سال 2019: کرکٹ کے میدان میں کس ٹیم نے لیے پورے نمبر اور کون رہی ناکام؟
لارڈز کے میدان پر شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے اور فلڈ لائٹس روشن تھیں تاہم میدان اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے شائقین کرکٹ اسکرین پر ٹکٹکی باندھے میدان میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان جاری ورلڈ کپ 2019 کے ناقابل یقین فائنل کے سنسنی خیز آخری لمحات کو محسوس کررہے تھے۔
فائنل مقابلہ ٹائی ہونے کے بعد سپر اوور میں بھی نیوزی لینڈ کو فتح کے لیے آخری گیند پر دو رنز درکار تھے، جوفرا آرچر دوڑتے ہوئے آئے اور مارٹن گپٹل نے مڈ وکٹ کی جانب شاٹ کھیل کر دوڑنا شروع کردیا۔
نئے ورلڈ چیمپیئن کے منتظر شائقین کرکٹ دم بخود ہو کر اس منظر کو دیکھ رہے تھے کہ جیسن رائے نے گیند کو وکٹ کیپر کی جانب تھرو کیا اور جوز بٹلر نے پلک جھپکنے میں بیلز اڑا دیں اور مارٹن گپٹل رن آؤٹ ہو گئے۔
میچ ایک مرتبہ پھر ٹائی ہو چکا تھا لیکن انگلینڈ کی ٹیم کو تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ چیمپیئن کا تاج سر پر سجانے کا موقع ملا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم میچ نہ ہارنے کے باوجود بھی چیمپیئن بننے سے محروم رہ گئی۔
گزرے سالوں میں ہم نے کئی ناقابل یقین دلچسپ میچ دیکھے ہوں گے لیکن کسی بھی میچ خصوصاً ورلڈ کپ فائنل کا ایسا رونگٹے کھڑے کرنے والا اختتام آج تک نہیں ہوا اور شاید آگے بھی ایسا ہونا ناممکن ہے۔
کون جیتا اور کون ہارا اس بات سے قطع نظر، یہ سال ممالک اور ان کی سرحدوں سے قطع نظر ہر کرکٹ شائق کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
ہمیشہ کی طرح ایک اور سال اختتام کو پہنچا جو اپنے پیچھے ان گنت یادیں، حادثات اور ناقابل فراموش واقعات کی پرچھائی چھوڑ گیا۔
کھیلوں کی دنیا کی بات کی جائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کے لیے ہر سال یادگار ثابت ہو بلکہ کچھ لوگوں کے لیے یہ ناقابل فراموش سال ہوتا ہے تو بعض افراد اس سال کو اپنی یاد داشت سے مٹانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی مثال 1992 کا سال ہے جسے ہر پاکستانی آج تک ایک خوشگوار برس کی طرح یاد رکھتا ہے لیکن اسی کے برعکس 2003 اور 2007 کے ورلڈ کپ کے سبب پاکستانی شائقین کرکٹ اس سال کو کبھی بھی یاد کرنا پسند نہیں کرتے۔
تاہم سال 2019 کا معاملہ ماضی کی تمام تر مثالوں کو غلط ثابت کر گیا اور کرکٹ سے محبت اور پسند کرنے والے ہر شائق کو یہ سال تا عمر یاد رہے گا کیونکہ ورلڈ کپ فائنل تو دور اب شاید ہی کسی ورلڈ کپ میں شائقین کو ایسا ایک بھی میچ دیکھنے کا موقع ملے جو دو مرتبہ ٹائی ہوا ہو۔
14 جولائی 2019 کو لارڈز کے تاریخی میدان پر شائقین کرکٹ کو جو مناظر دیکھنے کو ملے اسے وہ چاہ کر بھی نہیں بھول پائیں گے اور یہ ایک شاندار ورلڈ کپ کا بہترین اختتام تھا۔
20 سال بعد کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں ایک مرتبہ پھر عالمی کپ کی واپسی ہوئی اور 44 سال بعد بالآخر انگلینڈ کی ٹیم نے عالمی چیمپیئن کا تاج سر پر سجالیا۔
کرکٹ 2019 کے جائزے کا آغاز اگر ورلڈ کپ سے نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہو گی جہاں 27 سال بعد ایک مرتبہ پھر راؤنڈ روبن کی طرز پر ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں 10 بہترین ٹیموں نے شرکت کی اور 20 سال بعد کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں عالمی کپ کی واپسی ہوئی۔
اس عالمی کپ سے قبل توقع کی جا رہی تھی کہ شائقین کو بڑے بڑے اسکور دیکھنے کو ملیں گے اور حتیٰ کہ آئی سی سی نے 500 رنز کا اسکور کارڈ تک تیار کر لیا تھا لیکن سوائے چند میچوں کے اکثر میچوں میں ٹیمیں 300 رنز بھی نہ بنا سکیں۔
تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والے اس شاندار ورلڈ کپ میں چند اپ سیٹ اور سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملے لیکن توقعات کے عین مطابق ورلڈ کپ کا فائنل انہی 4 ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا جس کی ماہرین نے پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کو بھی سیمی فائنل کی دوڑ کے لیے مضبوط حریف تصور کیا جا رہا تھا لیکن دونوں ٹیموں کی غیرمستقل مزاج کارکردگی سے ان سے کسی خاص کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔
سیمی فائنل میں پہنچنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ پاکستان اور کیویز کے یکساں 11پوائنٹس ہونے کے باوجود گرین شرٹس خراب رن ریٹ کے سبب وطن واپسی پر مجبور ہوئے اور نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل میں جگہ بنالی۔
سیمی فائنل کے انعقاد سے قبل ایک عام تاثر تھا کہ بھارت کی ٹیم باآسانی نیوزی لینڈ کو مات دے کر آگے نکل جائے گی جبکہ روایتی انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملے گا لیکن جب میچ ہوا تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔
مانچسٹر میں کھیلے گئے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نے ابر آلود موسم میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
ایک مشکل وکٹ پر نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن اور روس ٹیلر کی نصف سنچریوں کے باوجود کیویز بڑا اسکور کرنے سے قاصر رہے اور جب بارش کے سبب میچ کو ریزرو ڈے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تو کین ولیمسن الیون نے 5وکٹوں کے نقصان پر 211رنز بنائے تھے۔
ایک آسان ہدف نظر آنے پر بھارت بھر میں جشن کا سماں بندھ گیا تھا اور ماہرین کرکٹ سمیت سابق کرکٹرز نے بھی بھارت کی فتح کو پتھر پر لکیر سمجھنا شروع کردیا تھا۔
اگلے دن میچ شروع ہوا تو نیوزی لینڈ مقررہ اوورز میں 239رنز بنا کر بھارت کو فائنل میں رسائی کے لیے 240رنز کا نسبتاً آسان ہدف دیا۔
لیکن بھارتی اننگز کے آغاز میں ان کے ساتھ بالکل وہی ہوا جو 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کے خلاف ہوا تھا۔
ہدف کے تعاقب میں کیویز باؤلرز نے شاندار ابتدائی اسپیل کیا جس کے نتیجے میں بھارتی ٹیم روہت شرما، لوکیش راہل اور کپتان ویرات کوہلی جیسے اہم بلے بازوں کو صرف 5 رنز پر گنوا چکی تھی جبکہ 24 پر دنیش کارتھک بھی کچھ کارکردگی دکھائے بغیر ہی پویلین لوٹ گئے جبکہ 92 کے مجموعی اسکور تک پہنچتے پہنچتے بھارتی ٹیم 31ویں اوور میں 6وکٹیں گنوا چکی تھی اور ان کی شکست صاف نظر آتی تھی۔
اس مرحلے پر دھونی اور رویندرا جدیجا نے شاندار شراکت کے ساتھ ٹیم کو میچ میں واپس لانے کی کوشش کی لیکن ان کی محنت رائیگاں گئی اور بھارت میچ میں شکست کے ساتھ لگاتار دوسری مرتبہ ورلڈ کپ سیمی فائنل میں ہار کے سبب ایونٹ سے باہر ہو گیا اور نیوزی لینڈ نے لگاتار دوسری مرتبہ فائنل میں جگہ بنائی۔
دوسری جانب آسٹریلیا کی ٹیم فائنل میں بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی اور انگلینڈ نے یکطرفہ مقابلے کے بعد کامیابی سمیٹ کر 27سال بعد فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کر لیا جس کے ساتھ ہی یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ دنیائے کرکٹ کو 1996 کے بعد پہلی مرتبہ نیا عالمی چیمپیئن ملنے والا تھا۔
ورلڈ کپ فائنل کی میزبانی کا اعزاز ایک مرتبہ پھر تاریخی میدان لارڈز کے حصے میں آیا اور یہ میچ واقعی ایک تاریخ بن گیا جہاں شائقین کرکٹ کو کھیل کی تاریخ کا سب سے دلچسپ اور اعصاب شکن معرکہ دیکھنے کا موقع ملا۔
نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے 8وکٹوں کے نقصان پر 241رنز بنائے جس میں ہنری نکولس کی نصف سنچری اور ٹام لیتھم کے 47رنز نمایاں تھے۔
سیمی فائنل مقابلے کی طرح اس میچ میں نیوزی لینڈ کے باؤلرز اپنے کپتان کے اعتماد میں پورے اترے اور کم و بیش یکساں ہدف کا کامیابی کے ساتھ دفاع بھی کر لیا لیکن بین اسٹوکس نیوزی لینڈ اور فتح کے بیچ آڑے آ گئے۔
آل راؤنڈر کی شاندار کارکردگی کی بدولت یہ سنسنی خیز فائنل مقابلہ ٹائی ہوا اور ون ڈے کرکٹ میں پہلی بار کسی میچ کا فیصلہ سپر اوور پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سپر اوور میں انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کو فتح کے لیے 16رنز کا ہدف دیا لیکن اتار چڑھاؤ سے بھرپور اس میچ میں نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی صرف 15 رنز بنا سکی اور مقابلہ ایک مرتبہ ٹائی ہو گیا جس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم میچ میں زیادہ باؤنڈریز مارنے کے قانون کے نتیجے میں عالمی چیمپیئن بن گئی اور کیویز ایک شاندار مقابلے اور میچ نہ ہارنے کے باوجود ورلڈ چیمپیئن کا تاج سر پر نہ سجا سکی۔
