پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بھی جن کھلاڑیوں کے کام نہ آسکی
پاکستان اور سری لنکا کے مابین جاری ٹیسٹ سیریز کے اوّلین ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے عابد علی نے ایک نئی تاریخ رقم کردی۔
عابد علی، اپنے کیریئر کے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں 100 رنز بنا کر ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری اسکور کرنے والے پاکستان کے 12ویں کھلاڑی بن گئے، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دنیائے کرکٹ کے واحد ایسے مرد کھلاڑی ہونے کا اعزاز پالیا ہے جس نے اپنے ٹیسٹ اور ایک روزہ کیریئر کے ڈیبیو پر سنچری اسکور کی ہے۔ عابد علی سے پہلے انگلینڈ کی خاتون کھلاڑی ’اینڈ بیکویل‘ یہ کارنامہ انجام دینے والی دنیا کی واحد کھلاڑی تھیں۔
پاکستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ بھارت کے خلاف دہلی میں اس وقت کھیلا جب اس کے قیام کو ابھی صرف 5 سال ہی گزرے تھے۔
ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی فہرست میں شمولیت کے بعد پاکستان کو 12 سال کے انتظار کے بعد خالد عباد اللہ کے نام سے وہ کھلاڑی میسر آیا جس نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری اسکور کی۔ خالد عباد اللہ جو بلی عباداللہ کے نام سے بھی مشہور تھے، انہوں نے یہ کارنامہ 1964ء میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں انجام دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میچ میں ان کے دوسرے اوپننگ پارٹنر عبد القادر بھی اپنا ٹیسٹ ڈیبیو کر رہے تھے اور وہ بدقسمتی سے 95 رنز کی اننگز کھیل کر رن آؤٹ ہوگئے۔ اس میچ میں خالد عباد اللہ اور عبد القادر نے پہلی وکٹ پر 249 رنز اسکور کیے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا اور واحد موقع ہے کہ 2 کھلاڑیوں نے اپنے اوّلین ٹیسٹ میچ میں 200 رنز یا اس سے زائد کی شراکت قائم کی ہو۔
خالد عباد اللہ کے بعد جاوید میانداد اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری اسکور کرنے والے دوسرے کھلاڑی تھے۔ جاوید میانداد نے یہ کارنامہ 1976ء میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں انجام دیا تھا۔ جاوید میانداد اپنے پہلے میچ میں جس وقت بلے بازی کے لیے میدان میں اترے تو پاکستان کی 4 وکٹیں صرف 55 رنز کے اسکور پر گر گئیں تھیں۔ اس موقع پر جاوید میانداد نے آصف اقبال کے ساتھ مل کر پانچویں وکٹ کے لیے 281 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو بحران سے نکالا۔
جاوید میانداد نے اس اننگ میں 163 رنز بنائے۔ مردِ بحران کا یہ کردار جو جاوید میانداد نے اپنے کیریئر کی پہلی اننگز میں ادا کیا تھا وہی کردار انہوں نے اپنے پورے کیریئر کے دوران ادا کیا۔
پاکستان کی طرف سے اب تک 12 کھلاڑی اپنے ٹیسٹ ڈیبیو میں سنچری اسکور کرچکے ہیں۔ ان میں سے 4 کھلاڑیوں نے سری لنکا کے خلاف، 3 نے نیوزی لینڈ کے خلاف، 2 کھلاڑیوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف جبکہ 2 کھلاڑیوں نے بنگلہ دیش اور ایک کھلاڑی نے آسٹریلیا کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا۔
ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری کرنے کے اعتبار سے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے لیے 1996ء سے 2009ء تک کا عرصہ بہت باکمال ثابت ہوا۔ ان 13 برسوں میں پاکستان کی طرف سے 8 کھلاڑیوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں سنچری اسکور کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران سنچری اسکور کرنے والے ان 8 کھلاڑیوں میں سے صرف یونس خان ہی ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے طویل عرصے تک پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلی جبکہ بقیہ 7 کھلاڑیوں کا کیریئر نہایت مختصر رہا۔
