سال 2019: جمہوریت کا حسن 'احتجاج، مظاہرے اور دھرنے'
پُرامن احتجاج اور مظاہرے کسی بھی جمہوری معاشرے کا حسن ہوتے ہیں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ حکمرانوں سے اپنے مطالبات کو منواسکیں یا مذاکرات کے ذریعے ان کا حل نکالا جاسکے۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں جمہوریت سے زیادہ آمریت رہی ہے اور آمریت اختلاف رائے یا احتجاج کی وہ اجازت نہیں دیتی جو ایک جمہوری معاشرہ فراہم کرتا ہے۔
ایک دہائی سے ملک میں جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے اور 2 منتخب حکومتوں یعنی 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور 2013 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی اور اس کے بعد اب تیسری منتخب حکومت یعنی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) 2018 کے ماہ اگست سے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے کی جانب گامزن ہے۔
تاہم چاہے پیپلز پارٹی کا دور حکومت ہو یا مسلم لیگ (ن) کا سابق دور، اپوزیشن اور دیگر اختلاف رائے رکھنے والے طبقات کی جانب سے حکومت مخالف احتجاج، مظاہرے، تحاریک اور دھرنے دیئے گئے۔
اگر ہم موجودہ دور حکومت کی بات کریں تو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہی گزرا ہے مگر اتنے قلیل عرصے میں ان کے اور ان کی پالیسیوں کے خلاف متعدد احتجاج، دھرنے اور ہڑتالیں ہوچکی ہیں۔
تاہم یہاں ہم بات کریں گے تحریک انصاف کے دور حکومت کے ایک سال یعنی جنوری 2019 سے دسمبر 2019 تک کی اور بتائیں گے کہ اس مدت میں حکومت کے خلاف کس طرح کی تحاریک چلیں، احتجاج ہوا۔ ہم ایک نظر ان مظاہروں پر بھی ڈالیں گے جو یا تو حکومت کے حق میں کیے گئے یا ان کا تعلق براہ راست تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف نہیں تھا۔
ساتھ ہی یہ بھی بیان کریں گے کہ سیاسی اختلاف کے علاوہ عوام اور مختلف طبقات کی جانب سے بھی نہ صرف وفاقی بلکہ صوبائی حکومتوں کے خلاف بھی احتجاج کیے گئے۔
جنوری 2019
سال 2019 کی ابتدا ایک ایسے واقعے سے ہوئی جو موجودہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوا اور اس نے ملک میں مبینہ طور پر ہونے والے ماورائے عدالت قتل کے معاملات پر دوبارہ بات کرنے کا موقع فراہم کیا بلکہ عوام کی جانب سے بھی ایک سخت ردعمل سامنے آیا۔
سانحہ ساہیوال: ذیشان کو دہشت گرد قرار دینے پر احتجاج
رواں سال جنوری کی 19 تاریخ کو پیش آنے والے 'سانحہ ساہیوال' کی، جس میں پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال کے قریب ایک کار پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے مارے گئے افراد کو 'دہشت گرد' قرار دیا گیا تاہم پولیس کے اس ڈپارٹمنٹ اور متاثرین کی جانب سے آنے والے متضاد بیانات نے اسے ایک معمہ بنادیا۔
اس واقعے کے فوری بعد سی ٹی ڈی ترجمان نے کہا کہ مارے گئے افراد دہشتگرد ہیں جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں، تاہم پنجاب پولیس نے ابتدا میں واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
تاہم فائرنگ کے دوران کار میں جو بچے موجود تھے وہ زخمی بھی ہوئے اور انہوں نے ہسپتال میں بیان دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ کردی گئی جبکہ فائرنگ سے مارے گئے افراد ان کے والدین، بڑی بہن اور ایک والد کے دوست تھے۔
بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔
اس واقعے پر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیا تھا جبکہ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، جس کے بعد ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔
تاہم اس واقعے کے بعد جو وجہ حکومت کے خلاف احتجاج کا باعث بنی وہ پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کی وہ پریس کانفرنس تھی جس میں انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کا دہشت گردوں سے تعلق تھا اور وہ داعش کا حصہ تھے۔
تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔
سی ٹی ڈی کے اقدام خاص طور پر پنجاب کے وزیر قانون کے بیان پر دیے گئے اس دھرنے میں ذیشان کے بھائی نے کہا کہ جب تک راجا بشارت مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔
احتجاج میں شدت کو دیکھتے ہوئے پولیس نے مداخلت کی اور ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج کو ختم کردیا گیا اور ذیشان کی تدفین کردی گئی تھی۔
یہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف شہروں خاص طور پر اسلام آباد اور کراچی میں بھی سانحہ ساہیوال کے خلاف احتجاج کیا گیا اور مظاہرین نے 'امن و امان کے نام پر معصوم شہریوں کا قتل بند کرو، ریاستی دہشت گردی جرم ہے، ہتھیاروں کا غیر قانونی استعمال بند کرو' کے نعرے بلند کیے تھے۔
اس کے علاوہ مظاہرین نے سانحہ ساہیوال کو خوفناک، شرم ناک اور افسوس ناک بھی قرار دیا۔
گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت کے مستقل حل کیلئے احتجاج
سال 2019 کے پہلے ماہ میں ایک اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں اس حوالے سے زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
سیاسی جماعتوں، مذہبی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں اور طلبہ نے گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت کے مستقل حل کے لیے مشترکہ احتجاجی تحریک کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔
اس سلسلے میں اسکردو، اسلام آباد اور کراچی میں گلگت بلتستان کے رہائشیوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
اس احتجاج میں گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق سے محروم کرنے پر وفاقی اور گلگت بلتستان حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے گلگت بلتستان کی حیثیت سے متعلق فیصلے کو مسترد کیا اور کہا کہ اگر اس علاقے کو پاکستان کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا تو اسے اندرونی خود مختاری دی جائے۔
ینگ ڈاکٹرز سراپا احتجاج
سال 2019 میں بھی ڈاکٹرز خاص طور پر ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور سندھ میں ڈاکٹرز نے تنخواہوں، الاؤنسر اور ہیلتھ انشورنس میں اضافہ نہ کرنے پر صوبے بھر کے سرکاری ہسپتالوں کے سب سے اہم شعبے یعنی او پی ڈیز کو بند کردیا، جس سے مریض سخت مشکلات سے دوچار رہے۔
احتجاجی ڈاکٹرز کی بنائی گئی ڈاکٹرز ایکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ حکومت نے تنخواہوں، الاؤنسز، ہیلتھ انشورنس میں کوئی اضافہ نہیں کیا، حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دیا تھا لیکن مطالبات کے حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹرز نے مطالبات کی منظوری تک او پی ڈیز بند کرنے کی دھمکی دی تھی تاہم بعد ازاں مذاکرات کے بعد ہسپتالوں میں معمول کے مطابق کام جاری رہا۔
آسیہ بی بی کے خلاف نظرثانی درخواست خارج ہونے پر مظاہرے
2019 کے پہلے ماہ میں ایک اور اہم معاملہ سامنے آیا تھا، جس پر ملک میں ایک طبقے نے سپریم کورٹ کے اقدام پر احتجاج کی دھمکی دی تھی۔
یہاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 29 جنوری کے اس اقدام کی بات ہورہی تھی جس میں توہین مذہب کیس میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی درخواست کو خارج کردیا گیا تھا۔
نظرثانی درخواست کے خارج ہونے پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے نظر ثانی اپیل سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر آسیہ بی بی کو ‘عدالتی ریلیف’ دیا گیا تو احتجاجی تحریک چلائیں گے۔