آئیے اب ہم سال 2019 دنیائے کرکٹ میں تمام ٹیموں کی کارکردگی اور وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
بنگلہ دیش کی کارکردگی
گزشتہ چند سالوں سے تیزی سے بہتر کارکردگی اور ترقی کی جانب گامزن بنگلہ دیش کی ٹیم کے لیے یہ سال کسی برے خواب سے کم نہ تھا اور کھیل کے تینوں فارمیٹ میں بنگلہ دیشی ٹیم بری طرح ناکامیوں سے دوچار ہوئی۔
کھلاڑیوں کی انجریز، بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان چپقلش کے ساتھ ساتھ اسپاٹ فکسنگ کی پیشکش کو رپورٹ نہ کرنے پر شکیب الحسن پر لگنے والی پابندی کے سبب یہ سال مجموعی طور پر بنگلہ دیش کرکٹ کے لیے ایک بدترین سال تصور کیا جائے گا۔
بنگلہ دیش کے سال کا آغاز مشکل دورہ نیوزی لینڈ سے ہوا اور ایشین ٹیموں خصوصاً بنگلہ دیش کی نیوزی لینڈ کے سابقہ دوروں میں کارکردگی کو دیکھتے ہوئے جس قسم کے نتائج کی توقع تھی، اسی قسم کے نتائج برآمد ہوئے۔
بنگلہ دیشی ٹیم کو پہلے تینوں ون ڈے میچوں میں یکطرفہ مقابلے کے بعد شکست ہوئی جس کے بعد ابتدائی دونوں ٹیسٹ میچوں میں بھی مہمان ٹیم کو اننگز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
سیریز کا تیسرا میچ کرائسٹ چرچ میں شیڈول تھا لیکن وہاں مسجد میں پیش آنے والے فائرنگ کے اندوہناک واقعے کے بعد میچ کو منسوخ کردیا گیا اور بنگلہ دیشی ٹیم کے ناکام دورہ نیوزی لینڈ کا اختتام انتہائی افسوسناک واقعے کے ساتھ ہوا۔
اس کے بعد ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے بنگلہ دیش کی ٹیم انگلش سرزمین پہنچی تو ایونٹ سے قبل بنگلہ دیش نے سہ ملکی سیریز میں آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کو شکست دیتے ہوئے لگاتار تین میچز جیت کر انگلش سرزمین پر بہترین پریکٹس کی اور پھر عالمی کپ میں اپنے افتتاحی میچ میں جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر سب کو حیران کردیا۔
اس کے بعد مہمان ٹیم نے افغانستان اور ویسٹ انڈیز کے خلاف فتوحات حاصل کیں لیکن یہ فتوحات اور شکیب الحسن شاندار کارکردگی بھی بنگال ٹائیگرز کو ناک آؤٹ راؤنڈ تک پہنچانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی اور پاکستان سے شکست کے ساتھ ہی ان کا ایونٹ میں سفر اختتام کو پہنچا۔
ورلڈ کپ کے بعد بھی بنگلہ دیش کی ناکامیوں کا سفر نہ تھم سکا اور سری لنکا کی ٹیم نے ون ڈے سیریز میں انہیں باآسانی وائٹ واش کیا۔
تاہم بنگلہ دیش کے لیے سب سے بڑا دھچکا افغانستان کے خلاف واحد ٹیسٹ میچ میں شکست تھی جس میں انہیں 224رنز کے بھاری مارجن سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
مسائل سے دوچار بنگلہ دیشی ٹیم کے ناکام دورہ بھارت کے ساتھ مہمان ٹیم کے سال کا برے انداز میں اختتام ہوا جہاں بھارت نے بھی دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بنگلہ دیش کو یکطرفہ مقابلے کے بعد اننگز کی شکست سے دوچار کیا جبکہ ٹی20 سیریز کا پہلا میچ جیتنے کے باوجود وہ اگلے دونوں میچ ہار کر سیریز گنوا بیٹھے۔
کھیلوں کے میدان سے ہٹ کر بھی بنگلہ دیش کرکٹ تنازعات کی زد میں رہی جہاں تمیم اقبال وقتاً فوقتاً انجریز سے نبرد آزما رہے جس سے ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی جبکہ کھلاڑیوں اور بورڈ کے درمیان معاوضے سمیت دیگر مسائل کے سبب بڑے بحران نے جنم لیا۔
بنگلہ دیشی کرکٹرز نے شکیب الحسن کی قیادت میں اپنے کرکٹ بورڈ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کرکٹ کے معاملات میں بہتری تک مستقبل قریب میں کسی بھی کرکٹ سرگرمی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا تھا جس کے بعد بورڈ کو گھٹنے ٹیکتے ہوئے کھلاڑیوں کے مطالبات کو کافی حد تک تسلیم کرنا پڑا۔
ابھی اس ہنگامے کی گرد بیٹھی بھی نہ تھی کہ بنگلہ دیش کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے سپر اسٹار شکیب الحسن پر آئی سی سی کی جانب سے دوسال کی پابندی عائد کرنے کی خبر نے کرکٹ حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بکیز کی جانب سے کی گئی رسائی کے بارے میں رپورٹ نہ کرنے پر بنگلہ دیشی ٹیسٹ اور ٹی20 ٹیم کے کپتان شکیب الحسن پر 2 سال کی پابندی عائد کردی تھی جس میں سے ایک سال کی سزا معطل کردی گئی تھی البتہ اس کے باوجود وہ کم از کم ایک سال کرکٹ کی کسی بھی قسم کی سرگرمیوں سے دور رہیں گے۔