اوّلین ٹیسٹ میچ میں سنچری اسکور کرنے سے کھلاڑی کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور عمومی طور پر یہ تصور کیا جانے لگتا ہے کہ اس کھلاڑی کا ٹیسٹ کیریئر خاصا طویل ہوگا لیکن کرکٹ کی تاریخ میں آپ کو ایسے بہت سے کھلاڑی مل جائیں گے جنہوں نے اس اعزاز کو پانے کے باوجود بھی تسلسل کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ میں خاطر خواہ کمالات نہیں دکھائے، یا پھر انہیں ایسا کرنے سے روکا گیا۔
اس تحریر میں ہم پاکستان کے چند ایسے ہی کھلاڑیوں کا تذکرہ کریں گے جن کے لیے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بُرا شگون ثابت ہوئی۔
عمر اکمل
عمر اکمل کا شمار پاکستان کے نہایت باصلاحیت بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ عمر اکمل نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف ڈینیڈن میں 2009ء میں کھیلا تھا۔ اس ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں انہوں نے ایک مشکل میدان میں نیوزی لینڈ کے اس باؤلنگ اٹیک کا جم کر مقابلہ کیا جس میں شین بانڈ جیسا تیز رفتار باؤلر اور ڈینیئل ویٹوری جیسا ماہر اسپن باؤلر موجود تھا۔ اپنی اس اوّلین اننگ میں انہوں نے 129 رنز بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کامران اکمل کے ساتھ مل کر 175 رنز کی شراکت قائم کرتے ہوئے پاکستان کی ڈولتی کشتی کو پار لگانے کی ایک شاندار کوشش کی۔
اس میچ کی دوسری اننگز میں بھی عمر اکمل نے 75 رنز بنائے۔ ان کی یہ کاوشیں پاکستان کو شکست سے تو نہیں بچاسکیں لیکن انہوں نے پاکستان کرکٹ کے شائقین کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا کیا کہ قومی کرکٹ ٹیم کو ایک نیا ستارہ مل گیا ہے۔
اپنی اس پہلی سنچری کے بعد عمر اکمل اپنے کھیل کا معیار برقرار نہیں رکھ سکے اور وہ مختلف تنازعات کا بھی شکار رہے۔ اپنے کیریئر کے آغاز میں ہی وہ اس وقت ایک تنازعے کا شکار ہوگئے جب انہوں نے 10ء-2009ء کے دورہ آسٹریلیا کے دوران ٹیم انتظامیہ کو اس بات کی دھمکی دی کہ اگر ان کے بھائی کو ہوبارٹ ٹیسٹ سے ڈراپ کیا گیا تو وہ بھی اس میچ میں نہیں کھیلیں گیں۔ شاید عمر اکمل کا یہ گرم مزاج اور ہر وقت تنازعات میں الجھنے کی عادت ان کے کیریئر کے لیے نقصاندہ ثابت ہوئی۔
عمر اکمل کا مختصر کیریئر اس بات کا ثبوت ہے کہ صلاحیت سے مالا مال ہونا ایک مختلف بات ہے لیکن اگر کھلاڑی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ میدان میں اپنی کارکردگی سے نہیں کرے گا تو اس کا ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔ عمر اکمل پاکستان کی 67 سالہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے اب تک واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے ڈیبیو پر سنچری کرنے کا کارنامہ ایشیا سے باہر سر انجام دیا ہے۔
فواد عالم
فواد عالم نے جولائی 2009ء میں کولمبو کے میدان میں اپنے اوّلین ٹیسٹ میچ میں سنچری اسکور کی تھی۔ اس میچ کی پہلی اننگز میں وہ صرف 16 رنز بناسکے لیکن دوسری اننگز میں انہوں نے شاندار 168 رنز بناکر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی آمد کا بھرپور اعلان کیا۔
فواد عالم پر کپتان یونس خان کو اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے میچ کے آغاز سے قبل ہی ایک کرکٹ بال پر فواد کے لیے مبارک باد کا پیغام لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی، جسے بعدازاں یونس خان نے فواد عالم کو تحفتاً پیش کی۔
دورہ سری لنکا کے بعد قومی ٹیم کو نیوزی لینڈ کا دورہ کرنا تھا۔ اس دورے میں فواد عالم ڈینیڈن ٹیسٹ میں خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے۔ نیوزی لینڈ کے مشکل دورے پر فواد کی ناکامی کو وجہ بناکر ان کو ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور پھر 10 سالوں تک انہیں قومی ٹیم شامل ہی نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ان 10 برسوں میں فواد عالم نے اپنی فٹنس اور کارکردگی کو برقرار رکھا اور ابھی گزشتہ ماہ ہی انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنے 12 ہزار رنز بھی مکمل کیے۔
