اسٹیشنوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک گاڑی چلتی تھی ’ماتلی پیسنجر‘، جو یہاں سے ٹنڈو محمد خان جاتی پھر وہاں سے ماتلی اور بدین پہنچتی اور شام کو 4 بجے بدین سے ٹنڈو محمد خان پہنچتی۔
’ہمارے رشتہ دار چونکہ ٹنڈو محمد خان میں قیام پذیر ہیں تو میں ٹرین میں سوار ہوتا، وہاں سارا رہتا، اپنے کاموں کو نمٹاتا اور شام کو لوٹ آتا۔ اس پیسینجر ٹرین کی میں آپ کو کیفیت بتاتا ہوں، ایک تو یہ ٹرین ہر ایک چھوٹے بڑے اسٹیشن پر اسٹاپ کرتی۔ لوگ چڑھتے اترتے رہتے۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر چائے اور کھانے کی دکانیں ہوتیں۔ ریلوے کے ڈبوں میں ہر قسم کی گفتگو آپ کو سُننے کو ملتی۔ عنقریب شادیوں کی خبریں، بیماریوں کی باتیں، پیروں، فقیروں اور درویشوں کے معجزوں کی خبریں، موسم اور فصلوں کی خبریں مطلب ایک دنیا بستی تھی پئسینجر ٹرین کے ڈبوں میں۔ ایک دوسرے سے میل میلاپ ہوتا، یاریوں دوستیوں کی بنیادیں پڑا کرتیں اور سماجی حیات کے آسمان میں وسعت آتی جاتی۔ میں نے تو ریلوے اسٹیشن پر بکریوں، بھیڑوں کی ہونے والی چھوٹی چھوٹی چوریوں کے فیصلے بھی ہوتے دیکھے اور سنے۔ جھمپیر کے اس اسٹیشن پر کھانے کے اسٹالوں پر تیتر اور بٹیر کے پکوان بہت ہی مشہور تھے۔ بہت سی معروف شخصیات کی سرگزشت آپ کو پڑھنے کے لیے مل جاتیں۔ ویسے میلے سال میں ایک بار ہی لگا کرتے ہیں لیکن یہاں تو ہر روز میلہ سجتا تھا۔ گاڑیاں آرہی ہیں، جا رہی ہیں، رُکی ہوئی ہیں۔ گرمیاں ہوں، بارشیں ہوں یا سردیاں، اس اسٹیشن پر لگنے والے میلے میں کبھی کوئی کمی نظر نہیں آتی تھی۔‘
لیکن پھر جب کمی ہونے پر آئی تو سب کچھ اس طرح سے ختم ہوا کہ جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔ ایک سپنا تھا جس کے رنگ آنکھ کھلتے ہی حقیقت کی دھوپ میں اُڑ گئے۔ یہ جملہ میں نے دل ہی دل میں کہا کیونکہ یہ الفاظ اگر میں درس صاحب کو کہتا تو ہوسکتا ہے کہ ان کے دل کے آنگن میں بسے ماضی کے خوبصورت رنگوں میں حال کی تلخی کا رنگ شامل ہوجاتا جو یقیناً ان کو اچھا نہ لگتا۔
اپنا درد ہم کسی کو سنائیں تو دل کو تکلیف نہیں ہوتی، لیکن کوئی دوسرا اس کا ذکر چھیڑے تو مناسب نہیں لگتا۔ اپنی بات ختم کرنے کے بعد درس صاحب نے ریلوے کی پٹریوں کو دیکھا، اس لوہے کے پُل کو دیکھا جہاں جوانی کے دنوں میں شام کے وقت وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آکر وقت گزارا کرتے۔
میں صبح کو یہاں آیا تھا اور اب جاڑے کی شام ہونے کو آئی تھی۔ میں نے اس ایک دن میں یہاں کئی زمانے دیکھے اور کئی کہانیاں سُنیں۔ بس غم تھے جو ہر حقیقت کے وجود میں کسی خاردار جھاڑی کی طرح اُگتے تھے کہ شاید گوتم بدھ نے صحیح کہا تھا ’سروم دُکھم دُکھم (سب دُکھ ہے)۔‘
حوالہ جات:
- ’تاریخ پاکستان‘ (قدیم دور)۔ یحییٰ امجد ۔ سنگ میل پبلیکیشن، لاہور
- ’سندھ جا کوٹ ائیں قلعا‘۔ اشتیاق انصاری۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی
- Report:”The Late (upper) Paleolithic sites in Sindh” Reserch by: Paolo Baigi. Uni of Venice
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (17) بند ہیں