مجموعی طور پر 2019 کو بنگلہ دیشی ٹیم کے لیے ایک مایوس کن سال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
سری لنکا کرکٹ مایوسی کا شکار
ایک عرصے سے مسائل کا شکار سری لنکن کرکٹ کے لیے 2019 بھی کچھ اچھا نہ رہا اور عالمی کپ سمیت محدود اوورز کی کرکٹ میں سری لنکا کو ناکامیوں کے سلسلے نے اپنی لپیٹ میں رکھا البتہ سال کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں چند شاندار کامیابیاں سری لنکن کرکٹ کے لیے خوشگوا ہوا کا جھونکا ثابت ہوئیں۔
سال کا آغاز سری لنکن کرکٹ کے لیے ناکامیوں کے ساتھ ہوا جہاں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں اسے ون ڈے سیریز میں 0-3 سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور واحد ٹی20 میں بھی انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد سری لنکن ٹیم آسٹریلین سرزمین پہنچی اور وہاں حسب توقع اسے 2 ٹیسٹ میچوں میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
وہاں سے جنوبی افریقی سرزمین پر بھی سری لنکن ٹیم کی ناکامیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا اور ون ڈے سیریز میں یہاں بھی 0-5 سے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا البتہ ٹی20 سیریز کا ایک میچ ٹائی ہونے کے سبب سری لنکن ٹیم 3 میچوں کی سیریز میں وائٹ واش سے بچ گئی اور سیریز 0-2 سے جنوبی افریقہ کے نام رہی۔
تاہم دورہ جنوبی افریقہ پر اصل ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا آغاز ہوا اور اس سیریز کے نتائج نے دنیائے کرکٹ کو دنگ کردیا۔
سال کی بہترین ٹیسٹ اننگز
ٹیسٹ سیریز کا آغاز ایک شاندار کارکردگی کے ساتھ ہوا جہاں کوشل پریرا نے ایک ناقابل یقین اننگز کھیل کر جنوبی افریقہ کو یقینی فتح سے محروم کردیا۔
اگر ایشز سیریز کے دوران بین اسٹوکس نے شاندار اننگز کے ذریعے آسٹریلیا کے ہاتھوں سے میچ نہ چرایا ہوتا تو جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے درمیان ڈربن میں کھیلے گئے اس میچ کو باآسانی سال کا بہترین ٹیسٹ میچ کہا جا سکتا تھا لیکن اسٹوکس کی کارکردگی کے سبب اس میچ اور ڈربن ٹیسٹ کے درمیان بہترین ٹیسٹ کی ٹائی ہے۔
اگر میچ پر ایک نظر دوڑائی جائے تو ڈربن ٹیسٹ بظاہر چوتھے دن کے کھانے کے وقفے سے قبل ہی اس وقت ختم ہو چکا تھا جب 110 رنز پر آدھی سری لنکن ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی لیکن دوسرے اینڈ پر موجود کوشل پریرا اس میچ میں کسی اور ہی موڈ میں تھے۔
وہ تن تنہا وکٹ پر ڈٹ گئے اور دوسرے اینڈ سے کسی بھی قسم کی مدد نہ ملنے کے باوجود پروٹیز باؤلرز کے تمام وار ناکام بنا دیے۔
226رنز پر سری لنکا کی 9ویں وکٹ گری تو میچ کا اختتام محض چند گیندوں کی مار نظر آتا تھا لیکن پریرا نے کرکٹ کے تمام ماہرین اور پنڈتوں کو حیران کرتے ہوئے 10ویں وکٹ کے لیے ناقابل شکست 78رنز کی شراکت قائم کر کے اپنی ٹیم کو میچ میں فتح دلا دی۔
پریرا نے سال 2019 کی ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے بہترین اننگز کھیلتے ہوئے 153رنز اسکور کیے اور اپنی ٹیم کو ایک وکٹ کی فتح سے ہمکنار کرا کر سیریز میں بھی برتری دلا دی۔
یہاں سے سری لنکن ٹیم نے پورٹ الزبتھ کی راہ لی اور دوسرے ٹیسٹ میں باآسانی 8وکٹ سے فتح حاصل کر کے ناصرف سیریز میں کلین سوئپ کیا بلکہ یہ سری لنکا کی جنوبی افریقی سرزمین پر کسی بھی ٹیسٹ سیریز میں پہلی کامیابی تھی۔
دورہ جنوبی افریقہ کے بعد سری لنکن ٹیم ورلڈ کپ کے لیے انگلش سرزمین پر پہنچی تو عالمی کپ کے پہلے ہی میچ میں نیوزی لینڈ نے 10وکٹوں سے شکست دے کر ان کا استقبال کیا البتہ اگلے میچ میں افغانستان کے خلاف فتح سے سری لنکن ٹیم کی کچھ داد رسی ہوئی۔
عالمی کپ میں جن ٹیموں کے خلاف سری لنکن ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے فتح کی امید لگائی جا سکتی تھی ان میں بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی ٹیمیں شامل تھی لیکن شومئی قوسمت کے پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف میچ بارش کی نذر ہو گئے۔