اس سے قبل جب 2018 میں عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم کرتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا تو مذہبی جماعتوں خاص طور پر تحریک لبیک نے احتجاج کیا تھا اور ملک کی اہم شاہراہوں کو دھرنا دے کر بلاک کردیا تھا۔
بعدازاں یہ معاملہ مذاکرات کے ذریعے ختم ہوا تھا لیکن 29 جنوری کے عدالتی اقدام کے خلاف ایک مرتبہ پھر ٹی ایل پی کی جانب سے احتجاج کیا گیا جبکہ پولیس نے کچھ مظاہرین کو گرفتار بھی کیا تھا۔
فروری 2019
رواں سال کے دوسرے ماہ میں اگر سب سے اہم مظاہروں کی بات کریں تو یہ حکومت یا کسی ادارے کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں اور پاک فوج کی حمایت میں تھے۔
سال کے دوسرے مہینے کے آغاز میں کچھ ایسے چھوٹے احتجاج اور مظاہرے بھی ہوئے جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں معمول کی بات ہوتے ہیں۔
خواجہ سراؤں کا ساتھی کے قتل کے خلاف احتجاج
ڈاکٹرز کے علاوہ فروری میں خواجہ سراؤں نے قتل، تشدد اور حکومتی تحفظ نہ ملنے پر احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ انہیں تحفظ دیتے ہوئے تشدد میں ملوث ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
یہ احتجاج صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کیا گیا جہاں مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں نے شرکت کی اور خیبرپختونخوا پولیس اور صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
اسی ماہ ایک ایسا واقعہ ہوا جس پر پوری قوم نے حکومت کی حمایت خاص طور پر پاک فوج کے حق میں مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔
بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کے حق میں ریلیاں
26 فروری کو بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں بالاکوٹ کے مقام پر حملے کی کوشش کی گئی لیکن پاک فضائیہ نے بروقت ردعمل دیتے ہوئے دشمن کے طیاروں کو بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔
اس وقت پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے علاقے مظفرآباد میں داخل ہونے کی کوشش کر کے بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی۔
اس واقعے کے اگلے روز 27 فروری کو بھارت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی گئی جس پر پاک فضائیہ نے اسے منہ توڑ جواب دیا اور 2 بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے مطابق ایک بھارتی لڑاکا طیارہ مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا جبکہ دوسرا طیارہ پاکستان کے علاقے آزاد کشمیر میں گرا۔
یہی نہیں بلکہ ایک بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار بھی کیا گیا، جس پر ملک بھر میں پاک فضائیہ اور پاک فوج کے حق میں مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
بھارت کومنہ توڑ جواب دینے پر پوری قوم میں جوش و جذبے کی لہر دوڑ گئی اور مختلف شہروں میں جشن کا سماں نظر آیا، مختلف شہروں میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر پاک فوج کے حق میں نعرے لگائے اور ایک دوسرے میں مٹھائیاں تقسیم کیں۔
سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں نے وطن کے دفاع پر مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کیا، لاہور میں وکلا اور طلبہ بھارتی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جبکہ کوئٹہ میں بھی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے پاکستان زندہ باد ریلی نکالی گئی، شرکا نے قومی پرچم اٹھا کر نعرے لگائے اور بھارت کو پیغام دیا کہ وہ ڈرنے والی قوم نہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ’پاکستان آرمی زندہ باد اور پاکستان اسٹرائیکس بیک‘ کے ٹرینڈز چند گھنٹوں بعد ہی ٹاپ 5 ٹرینڈز میں شامل ہوگئے تھے۔
مارچ 2019
سال 2019 میں ویسے تو حکومت کے خلاف آزادی کے نام سے 'مارچ' اور 'دھرنا' بھی ہوا لیکن مارچ کے مہینے میں کوئی ایسی خاص تحریک دیکھنے میں نہیں آئی جو حکومت کے لیے مشکل کا باعث بنتی۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کا دھرنا
اس ماہ روزنامہ جنگ نے رپورٹ کیا کہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے دھرنا دیا جبکہ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ساتھی اسکولز کے اساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
پنجاب بھر سے آئیں ان لیڈی ہیلتھ ورکرز نے احتجاج کا سلسلہ 2 روز تک جاری رکھا جبکہ پہلے روز سیکڑوں خواتین نے کھلے آسمان تلے رات گزاری جبکہ ان خواتین کے ساتھ بچے بھی موجود تھے۔
یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اس لیے احتجاج کر رہی تھیں کہ ان کے لیے سروس اسٹرکچر منظور کیا جائے، اسکیل اپ گریڈ اور دیگر سرکاری اداروں کی ملازمین کو مراعات دی جائیں۔
اس کے علاوہ پنجاب ایجوکیشن فاؤندیشن کے ساتھی اسکولوں کے اساتذہ بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئے اور انہوں نے حکومتی پالیسیوں کو تعلیم دشمن قرار دیا اور شدید نعرے بازی بھی کی تھی۔
ہندو لڑکیوں کے اغوا پر احتجاج
اس ماہ میں ملک میں ہندو برادری کا مذہبی تہوار ہولی آیا جہاں ایک جانب پوری ہندو برادری اس تہوار کو منارہی تھی تو وہی سندھ کے ضلع گھوٹکی میں 2 لڑکیوں کے مبینہ اغوا کا واقعہ پیش آگیا۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی ان دونوں لڑکیوں کے اغوا کے بعد ان کے خاندان والے ہندو برادری کے افراد نے قومی شاہراہ پر دھرنا دیا تھا۔
دھرنا دینے والے افراد کا یہی مطالبہ تھا کہ ان دونوں لڑکیوں کو بازیاب کرایا جائے۔
اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق قصبہ ڈھرکی سے تعلق رکھنے والے چمن لال نے بتایا کہ مسلح افراد نے ان کے گھر پر حملہ کیا اور دو بہنوں کو اغوا کرکے لے گئے، جن کی عمر 14 سے 15 سال بتائی گئی تھی۔
بعد ازاں سوشل میڈیا پر ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سامنے آئیں جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے جبکہ دوسری جانب دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی زیر گردش کر رہی تھیں جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔
ایک ویڈیو پیغام میں دونوں لڑکیاں اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے پولیس سے تحفظ کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
اس معاملے کے سامنے آنے اور ہندو برادری کے احتجاج کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔
اپریل 2019
سال کے چوتھے مہینے کے اوائل یا یوں کہیں کہ دوسرے ہفتے میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 20 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں قائم سبزی منڈی میں ہونے والے اس دھماکے میں جاں بحق ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔
ہزارہ برادری کا دھرنا
ہزار گنجی کے اس واقعے کے خلاف ہزارہ برادری نے احتجاج کیا اور کوئٹہ میں مغربی بائی پاس روڈ پر دھرنا دیا تھا۔
اس احتجاجی دھرنے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی شریک تھے اور ان کا یہی مطالبہ تھا کہ حکومت ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرے اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔
مظاہرین اور مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو مرکزی ہائی وے سے ملانے والے مغربی بائی پاس کو ٹائر جلا کر اور رکاوٹیں لگا کر بند کیا اور علاقے میں کیمپس قائم کیے تھے۔