اور اگر گزشتہ 10 سالوں کی بات کی جائے تو فواد عالم نے ٹیسٹ ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد 56.58 کی اوسط سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 7 ہزار 922 رنز بنائے ہیں۔ اس مجموعے میں ان کی 26 سنچریاں بھی شامل ہیں۔ مسلسل شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر فواد عالم کو سری لنکا کے خلاف جاری حالیہ سیریز کے لیے پاکستان کی ٹیم میں منتخب کرلیا گیا لیکن ان کو نہ ہی راولپنڈی ٹیسٹ میں موقع دیا گیا اور نہ ان کے اپنے ہوم گراونڈ کراچی میں بھی کھلایا گیا۔
یاسر حمید
پاکستان کو اوپنرز کے شعبے میں ہمیشہ پریشانی کا سامنا رہا ہے۔ اس صدی کے اوائل میں ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کو یاسر حمید کی صورت میں ایک قابلِ اعتماد اوپنر مل گیا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں۔ یاسر حمید نے 2003ء میں بنگلہ دیش کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس ٹیسٹ میچ کی دونوں ہی اننگز میں سنچریاں اسکور کرکے وہ ویسٹ انڈیز کے لارنس رو کے بعد اپنے اولین ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری اسکور کرنے والے دنیائے کرکٹ کے دوسرے کھلاڑی بنے۔
یاسر حمید کا کیریئر اتار چڑھاؤ کا شکار رہا اور ٹیم میں ان کا آنا جانا لگا رہا لیکن 2010ء میں دورہ انگلینڈ کے موقعے پر اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل ہوا تو اس دوران یاسر حمید کا ایک متنارعہ انٹرویو برطانوی نشریاتی ادارے پر نشر ہوا جس کی وجہ سے یاسر حمید کا ایک منفی تاثر ابھر کر آیا اور یوں وہ صرف 25 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگئے۔
اظہر محمود
اظہر محمود جتنی تیزی سے پاکستان کرکٹ کے اُفق پر ابھرے، اتنی ہی تیزی سے وہ منظر سے غائب بھی ہوگئے۔ اظہر محمود نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں راولپنڈی کے مقام پر 8ویں نمبر پر بلے بازی کرتے ہوئے ٹیسٹ سنچری اسکور کی۔ اظہر محمود کو شاید جنوبی افریقہ کی باؤلنگ بہت پسند تھی کیونکہ انہوں نے اپنے کیریئر کی تینوں ٹیسٹ سنچریاں جنوبی افریقہ کے خلاف ہی بنائی ہیں۔
1998ء میں پاکستان ٹیم کے دورہ جنوبی افریقہ کے دوران اظہر محمود نے پہلے جوہانسبرگ میں ایک شاندار سنچری بناکر پاکستان کے لیے میچ ڈرا کرنے کی راہ ہموار کی اور پھر ڈربن کے مقام پر ایک شاندار سنچری اسکور کرکے پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ اظہر محمود نے جنوبی افریقہ کے خلاف 75.71 کی اوسط سے 530 رنز بنائے ہیں۔
اظہر محمود کی بدقسمتی یہ رہی کہ جس وقت وہ ٹیم میں اپنی جگہ پکی کر رہے تھے، اس دوران عبدالرزاق بھی ایک آل راونڈر کی حیثیت سے ٹیم میں شامل ہوئے۔ عبدالرزاق نے اپنی کارکرردگی میں تسلسل کا مظاہرہ کیا اور قومی ٹیم کے مستقل رکن بن گئے جبکہ اظہر محمود صرف 21 ٹیسٹ میچ کھیل کر ہی ٹیم سے رخصت ہوگئے۔
محمد وسیم
تکنیکی اعتبار سے محمد وسیم بلے بازی کے شعبے میں تسلسل کے ساتھ اچھی کارکردگی پیش نہیں کرسکے اور یہی عدم تسلسل ان کی ٹیم میں شمولیت کے آڑے آیا۔ وسیم نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ اس میچ کی پہلی اننگز میں وہ بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوئے۔
لیکن میچ کی دوسری اننگز میں انہوں نے تنِ تنہا پاکستان کو کامیابی دلوانے کی کوشش کی۔ اس اننگز میں وہ 109 رنز بناکر ناقابلِ شکست رہے لیکن کریز پر کسی کھلاڑی نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور یوں وسیم کی شاندار اننگز کے باوجود پاکستان 44 رنز سے میچ ہار گیا۔ محمد وسیم نے 18 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وسیم کے پاس تمام صلاحیتیں موجود تھیں لیکن وہ ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنے میں ناکام رہے۔
یہ ہیں پاکستان کے وہ چند کھلاڑی جن کے لیے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بھی کامیابی کے دروازے نہیں کھول سکی۔ امید ہے کہ عابد علی کے لیے ڈیبیو پر سنچری کامیاب و شاندار کیریئر کی دستک ثابت ہوگی۔
تبصرے (2) بند ہیں