آسٹریلیا نے انہیں 87 رنز سے زیر کیا لیکن اگلے میچ میں سری لنکا نے ورلڈ کپ کا بڑا اپ سیٹ کرتے ہوئے فیورٹ انگلینڈ کو 20رنز سے شکست دے کر شائقین کرکٹ کو حیران کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سیمی فائنل تک رسائی کی امید بھی پیدا کر لی۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں کامیابی کے حصول سے قبل انہیں آؤٹ آف فارم جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ بھارت نے آخری میچ میں 7وکٹ سے مات دے کر آئی لینڈرز کے ورلڈ کپ میں سفر کا خاتمہ کردیا۔
عالمی کپ میں ناکامیوں کا بدلہ سری لنکن ٹیم نے بنگلہ دیش سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر لیا اور ون ڈے سیریز کے تینوں میچوں میں بدترین شکست سے دوچار کر کے 0-3 سے کلین سوئپ کیا۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم سری لنکا پہنچی تو میزبان ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھا اور کپتان دمتھ کرونارتنے کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت نیوزی لینڈ کو پہلے ٹیسٹ میچ میں مات دے کر سال میں لگاتار تیسرے ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کی۔
البتہ اگلے میچ میں نیوزی لینڈ نے میزبان ٹیم کی خوش فہمی کو دور کرتے ہوئے انگز اور 65رنز سے کامیابی سمیٹ کر سیریز برابر کردی جبکہ وطن واپسی سے قبل نیوزی لینڈ نے ٹی20 سیریز بھی اپنے نام کر کے اس دورے کو کامیاب بنا لیا۔
اس کے بعد پاکستان آنے کی بات ہوئی تو اہم سری لنکن کھلاڑی دورے سے دستبردار ہو گئے جس کے نتیجے میں پاکستان آنے والی نوجوان ٹیم کو ون ڈے سیریز میں 0-2 سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم کہانی میں اصل ڈرامائی موڑ تب آیا جب اس ناتجربہ کار اور نوجوان ٹیم نے ٹی20 کی عالمی نمبر ایک ٹیم کی خراب سلیکشن کا بخوبی فائدہ اٹھاتے ہوئے 0-3 سے کلین سوئپ مکمل کیا لیکن تین ہفتوں بعد ایک مکمل اسکواڈ کے ساتھ آسٹریلیا جانے والی ٹیم کو میزبان ٹیم کے ہاتھوں 0-3 کی ہار برداشت کرنا پڑی۔
سال بھر کے دوران بورڈ اور قیادت کے مسائل کا سامنا بھی رہا جس کی وجہ سے ٹیم کی کارکردگی براہ راست متاثر ہوئی جبکہ سال کے اختتام پر زائد تنخواہ کو بنیاد بنا کر ہیڈ کوچ چندریکا ہتھوروسنگھے کو عہدے سے ہٹا کر مکی آرتھر کو ٹیم کے باگ ڈور سونپ دی گئی۔
سال کے اختتام سے قبل سری لنکن ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی جس کے ساتھ ہی 10سال بعد پاکستان میں انٹرنیشنل ٹیسٹ کرکٹ کی بھی واپسی ہو گی جس پر اس وقت تالہ لگ گیا تھا جب مارچ2009 میں سری لنکا ہی کی ٹیم کو لاہور میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا۔
سال 2019 میں سری لنکن ٹیم کی کارکردگی چاہے جو بھی ہو لیکن چند ماہ کے عرصے میں دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنے کے جرات مندانہ اقدام پر سری لنکن کرکٹ سلام کی مستحق ہے۔
جنوبی افریقہ کی 10سال میں بدترین کارکردگی
جنوبی افریقہ کی کرکٹ کے لیے سال 2019 کو کارکردگی کے لحاظ سے گزشتہ دہائی کا سب سے بدترین سال کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جہاں جنوبی افریقی ٹیم کسی بھی فارمیٹ میں مستقل مزاجی کے ساتھ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی اور مضبوط ٹیموں کے خلاف بالکل بے بس نظر آئی۔
گزشتہ سال اے بی ڈی ویلیئرز کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے بہتر ٹیم کامبی نیشن کے حصول کے لیے کوشاں جنوبی افریقہ کی ٹیم اہم کھلاڑیوں کی خراب فارم اور ریٹائرمنٹ، ناقص کارکردگی اور بورڈ کے اہم آفیشلز پر مالی بے ضابگیوں کے الزامات سمیت دیگر ناقص امور کے سبب مسائل کے گرداب میں پھنسی رہی۔
سال کا آغاز جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لیے انتہائی شاندار تھا اور اس کی وجہ پاکستان کی ٹیم کی جنوبی افریقہ میں موجودگی تھی جہاں میزبان ٹیم نے ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ کے ذریعے سال کا شاندار آغاز کیا۔
اس دوران جنوبی افریقہ نے پاکستان کو ٹی20 سیریز میں مات دے کر عالمی نمبر ایک ٹیم حیران کرنے کے بعد سری لنکا کو بھی شکست فاش دی۔
دوسری جانب ون ڈے سیریز میں بھی جنوبی افریقہ نے پاکستان کو 2-3 سے زیر کرنے کے بعد سری لنکا کو کلین سوئپ کر کے ورلڈ کپ کے لیے بہترین تیاریوں کا ثبوت دیا لیکن ایشین ٹیموں کے خلاف کامیابی سے پروٹیز کے غبارے میں بھرنے والی ہوا عالمی کپ میں نکل گئی۔