اس احتجاج کو دیکھتے ہوئے وفاقی وزیر علی زیدی بھی کوئٹہ پہنچے تاہم مظاہرین کا یہی کہنا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات ختم نہیں ہوتے احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
کوئٹہ میں جس وقت دھرنا جاری تھا تو اس وقت شدید بارشیں بھی ہوئیں لیکن ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد وزیر اعظم عمران خان کے آنے اور مطالبات پر عمل درآمد کی یقین دہانی تک احتجاج ختم کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔
تاہم موسم کی سختی کے ساتھ متاثرہ خاندانوں کا دھرنا چوتھے روز میں داخل ہوا ہی تھا کہ وفاقی حکومت سمیت صوبائی حکومت کے نمائندے ہزارہ برادری کے افراد کے پاس پہنچ گئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور ان کی یقین دہانی پر اس دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دھرنا
اسی ماہ کے آخر میں 28 اور 29 اپریل کو کراچی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی رہائش گاہ کے باہر 'لاپتہ' افراد کے اہل خانہ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
شہر قائد کی محمد علی سوسائٹی میں ہونے والے اس احتجاج میں شریک افراد کا مطالبہ تھا کہ ان کے پیاروں کو واپس لایا جائے۔
اس احتجاج میں خواتین اور بچے بھی شریک تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔
مظاہرے میں شریک راشد رضوی نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملک میں مجموعی طور پر 'جبری گمشدگیوں' کے 66 متاثرین ہیں جن میں سے47 کا تعلق کراچی سے ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’متاثرین میں سے کچھ 2 ماہ پہلے غائب ہوئے جبکہ دیگر کے متعلق گزشتہ 5 برس سے کچھ معلوم نہیں‘۔
راشد رضوی نے کہا تھا کہ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کو فوری رہا کیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
مئی 2019
اپریل میں شروع ہونے والا یہ دھرنا مئی کے مہینے میں بھی داخل ہوا اور مظاہرین صرف اسی بات پر بضد تھے کہ ان کے پیاروں کے بارے میں بتایا جائے اور انہیں واپس لایا جائے۔
ان مظاہرین سے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل اور وفاقی وزیر علی زیدی سمیت دیگر حکام نے بھی بات چیت کی تھی لیکن کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی اور احتجاج جاری رہا تھا۔
ماہ مئی کے ابتدائی 9 روز بھی یہ دھرنا جاری رہا تھا اور پھر 10ویں روز لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی کمیٹی کے سربراہ رشید رضوی نے بتایا تھا کہ 3 سے 4 سال سے لاپتہ 4 افراد اپنے گھروں کو واپس آگئے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ احتجاج کے باعث اب تک 27 ایسے افراد جو ’لاپتہ‘ تھے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسی دوران رشید اے رضوی نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی رہائش گاہ کے باہر 2 ہفتوں سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
سندھ نرسز الائنس اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سراپا احتجاج
مئی کے مہینے میں ہی کراچی میں سندھ نرسز الائنس کی جانب سے سروس اسٹرکچر کی بحالی اور تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے پر احتجاج کیا گیا اور مظاہرین نے ریڈزون کی جانب پیش قدمی کی۔
مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس حرکت میں آئی اور ان پر لاٹھی چارج کیا، اس دوران گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
واضح رہے کہ یہ احتجاج حکومت اور سندھ نرسز الائنس کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا گیا تھا کیونکہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد نرسز نے سندھ بھر میں ایمرجنسی، سی سی یو، او ٹی سمیت تمام وارڈز کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھنے کا کہا تھا۔
اسی مہینے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں بھی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ایکٹ کے نفاذ کے خلاف احتجاج کیا گیا اور او پی ڈیز کا بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔
ایم آئی ٹی ایکٹ کے تحت پرچی کی قیمت 50 روپے، مفت ٹیسٹ 800 اور سی ٹی اسکین 8 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ مذکورہ ایکٹ سے سرکاری ہسپتال نجی طرز پر ہوجائیں گے تاہم مختلف ہسپتالوں میں او پی ڈی کی بندش سے دور دراز سے آئے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مئی کے اواخر میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا جس نے حکومت اور عدلیہ کے درمیان مبینہ طور پر تناؤع پیدا کیا اور پھر اگلے ماہ جون میں اس پر احتجاج بھی دیکھنے میں آیا تھا۔
یہ معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز میں سے ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا تھا۔
جون 2019
مئی کے اواخر میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں 3 سینئر ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے رابطہ کیا اور شکوہ کیا کہ ذرائع میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری کو فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور اس کیس میں عدالت عظمیٰ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
بعدازاں جسٹس عیسیٰ کے خلاف مئی کے آخر میں صدارتی ریفرنس سامنے آیا تھا جس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی تھی۔
اس ریفرنس کے سامنے آنے پر وکلا کا سخت ردعمل آیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے اعلان کیا کہ وکلا 14 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس پر سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ریفرنس واپس نہیں لیا جاتا۔
وکلا کا احتجاج، ریفرنسز کی کاپیاں نذر آتش
سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کے خلاف اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں وکلا برادری کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے ہڑتال کی گئی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر امان اللہ کنرانی نے سپریم کورٹ کے باہر ریفرنسز کی کاپیاں جلانے کا اعلان کیا تھا۔
اپنے اعلان پر سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر ایس سی بی اے کے صدر امان اللہ کنرانی سمیت دیگر وکلا نے ججز کے خلاف ریفرنس کی علامتی نقل کو آگ لگا دی، ساتھ ہی سپریم کورٹ بار کی جانب سے عدالت عظمیٰ کی عمارت کی سیڑھیوں پر احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا جبکہ سپریم کورٹ میں مختلف بارز کے احتجاجی بینرز بھی آویزاں کیے گئے، وکلا برادری کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لیا جائے۔
علاوہ ازیں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی کال پر وکلا نے کراچی سمیت سندھ بھر کی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
اسی طرح کوئٹہ بار کونسل اور ہائی کورٹ بار میں بھی عدالتی کارروائی معطل رہیں، وکلا تنظیموں نے بار رومز کے باہر سیاہ پرچم بھی آویزاں کیے، پشاور میں بھی وکلا عدالتوں میں پیش نہ ہوئے جبکہ کے پی بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
آصف زرداری کی گرفتاری پر جیالے سڑکوں پر نکل آئے