تاہم جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کو 2019 میں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب سری لنکا نے ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقہ کو کلین سوئپ شکست دے کر افریقی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے والی پہلی ایشین ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔
تاہم جنوبی افریقی ٹیم کے لیے اصل ڈراؤنے خواب کا آغاز ہونا ابھی باقی تھا اور اس خواب کا آغاز ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں میزبان انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے ہوا۔
تاہم پروٹیز کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب اسے بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ بھارت نے دلچسپ مقابلے کے بعد 15رنز سے مات دے کر ایونٹ میں شریک واحد افریقی ٹیم کو لگاتار تیسری شکست سے دوچار کیا۔
قسمت کی خرابی کہ ویسٹ انڈینز کے خلاف سیریز کا چوتھا میچ بارش کے سبب بے نتیجہ رہا تاہم اس کے بعد افغانستان کے خلاف میچ میں پروٹیز کو پہلی فتح نصیب ہوئی۔
البتہ یہ کامیابی بھی فاف ڈیو پلیسی الیون کی تقدیر نہ بدل سکی اور اگلے میچ میں نیوزی لینڈ اور پاکستان نے انہیں شکست دے کر سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا۔
حیران کن امر یہ رہا کہ فائنل فور کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد جنوبی افریقی ٹیم خواب غفلت سے جاگ گئی اور اس نے ایونٹ میں اپنے آخری دونوں ون ڈے میچوں میں بالترتیب سری لنکا اور آسٹریلیا کو مات دے کر کسی حد تک اپنی لاج رکھ لی۔
اس کے بعد سال کے آخری دورے پر جنوبی افریقہ کی ٹیم بھارت پہنچی جہاں اسٹارز سے سجی میزبان ٹیم نے بھرپور انداز میں اپنے مہمانوں پر ہاتھ صاف کیا۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم بارش کی بدولت ٹی20 سیریز تو 1-1 سے برابر کرنے میں کامیاب رہی لیکن کسی بھی قسم کے مقابلے سے عاری ٹیسٹ سیریز میں بھارت نے جنوبی افریقہ کو باآسانی تینوں ٹیسٹ میچوں میں شکست دے کر سیریز میں 0-3 سے کلین سوئپ کیا۔
ٹیسٹ سیریز میں پروٹیز کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں ایک میچ میں 203 جبکہ بقیہ دونوں میں اننگز سے شکست ہوئی۔
اس سال جنوبی افریقی کرکٹ میں نظم وضبط کی خرابیوں کے ساتھ ساتھ مالی بے ضابطگیوں کی خبریں سامنے آتی رہیں وہیں سال کے اختتام پر بورڈ اور جنوبی افریقہ کرکٹ پلیئرز ایسوسی ایشن میں تنازع نے معاملات کو مزید خراب کردیا۔
بورڈ میں بدانتظامیوں کے سبب اب تک کم از کم بورڈ آف ڈائریکٹرز استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ متعدد آفیشلز کو باضابطگیوں کے سبب معطل کر کے ان کے خلاف بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
جنوبی افریقہ کرکٹ پلیئرز ایسوسی ایشن نے بورڈ کی جانب سے فینٹیسی لیگ میں کھلاڑیوں کے نام اور چہرے بغیر اجازت استعمال کرنے پر بورڈ سے ٹکر لی اور اس معاملے پر کھلاڑیوں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔
یہ ہڑتال کی دھمکی ایک ایسے موقع پر دی گئی، جب انگلینڈ کی ٹیم سیریز کے لیے جنوبی افریقہ پہنچنے والی ہے اور اگر یہ تنازع حل نہ ہوا تو جنوبی افریقی کرکٹ کو اگے مزید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس سال جنوبی افریقہ کے دو بڑے سپر اسٹارز ہاشم آملا اور ڈیل اسٹین نے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا جس کے ساتھ ہی جنوبی افریقی کرکٹ کا ایک عہد اختتام کو پہنچا۔
ویسٹ انڈیز کرکٹ کی ناکامیوں کا سلسلہ برقرار
ویسٹ انڈیز کرکٹ ایک عرصے سے بدترین صورتحال سے دوچار ہے جس کی وجہ بورڈ اور کھلاڑیوں کے درمیان جاری چپقلش ہے اور ایک دور میں دنیا بھر کی ٹیموں کو باآسانی زیر کرنے والی ٹیم اب افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے کمزور حریفوں کے خلاف بھی بمشکل ہی فتح حاصل کر پاتی ہے۔
سال 2019 بھی اس لحاظ سے ویسٹ انڈیز کرکٹ کے لیے کچھ اچھا نہ تھا جہاں محدود اوورز کی کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کو متواتر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس سال ویسٹ انڈین ٹیم نے کھیل کے سب سے طویل فارمیٹ میں اپنی کارکردگی سے شائقین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔
تاہم گزرے سالوں کے برعکس یہ سال ٹیسٹ کرکٹ میں ویسٹ انڈیز کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اور ویسٹ انڈیز کے لیے سال کا آغاز کسی خوبصورت خواب سے کم نہ تھا۔
اس سال کے آغاز میں ہی ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کی میزبانی کی اور اس سیریز کے نتائج دنیا بھر کے شائقین کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہ تھے۔
عالمی درجہ بندی میں 8ویں نمبر پر موجود ویسٹ انڈیز نے پہلے ہی میچ میں اپنی دھاک بٹھاتے ہوئے 381رنز کے بھاری مارجن سے مہمانوں کو مات دے کر سکتہ طاری کردیا۔
ابتدائی شکست کو حادثاتی تصور کرنے والوں کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے ایک مرتبہ پھر بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے لگاتار دوسرے میچ میں انگلینڈ کو 10وکٹوں سے مات دے کر سیریز 0-2 سے اپنے نام کر لی۔
سلو اوور ریٹ کے سبب کپتان جیسن ہولڈر پر لگنے والی پابندی کا ویسٹ انڈیز کو بڑا صدمہ ہوا جہاں اگلے میچ میں انگلینڈ کی ٹیم کسی حد تک اپنا وقار بحال کرنے میں کامیاب رہی اور روسٹن چیز کی عمدہ سنچری کے باوجود مہمان انگلش ٹیم میچ میں 232 رنز سے کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
انگلینڈ کی ٹیم ون ڈے سیریز میں بھی زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی اور ویسٹ انڈیز نے کرس گیل کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت پانچ ون ڈے میچوں کی سیریز 2-2 سے برابر کردی۔
تاہم ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں اچھی کارکردگی کے بعد ٹی20 سیریز میں ویسٹ انڈین ٹیم مشکلات سے دوچار رہی اور انگلینڈ نے تینوں میچوں میں کامیابی حاصل کرکے میزبانوں کو 0-3 سے کلین سوئپ کر کے دورے کا کامیابی سے اختتام کیا۔
اس کے بعد ورلڈ کپ سے قبل سہ ملکی سیریز میں بھی بنگلہ دیش اور آئرلینڈ کے خلاف ویسٹ انڈین ٹیم متاثر کن کھیل پیش نہ کر سکی اور بنگلہ دیش نے فائنل میں انہیں مات دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔
یہاں سے ویسٹ انڈین عالمی کپ میں حصہ لینے کے لیے انگلینڈ پہنچی اور اپنے پہلے ہی میچ میں پاکستانی ٹیم کو 105رنز پر ڈھیر کر کے میچ میں باآسانی کامیابی حاصل کر کے اپنے خطرناک عزائم ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
اس کے بعد کیریبیئن ٹیم نے آسٹریلیا کو بھی آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی لیکن اسٹیو اسمتھ اور نیتھن کاؤلٹر نائیل نے عمدہ کارکردگی سے ویسٹ انڈیز کو فتح کے لیے مشکل ہدف دیا۔
ہدف کے تعاقب میں عمدہ آغاز کے باوجود غیر ذمے دارانہ بیٹنگ اور متنازع امپائرنگ ویسٹ انڈین ٹیم کو لے ڈوبی اور آسٹریلیا نے میچ میں کامیابی حاصل کی۔
اسی طرح جنوبی افریقہ کے خلاف میچ بارش کی نذر ہونے کے بعد عالمی کپ میں ویسٹ انڈیز کا شکستوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مسلسل پانچ میچوں میں انگلینڈ، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ، بھارت اور سری لنکا کے خلاف ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔
ان میچوں میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ انتہائی سنسنی خیز اور اتار چڑھاؤ سے بھرپور تھا اور کارلوس بریتھ ویٹ کی عمدہ سنچری کے باوجود انہیں میچ میں 5رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
یہاں سے ویسٹ انڈین ٹیم ایونٹ میں اپنا آخری میچ کھیلنے لیڈز پہنچی اور افغانستان کو مات دے کر ورلڈ کپ میں اپنی مہم کے آغاز کی طرح اختتام بھی کامیابی کے ساتھ کیا۔
ورلڈ کپ کے بعد ویسٹ انڈیز کو بھارت کی میزبانی کا موقع ملا اور تمام فارمیٹس میں بہترین کھیل پیش کرنے والی بھارتی ٹیم نے دورے میں ویسٹ انڈین ٹیم کو کرکٹ کا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا۔
بھارت نے اس کامیاب دورے کے دوران ویسٹ انڈیز کو ون، ٹیسٹ اور ٹی20 میچوں میں باآسانی شکست دی اور ایک ایسی یاد بنا دیا جسے ویسٹ انڈین ٹیم بھولنے میں ہی عافیت جانے گی۔