ماہ جون سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی کافی گرم ثابت ہوا اور تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے اقتدار کا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا، جس میں مختلف چیزوں پر ٹیکس عائد کیا گیا جبکہ بہت سے معاملات میں ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی۔
اسی طرح اس مہینے میں حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک نے ایک نیا موڑلیا کیونکہ اسی ماہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی گرفتاری عمل میں آئی۔
10جون کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق صدر آصف زرداری کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کرلیا جس پر پیپلز پارٹی کا سخت ردعمل سامنے آیا اور جماعت نے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
گرفتاری کے روز ہی سندھ کے مختلف شہروں میں پیپلز پارٹی کے جیالے سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے ٹائر جلا کر شاہراہوں کو بلاک کردیا تھا۔
آصف علی زرداری کی گرفتاری کے فوری بعد پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کی جانب سے صوبے کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا تاہم ان احتجاج کی شدت زیادہ نہیں تھی۔
بجٹ کے دوران اپوزیشن کا سخت احتجاج
یہ وہی دن تھا جس روز وفاقی حکومت نے مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کرنا تھا تو اس گرفتاری کا ردعمل قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران بھی دیکھنے میں آیا اور اپوزیشن جماعتوں نے سخت ترین احتجاج کیا۔
اس وقت کے وزیر مملکت برائے مالیات حماد اظہر کی پوری بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن احتجاج کرتی رہی اور حکومت مخالف نعرے اور پلے کارڈز بھی آویزاں کیے گئے۔
بعد ازاں حکومت کے خلاف ماضی کی سیاسی حریف جماعتیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قریب آتی نظر آئیں اور انہوں نے مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے بڑھانے کا آغاز کیا۔
اسی مہینے کی 16 تاریخ کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کی پارلیمان کے اندر اور باہر مشترکہ حکمتی عملی پر بھی بات چیت کی گئی۔
اس کے علاوہ برطانوی نشریاتی ادارے نے یہ رپورٹ کیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک پر متفق ہوگئی ہے اور اس مقصد کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اسپیکر آفس کے باہر دھرنا
جہاں ایک جانب اپوزیشن حکومت پر دباؤ کے لیے پارلیمان کے باہر رابطوں میں تھی وہی اپنے گرفتار رہنماؤں کی ایوان میں حاضری کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر بھی متحرک نظر آئی۔
سابق صدر آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی نے قومی اسمبلی کے اسپیکر آفس کے باہر دھرنا دیا تھا اور اسپیکر اسدقیصر کو ایوان میں جانے سے روک دیا تھا۔
دھرنے کے شرکا کی جانب سے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی، جس میں بلاول بھٹو زرداری، راجا پرویز اشرف، خورشید شاہ اور شیری رحمٰن سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔
اپوزیشن جماعت کی جانب سے یہ احتجاج اس روز کیا گیا جس دن قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کا آغاز ہونا تھا تاہم اس دھرنے کی وجہ سے اس میں پہلے تاخیر ہوئی اور بعد ازاں ایوان کی کارروائی شروع نہ ہونے کی وجہ سے اسے ملتوی کردیا گیا۔
حکومت مخالف حکمت عملی کیلئے اے پی سی
جون کے مہینے میں ہی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے نظر آئے اور انہوں نے حکومت مخالف تحریک، لاک ڈاؤن، چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سمیت مخلتف معاملات پر کل جماعتی کانفرنس طلب کی تھی۔
26 جون کو ہونے والی اس آل پارٹیز کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو آئینی طریقے سے ہٹاکر حکومت پر دباؤ بڑھانے اور ان کے بقول 'دھاندلی زدہ' انتخابات کے خلاف 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ اے پی سی میں وفاقی بجٹ کو عوام دشمن، تاجر دشمن، صنعت دشمن اور تعلیم و صحت دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
اسی طرح اس کانفرنس میں ایک کل جماعتی رہبر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
جہاں ایک جانب حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جارہی تھی وہی اس کے اٹھائے گئے معاشی اقدامات پر تاجر برادری کی بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں اور تاجروں نے حکومتی معاشی پالیسیوں کو مسترد کردیا تھا۔
جون کے آخر میں آل پاکستان انجمن تاجران نے حکومت کا پیش کردہ بجٹ مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت نے ٹیکسوں کی بھرمار کردی جس سے کاروباری افراد کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اور اگر حکومت نے ہماری تجاویز نہیں مانیں تو ملک بھر میں ہڑتال کریں گے۔
جولائی 2019
اگرچہ تاجروں کی جانب سے حکومت کو ہڑتال کا انتباہ جون میں ہی دے دیا گیا تھا لیکن تاجروں کے نزدیک اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہ دکھانے پر انہوں نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
تاجروں کی پہلی ہڑتال
سال 2019 میں حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ہونے والے بڑے احتجاج میں سے یہ ہڑتال ایک تھی اور کراچی تا خیبر مختلف مقامات پر کہیں کاروبار مکمل جبکہ کہیں جزوی طور پر بند رکھا گیا تھا۔
حکومت کے پیش کردہ بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات، نئے ٹیکسز کا نفاذ، معیشت کو دستاویزات کی شکل دینے اور 50 ہزار سے زائد کی لین دین پر شناختی کارڈ کی شرط پر سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں بھی شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی تھی۔
ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی حب کراچی میں ہڑتال کے دوران جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ، جامع کلاتھ مارکیٹ، حیدری مارکیٹ اور اکبر روڈ میں جزوی ہڑتال کی گئی جبکہ صدر کی الیکٹرانکس مارکیٹ، گل پلازہ اور پیپر مارکیٹ بھی بند رہی۔
اس ہڑتال پر کراچی میں تقریباً 400 مارکیٹس کی نمائندہ تنظیم آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے کہا تھا کہ ’اس ہڑتال کی کال مسائل کے حل نہ ہونے، قابل ٹیکس آمدنی کو 40 لاکھ سے کم کر کے 12 لاکھ کرنا اور 50 لاکھ یا اسے زائد کی لین دین پر قومی شناختی کارڈ کی شرط لازمی قرار دینے پر ہڑتال کی کال دی گئی‘۔
تاہم ناقدین نے اس ہڑتال کو تاجروں کی حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ عمل انکم ٹیکسز سے بچنے کے لیے معیشت کو بغیر دستاویز سے رکھنے کے لیے کیا گیا۔
اپوزیشن اور حکومت سینیٹ میں آمنے سامنے
جولائی میں ہی اپوزیشن نے جون میں اپنی اے پی سی میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد شروع کیا اور پی ٹی آئی حکوت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایوان بالا میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد اور سینیٹ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کروادی گئی۔
وہیں حکومت نے بھی مکمل مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپوزیشن کے جواب میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا جو پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے تھے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی گئی۔
ایوان بالا کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے کچھ دن بعد اس عہدے کے لیے متفقہ طور پر اپوزیشن کے امیدوار حاصل بزنجو کو نامزد کیا تھا۔
جس پر بعدازاں ووٹنگ ہوئی اور سینیٹ میں اکثریت کے باجود اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی جبکہ حکومت کو بھی اپنی تحریک عدم اعتماد میں کامیابی نہ مل سکی۔
اسی ماہ پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کو ایک سال مکمل ہوا اور 25 جولائی کو جہاں حکمراں جماعت نے یوم تشکر منایا وہی متحدہ اپوزیشن نے یوم سیاہ منایا تھا۔
عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپوزیشن کی جماعتوں کے یوم سیاہ پر چاروں صوبائی دارالحکومتوں سمیت پورے ملک میں احتجاجی جلسے، ریلیاں منعقد کی گئیں۔
مختلف مقامات پر ہونے والے ان جلسوں سے مریم نواز نے ’محترم اداروں‘ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’نالائق اعظم‘ کی ناکامیوں کا بوجھ اٹھا کر عوام سے ٹکر نہ لیں۔
اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے 25 جولائی کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وہیں مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا تھا۔
اگست 2019
اگست کے مہینے میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یکطرفہ غیرقانونی اقدام دیکھنے میں آیا، جس پر پوری قوم میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا اور حکومت اور اپوزیشن کشمیر کے معاملے پر یکجا نظر آئے۔
اس مہینے میں حکومت کے خلاف کوئی ایسا خاص احتجاج، دھرنا، تحریک یا مظاہرے دیکھنے میں نہیں آئے۔
نواز شریف کی رہائی کیلئے ریلی
تاہم مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 'فری نواز' مہم جاری رکھی گئی جس میں مریم نواز بہت زیادہ متحرک نظر آئیں اور انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کارکنان کو کہا کہ جعلی حکومت کو دھکا دینے کے لیے اگر پارٹی نے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تو ان کا ساتھ دیا جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کارکنوں کو مخاطب کیا تھا کہ اگر جعلی حکومت کو آخری دھکا دینے کے لیے پارٹی نے اسلام مارچ کا اعلان کیا تو وہ ان کا ساتھ دیں۔
خوشاب میں ‘فری نواز’ مہم کے دوران کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان نے آپ سے صرف آپ کا ووٹ نہیں چھینا بلکہ آپ کی روٹی بھی چھین لی ہے، صرف ووٹ نہیں چھینا آپ سے آپ کا روزگار بھی چھینا ہے’۔
مولانا کا اسلام آباد آنے کا اعلان
اگست میں ہی اپوزیشن نے حکومت مخالف مشترکہ احتجاجی حکمت عملی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد کی صورتحال پر ایک مرتبہ پھر اے پی سی طلب کی تھی۔
مذکورہ اے پی سی میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ متحد ہوکر اسلام آباد آنے اور حکومتی تابوت میں آخری کیل ٹھوکیں گے اور رہبر کمیٹی اس معاملے پر چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کرے گی۔
ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ متحد ہو کر اسلام آباد آئیں گے اور حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکیں گے اور اس سلسلے میں رہبر کمیٹی کو کہا تھا کہ وہ ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کرے۔
ستمبر 2019
ستمبر 2019 میں بھی حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ رکا نہیں اور یکے بعد دیگرے سیاسی مخالفین کے علاوہ عوام بھی سڑکوں پر نظر آئے۔
اسی ماہ جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے اپنے آزادی مارچ کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطے تیز کیے تو وہیں پارلیمان میں اپوزیشن کے سخت رویے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو حکومت کے خلاف احتجاج و مظاہروں کا باعث بنے۔
بچوں کے زیادتی کے بعد قتل پر احتجاج
ستمبر کے وسط میں پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے چونیاں میں لوگوں نے کئی روز سے لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا گیا تھا۔
تاہم ابتدائی طور پر انتظامیہ کی جانب سے یقین دہانی کے بعد اس مظاہرے کو ختم کردیا گیا۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ یہ قصور وہی ضلع تھا جہاں جنوری 2018 میں 6 سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، جس نے پوری ملک میں شدید غم و غصہ پیدا کردیا تھا اور ملک گیر مظاہرے دیکھنے کو آئے تھے۔
تاہم ستمبر 2019 میں ہونے والے اس احتجاج نے پرتشدد رنگ اس وقت اختیار کیا جب قصور سے اغوا 3 بچوں کی مبینہ زیادتی کے بعد کی گئی لاشیں ملیں، جس پر ایک شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
ضلع بھر میں ان تینوں کے بچوں کے اغوا، مبینہ ریپ اور قتل کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا، جہاں مظاہرین نے ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔
تحصیل چونیاں میں ہونے والے اس احتجاج میں مشتعل مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کردیں جبکہ پولیس کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ مظاہرین نے ملزمان کی عدم گرفتاری پر پولیس اسٹیشن کا بھی محاصرہ کیا تھا۔
دریں اثنا اس وقت انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس عارف نواز خان کا کہنا تھا کہ چنیاں میں 3 تحقیقاتی ٹیمیں کام کر رہی ہیں اور متعلقہ واقعے سے متعلق مختلف لوگوں کے خلاف تفتیش کی گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 'قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا، جنہوں نے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہیں کیا ان سے باز پرس ہوگی'۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'پنجاب پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک یہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں کہ ڈی پی او قصور کو ہٹایا جارہا ہے، ایس پی انوسٹی گیشن قصور خود کو قانون کے حوالے کرچکے ہیں اور چارج شیٹ کے بعد ان کے خلاف کارروائی جاری ہے'۔
اپوزیشن کا پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج
اسی ماہ قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اراکین کی گرفتاری اور ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر پارلیمان کے اندر و باہر سخت احتجاج کیا گیا تھا۔
اس موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی کیمپ بھی لگایا گیا تھا، جس میں اس وقت گرفتار رہنماؤں، سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کی تصاویر موجود تھی اور مظاہرین ان رہنماؤں کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔
اس کے علاوہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے اندر بھی احتجاج کیا تھا اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرلیا تھا۔
ڈاکٹرز پھر سڑکوں پر
سال کے نویں ماہ میں بھی ڈاکٹروں کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تاہم اس مرتبہ یہ سلسلہ حکومت کے مجوزہ بل کے خلاف احتجاج کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ہونے والے اس احتجاج پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس سے متعدد ڈاکٹرز زخمی ہوگئے تھے۔
اس موقع پر ینگ ڈاکٹرز نے دعوٰی کیا کہ پیرامیڈکس اور خواتین نرسز سمیت 13مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔
صوبے کے ڈاکٹرز اور اس کی تنظیموں کی جانب سے یہ احتجاج صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ قانون 'ڈسٹرکٹ اینڈ ریجنل ہیلتھ اتھارٹی ایکٹ 2019' کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا جبکہ اس سلسلے میں ہڑتال بھی کی گئی تھی جبکہ ڈاکٹروں نے صوبائی اسمبلی کے گھیراؤ کا اعلان بھی کیا تھا۔
بعد ازاں احتجاج کرنے والے 26 ڈاکٹروں کے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا تھا جبکہ گرفتار ڈاکٹروں کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔
چمن واقعے پر بلوچستان میں ہڑتال
ادھر مہینے کا آخر تھا کہ صوبہ بلوچستان میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آگیا، جس نے اپوزیشن جماعت کو ہڑتال کا اعلان کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
28 ستمبر کا دن تھا کہ بلوچستان کے ضلع چمن میں دھماکے کی خبر آئی جس میں بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے جے یو آئی (ف) کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل مولوی حنیف انتقال کر گئے۔
اس حملے میں مولوی حنیف کے علاوہ 2 افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے۔
جس کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مولوی حنیف کی موت پر بلوچستان بھر میں شٹر ڈان ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے حکومت اور ریاستی اداروں سے شکوہ کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو صوبے بھر کے تمام ضلعی ہیڈاکوارٹر میں پر امن مظاہروں کی ہدایت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور ریاستی ادارے جو امن کے دعوے کرتے رہے مولانا حنیف پر قاتلانہ حملے کے ساتھ ہی دم توڑ گئے، ’جن قوتوں نے کہا تھا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور امن قائم ہوگیا، ہمیں بتائیں کون سی جنگ جیتی کہا امن قائم ہوا‘۔
بعد ازاں جے یو آئی کے سربراہ کی کال پر 29 ستمبر کو صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور چمن کے ساتھ ساتھ کوئٹہ اور حب سمیت تقریباً تمام اضلاع میں تمام کاروباری مراکز بند رہے۔
اکتوبر 2019
سال 2019 میں اگر اکتوبر اور پھر نومبر کو سیاسی موسم کے حوالے سے سب سے گرم مہینہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
جہاں دنیا بھر میں اکتوبر کو ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات کی وجہ سے یوٹیوب کمیونٹی 'ٹیک ٹیوبر' کہتی ہے وہی ہمارے ملک میں یہ مہینہ 'آزادی مارچ' کے مہینے کے طور پر سامنے آیا تھا۔
تاہم اس مارچ کے شروع ہونے سے قبل کچھ دیگر احتجاج، مظاہرے بھی ہوئے جو خبروں کی زینت بنے۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی حیدرآباد میں بھوک ہڑتال
ان میں سے ایک اکتوبر کے اوائل میں حیدرآباد میں لاپتہ ہونے والے قوم پرست رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کے اہل خانہ کا احتجاج اور بھوک ہڑتال تھی۔
ان افراد نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں ناقابل بیان تکلیف سے چھٹکارا دلایا جائے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے پیاروں کو سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں نے اٹھایا لیکن اب لاپتہ ہونے والے افراد کے بارے میں وہ اس حوالے سے کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں۔
یہ احتجاج وائس آف میسنگ پرسن سندھ کی جانب سے کیا گیا تھا اور ’جبری لاپتہ افراد کو رہا کرو‘ مذکورہ احتجاجی مہم کا نعرہ تھا۔
خیبرپختونخوا میں ای ڈی او کے قتل پر احتجاج
اس مظاہرے کے اگلے روز بھی ملک میں ایک اور احتجاج ہوا جو صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کوہستان کے ضلع کولائی پالس میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر (ای ڈی او) نواب علی کے قتل کے خلاف تھا۔
مذکورہ احتجاج میں طلبہ، اساتذہ اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ شانگلہ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی کال پر نواب علی کے آبائی علاقے شانگلہ سمیت صوبے بھر میں ریلیاں نکالی گئیں۔
واضح رہے کہ نواب علی کو مبینہ طور پر ان کے دفتر میں قتل کردیا گیا تھا۔
مظاہرے میں موجود طلبہ اور اساتذہ سے خطاب میں مقررین نے حکومت سے واقعے میں ملوث افراد سمیت پولیس سربراہان، مفتی عبیدالرحمٰن اور ڈپٹی کمشنر کو نواب علی کی موت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ بھی سڑکوں پر نکل آئے
علاوہ ازیں اکتوبر میں ہی بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے اسکینڈل کے انکشاف کے بعد مختلف طلبہ تنظیموں نے احتجاج کیا تھا۔
طالب علموں نے عہدیداروں پر دباؤ ڈالنے اور طلبا و طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے کیمپس کے اندر کی جانب مارچ کیا تھا۔
اس موقع پر بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'یہ قابل قبول نہیں، ہم اپنی عزت کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے'۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہراساں کرنے کے اسکینڈل سے صوبے اور بالخصوص بلوچستان یونیورسٹی میں تعلیم کے ماحول پر اثر پڑا ہے۔
مظاہرین کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر ملزمان کو سزا دینے، انصاف اور طالبان کو درپیش بلیک میلنگ کے واقعات روکنے کے مطالبات کیے گئے تھے۔
ایک سال میں تاجر برادری کی دوسری ہڑتال
سال کے 10ویں مہینے میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر تاجر سراپا احتجاج ہوئے اور کراچی سے خیبر تک 2 روزہ ملک گیر ہڑتال کی۔
آل پاکستان انجمن تاجران (اے پی اے ٹی) اور مرکزی تنظیم تاجران پاکستان (ایم ٹی ٹی پی) کی ہڑتال کی کال پر کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں تاجروں کی ایسوسی ایشنز نے حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کاروبار بند رکھے۔
تاجروں نے ملک بھر میں شٹر ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت اضافی ٹیکسز کے ساتھ ساتھ 50 ہزار روپے کی لین دین پر شناختی کارڈ کی شرط ختم کرے۔
ملک بھر کے تاجروں کی یہ ہڑتال 2 روز تک جاری رہی، جس کے بعد حکومت حرکت میں آئی اور وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے تاجروں سے ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا، جس کے مطابق شناختی کارڈ کی شرط تین ماہ کے لیے موخر کردی گئی تھی۔
انہوں نے اسلام آباد میں تاجر برادری کے نمائندوں، چیئرمین وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں یہ بتایا تھا کہ تاجروں اور ایف بی آر کے درمیان 11 نکاتی معاہدہ ہوگیا ہے۔
مذکورہ معاہدے کے بعد تاجر برادری کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ہڑتال ختم کرتے ہیں اور تاجروں کو کہتے ہیں کہ وہ کاروبار کھول لیں۔
آزادی مارچ
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے 25 جولائی سے شروع کی جانے والی تحریک کے سلسلے میں 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب 'آزادی مارچ' کا اعلان کیا تھا۔
3 اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں مولانا نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت حکومت مخالف آزادی مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے کرے گی۔
تاہم مولانا کی جانب سے 27 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد حکومتی اراکین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں اس احتجاج کی تاریخ کو تبدیل کرنے کا کہا کیونکہ وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ 27 اکتوبر کا دن بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی حملہ کے باعث دنیا بھر میں کشمیریوں کی طرف سے یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
بعد ازاں 9 اکتوبر کو جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا یہ اعلان سامنے آیا کہ آزادی مارچ اب 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا جبکہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ 'یوم سیاہ' منائیں گے۔
جے یو آئی کی جانب سے جہاں آزادی مارچ میں شرکت کے لیے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی رابطے تیز کیے گئے وہیں حکومت بھی متحرک ہوئی اور اس نے بھی مذاکرات کے تمام راستے کھلے رکھنے کی ہدایت کی۔
تاہم مولانا کی جانب سے ایک ہی پیغام دیا جاتا رہا کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ سے پہلے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
اسی دوران کچھ دن بعد حکومت نے آزادی مارچ کے منتظمین کو مشروط اجازت لینے کا فیصلہ کیا اس کے بعد حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یہ طے ہوا کہ آزادی مارچ 'ڈی چوک' نہیں آئے گا اور وہ لوگ اسلام آباد کے ایچ نائن گراؤنڈ میں جلسہ کرے گی۔
ان تمام احتجاج اور مظاہروں کے ساتھ ہی سال کے سب سے بڑے اس احتجاج کا دن آیا جس کا اعلان جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے 25 جولائی سے شروع کی جانے والی تحریک کے سلسلے میں کیا تھا۔
اکتوبر میں ایک پریس کانفرنس میں مولانا نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت حکومت مخالف آزادی مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے کرے گی۔
تاہم مولانا کی جانب سے 27 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کرنے بعد حکومتی اراکین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں اس احتجاج کی تاریخ کو تبدیل کرنے کا کہا کیونکہ وزیر خارجہ نے کہا کہ 27 اکتوبر بھارت کے مقبوضہ کشمیر پر غیرقانونی حملہ کی وجہ سے دنیا بھر میں کشمیریوں کی طرف سے یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
بعد ازاں 9 اکتوبر کو جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا یہ اعلان سامنے آیا کہ آزادی مارچ اب 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا جبکہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ 'یوم سیاہ' منائیں گے۔
جے یو آئی کی جانب سے جہاں آزادی مارچ میں شرکت کے لیے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی سے بھی رابطے تیز کیے گئے وہیں حکومت بھی متحرک ہوئی اور اس نے بھی مذاکرات کے تمام راستے کھلے رکھنے کی ہدایت کی۔
تاہم مولانا کی جانب سے ایک ہی پیغام دیا جاتا رہا کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ سے پہلے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
اسی دوران کچھ دن بعد حکومت نے آزادی مارچ کے منتظمین کو مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا اس کے بعد حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں یہ طے ہوا کہ آزادی مارچ 'ڈی چوک' نہیں آئے گا اور وہ لوگ اسلام آباد کے ایچ نائن گراؤنڈ میں جلسہ کرے گی۔
جس کے بعد وہ دن آیا یعنی 27 اکتوبر جب ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا آغاز کیا تھا۔
بعد ازاں کراچی سے شروع ہونے والا آزادی مارچ سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور پھر 31 اکتوبر کو راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔
مارچ کے استقبال کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں مقامی رہنماؤں اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔
آزادی مارچ کا مرکزی جلسہ 31 اکتوبر کو ہونا تھا تاہم مارچ کے شرکا رات کو پہنچنے تھے جس پر قائدین نے مختصر خطاب کیا جبکہ اس سے قبل مارچ کے قافلے کے روات پہنچنے پر وہاں لگائے گئے استقبالیہ کیمپ سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'آپ کی یکجہتی قومی نعرے کا روپ دھار چکی ہے، عوام اسلام آباد جا کر حکمرانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ نااہل اور ناجائز حکومت قابل قبول نہیں۔
نومبر 2019
یکم نومبر کو آزادی مارچ کا پہلا باقاعدہ جلسہ ہوا، جس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے شرکت کی جبکہ ان کے علاوہ دیگر جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوئے۔
اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کو دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ‘اگر ہم محسوس کریں کہ اس ناجائز حکومت کی پشت پر ہمارے ادارے ہیں، اگر ہم محسوس کریں کہ اگر ان ناجائز حکمرانوں کا تحفظ ہمارے ادارے کر رہے ہیں تو پھر دو دن کی مہلت ہے، پھر ہمیں نہ روکا جائے کہ ہم اداروں کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں’۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ‘یہ ہماری پرامن صلاحیتوں کا اظہار ہے، ہم پرامن لوگ ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امن کے دائرے میں رہیں ورنہ اسلام آباد کے اندر پاکستان کے عوام کا یہ سمندر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کے گھر کے اندر جاکر وزیراعظم کو خود گرفتار کرلیں’۔
اسی روز شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادی مارچ تحریک کا پہلا حصہ ہے، اس کو آگے بڑھانا ہے، پہلے جو آئی تھی وہ تبدیلی نہیں تھی بلکہ تبدیلی اب آئی ہے اور یہ تحریک انصاف کی حکومت کو بہا کر لے جائے گی۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں، مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔
ادھر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ مولانا نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرکے پیغام دیا ہے کہ اس ملک کے عوام صرف جمہوریت مانگتے ہیں، وہ پارلیمانی نظام جو 1973 کے آئین میں پاس کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ عوام یہ سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی نظام کو نہیں مانتے، میں پوچھنا چاہوں گا کہ اس 'نیا پاکستان' میں یہ کس قسم کی جمہوریت اور آزادی ہے کہ 70 سال گزرنے کے باوجود ہم صاف و شفاف انتخابات نہیں کرواسکتے، یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ 2018 کے انتخابات میں ہمارے پولنگ ایجنٹس کو باہر پھینک دیا جاتا ہے، پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات کردی جاتی ہے، وہ ادارہ جس کا کام سیکیورٹی کا تھا اس سے پولنگ لسٹ چیک کروائی جاتی ہے، ایسی حرکتوں سے ہمارے انتخابات اور ادارے متنازع ہوجاتے ہیں۔
تاہم پہلے جلسے میں شرکت کے بعد ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ مولانا کو پہلے ہی آگاہ کرچکے تھے کہ وہ صرف عوامی جلسے میں شرکت کریں گے اور کسی دھرنے کی حمایت نہیں کریں گے۔
دو بڑی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے دھرنے میں شرکت سے انکار کے باوجود مولانا نے اپنا آزادی مارچ جو بعد میں ایک دھرنے کی شکل اختیار کرگیا تھا وہ جاری رکھا۔
ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کے بغیر حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی، تاہم حکومت نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگی اس بارے میں کوئی سوچے بھی نہیں۔
تاہم جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اپنی بات پر ڈٹے رہے اور انہوں نے ایک موقع پر تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو شہادتیں لیں گے اور لاشیں اٹھائیں گے لیکن کسی صورت یہاں سے نہیں جائیں گے۔
جے یو آئی کے آزادی مارچ میں اصل امتحان شرکا کا تھا کیونکہ جس وقت یہ مارچ جاری تھا اس وقت اسلام آباد میں سخت سردی پڑ رہی تھی جبکہ بارش نے بھی موسم کو مزید ٹھنڈا کرتے ہوئے شرکا کی مشکلات میں اضافہ کردیا تھا، تاہم ان تمام مشکلات کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ اپنے قائد کی جانب سے دیئے جانے والے آئندہ کے لائحہ عمل پر عمل درآمد کے لیے تیار تھے۔
جہاں ایک طرف اسٹیج سے حکومت کے خلاف سخت زبان استعمال کی جاتی اور استعفے کا مطالبہ کیا جاتا رہا وہی دوسری جانب حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی بیک ڈور بات چیت جاری رہی۔
تاہم مسلسل مذاکرات کے سلسلے کے باوجود دونوں فریقین کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے لیکن اس کے باوجود موسم کو دیکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے 13 روز بعد اس آزادی مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے نئے محاذ یعنی 'پلان بی' پر منتقل ہونے کا کہہ دیا تھا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد کے پشاور موڑ پر کئی روز سے جاری دھرنا ختم کرتے ہوئے پلان 'بی' کے تحت نئے محاذ پر جانے کا اعلان کردیا تھا۔
آزادی مارچ کے اختتام پر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ دو ہفتوں سے قومی سطح کا اجتماع تسلسل سے ہوا، اب نئے محاذ پر جانے کا اعلان کر دیا گیا ہے، ہمارے جاں نثار اور عام شہری سڑکوں پر نکل آئے ہیں، ہماری قوت یہاں جمع ہے اور وہاں ہمارے ساتھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
مولانا کے پلان بی کے اعلان کے ساتھ ہی جے یو آئی (ف) کے کارکنان ملک کے چاروں صوبوں کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں پر دھرنا دینا شروع ہوگئے تھے۔
جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان نے ملک کی اہم شاہراہوں پر دھرنے دیے تھے، جس کے باعث ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی تھی جبکہ لوگوں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تاہم 15 نومبر کو مولانا فضل الرحمٰن نے نوشہرہ میں دھرنے سے خطاب میں رات کو سڑکیں اور شاہراہیں کھلی رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کارکنان صبح سے مغرب تک دھرنا دیں کیونکہ ٹھنڈ بڑھنے کی وجہ سے مسافروں اور کارکنوں کو تکلیف ہوتی ہے'۔
بعد ازاں اپنے قائد کی بات کو مانتے ہوئے جے یو آئی کے کارکنان نے دن کے اوقات میں دھرنا دینے کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور مسلسل 5 روز تک دھرنے دیے تھے جس کے بعد 19 نومبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے ملک بھر میں شاہراہوں اور سڑکوں پر جاری دھرنے ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
دسمبر 2019
سال 2019 کے آخری ماہ یعنی دسمبر میں بھی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
دعا منگی کی بازیابی کیلئے احتجاج
دسمبر کے آغاز میں کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے ایک لڑکی دعا منگی کے اغوا کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
ڈیفنس کے علاقے میں رات کو ایک لڑکے کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کے دوران مسلح افراد نے دعا منگی کو اغوا کرلیا تھا اور فائرنگ کرکے لڑکے کو زخمی کردیا تھا۔
اس واقعے کے بعد فوری طور پر انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہ آنے پر اہل خانہ نے احتجاج کا راستہ اپنایا تھا۔
3 دسمبر کو اہل خانہ سمیت سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے 100 کے قریب افراد نے دعا منگی کے اغوا کے خلاف سڑک پر احتجاج کیا تھا جس میں تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان بھی پہنچے تھے۔
احتجاج کے باعث ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہوا تھا اور انتظامیہ نے ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب موڑ دیا تھا۔
طالبہ کے اغوا کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں سندھ تھنکرز فورم کے اراکین کے علاوہ طالبہ کے اہل خانہ اور رشتہ دار، پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی آفتاب قریشی، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نجمی عالم اور دیگر شامل تھے۔
بعد ازاں کچھ روز گزرنے کے بعد دعا منگی باحفاظت گھر پہنچ گئی تھیں جبکہ یہ رپورٹس آئیں تھیں کہ ان کی واپسی تاوان کی ادائیگی کے بعد ہوئی تھی۔
بلوچستان سے گرفتار خواتین کی رہائی کیلئے احتجاج
اسی ماہ کے شروع میں ہی صوبہ بلوچستان کے علاقے آواران سے 4 خواتین کی گرفتاریوں پر انسانی حقوق کے کارکنان، وکلا اور سیاسی رہنماؤں نے احتجاج کیا تھا۔
مظاہرین کی جانب سے ان خواتین کی فوری طور پر رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم یہ بات سامنے آئی تھی کہ چند روز قبل لیویز اور پولیس حکام نے خواتین کو آواران میں بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے لیے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد لے جانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
بعد ازاں اس احتجاج کے ایک روز بعد یہ خبر آئی کہ ان تمام خواتین کو رہا کردیا گیا جبکہ بلوچستان کے قانون ساز ثنااللہ بلوچ نے ضلع آواران سے گرفتار کی گئیں 4 خواتین کی رہائی کی تصدیق کردی تھی۔
پی آئی سی پر حملہ اور وکلا کا احتجاج
رواں سال کے آخر ماہ کا سب سے بڑا واقعہ اور احتجاج اس وقت ہوا جب 11 دسمبر کو وکلا نے احتجاج کرتے ہوئے لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں مبینہ طور پر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی، جس کے باعث امداد نہ ملنے پر 3 مریض جاں بحق ہوگئے۔
مذکورہ واقعہ اس وائرل ویڈیو کے ردعمل کے طور پر پیش آیا جس میں وکلا کے بقول ینگ ڈاکٹرز ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔
اس دھاوے کے دوران سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور پولیس کی موبائل کو بھی نذرآتش کردیا گیا جبکہ کچھ وکلا اسلحہ کے ساتھ بھی نظر آئے۔
پی آئی سی پر دھاوے کے دوران پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی ہسپتال پہنچے تھے، جہاں مشتعل افراد جو بظاہر وکلا نظر آرہے تھے انہوں نے ان پر تشدد کیا۔
مذکورہ معاملے کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں فیاض الحسن چوہان پر تشدد اور انہیں بالوں سے پکڑتے ہوئے دیکھا گیا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی نوٹس لیا تھا اور رپورٹ طلب کی تھی۔
پولیس نے اس واقعے پر درجنوں وکلا کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
اس پر وکلا برادری کا سخت ردعمل آیا اور انہوں نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا، ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ گرفتار کیے گئے وکلا کو ’فوری رہا‘ کیا جائے۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے ہڑتال کی کال پر ملک بھر میں وکلا نے ہڑتال کی اور کراچی سے لیکر خیبر تک چاروں صوبوں میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا۔