ویسٹ انڈین چند ماہ کے وقفے کے بعد افغانستان سے سیریز کھیلنے کے لیے بھارتی سرزمین پہنچی اور ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کی جبکہ ٹی20 سیریز کے پہلے میچ میں بھی فتح نے مہمان ٹیم کے قدم چومے۔
البتہ سیریز کے اگلے دونوں میچوں میں ویسٹ انڈین شائقین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور افغانستان نے بھرپور انداز میں سیریز میں واپسی کرتے ہوئے دونوں میچ جیت کر سیریز بھی جیت لی۔
رواں سال ایک مرتبہ پھر ویسٹ انڈین ٹیم منیجمنٹ میں تبدیلی کی گئی اور فل سمنز کو ایک مرتبہ پھر ٹیم کا کوچ مقرر کردیا گیا۔
محدود اوورز کی کرکٹ کے چیمپیئن آل راؤنڈر ڈیوین براوو (ڈی جے براوو) نے رواں سال انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا لیکن ماہ دسمبر میں انہوں نے انٹرنیشنل ٹی20 سے ریٹائرمنٹ واپس لیتے ہوئے آئندہ سال ٹی20 ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کا عزم ظاہر کردیا۔
اس کے علاوہ سال کے آخر میں ویسٹ انڈیز کرکٹ سے چند خوش آئند خبریں بھی سننے کو ملیں اور برائن لارا، ویوین رچرڈز اور ای این بشپ جیسے لیجنڈز نے کرکٹ کی بہتری کے لیے ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے ساتھ کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی لہٰذا اب دیکھتے ہیں کہ ان سابق عظیم کرکٹرز کی آمد سے آئندہ سال ویسٹ انڈیز کرکٹ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آسٹریلیا کی فتوحات کی جانب واپسی
گزشتہ سال بال ٹیمپرنگ اسکینڈل کے باعث بدترین بحران کا شکار ہونے والی آسٹریلین ٹیم کی اس سال کی کارکردگی کافی بہتر رہی اور عالمی کپ کے سیمی فائنل میں شکست کے سوا یہ سال آسٹریلین ٹیم کے لیے فتوحات سے بھرپور رہا۔
بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں مشکلات سے دوچار آسٹریلین ٹیم نے سال کا آغاز مہمان ٹیم کے خلاف ٹیسٹ میچ ڈرا کر کے کیا تاہم سیریز بھارت کے نام رہی اور کچھ ایسا ہی نتیجہ ون ڈے سیریز کا بھی رہا جو بھارت نے پہلا میچ ہارنے کے باوجود 1-2 سے اپنے نام کی۔
تاہم سری لنکن ٹیم کے آسٹریلیا پہنچتے ہی کینگروز کی کارکردگی کی کایا ہی پلٹ گئی اور انہوں نے دونوں میچوں میں آئی لینڈرز کو بدترین شکست دے کر سیریز میں کلین سوئپ کیا۔
اس کے بعد آسٹریلیا نے بھارتی سرزمین پر قدم رکھا جہاں انہوں نے ٹی20 سیریز میں میزبانوں کو کلین سوئپ کر کے کامیاب انداز میں دورے کا آغاز کیا اور پھر ون ڈے سیریز کے ابتدائی دونوں میچ ہارنے کے باوجود پانچ میچوں کی سیریز 2-3 سے جیت کر بھارتی شائقین پر سکتہ طاری کردیا۔
ڈیوڈ وارنر اور اسٹیو اسمتھ کی خدمات سے محروم اس ٹیم نے اپنی عمدہ فارم کا سلسلہ پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں بھی جاری رکھتے ہوئے سیریز میں 0-5 سے کلین سوئپ کر کے ورلڈ کپ میں تمام ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
عالمی کپ میں شرکت سے قبل آسٹریلین ٹیم منیجمنٹ نے اس وقت سُکھ کا سانس لیا جب ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل بال ٹیمپرنگ کے الزام میں ایک سال کی سزا بھگتنے والے اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر کی سزا کی مدت ختم ہوئی اور آسٹریلیا نے ایک مضبوط اسکواڈ کے ساتھ عالمی کپ میں شرکت کی۔
ان دونوں کھلاڑیوں کی اسکواڈ میں واپسی آسٹریلین ٹیم کے لیے نیک شگون ثابت ہوئی اور دونوں نے کئی میچوں میں اپنی ٹیم کو فتوحات دلا کر سیمی فائنل تک رسائی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
پہلے میچ میں افغانستان کو باآسانی زیر کرنے کے بعد دوسرے میچ میں اسٹیو اسمتھ اور نیتھن کاؤلٹر نائیل کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت آسٹریلیا نے دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی فتح سمیٹی البتہ امپائرز کے چند متنازع فیصلوں کے سبب اس فتح کا مزہ کرکرا ہو گیا۔
تیسرے میچ میں آسٹریلیا کا مقابلہ ایونٹ کی فیورٹ بھارت سے تھا جس نے کینگروز کو مات دے کر ہوم گراؤنڈ پر ون ڈے سیریز میں شکست کا بدلہ لیا۔
اس کے بعد آسٹریلیا نے اپنے عمدہ کھیل سے تمام حریفوں کو چت کرتے ہوئے لگاتار 5 میچوں میں فتوحات سمیٹتے ہوئے پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کو زیر کیا۔
آسٹریلیا نے باآسانی سیمی فائنل میں رسائی حاصل کی لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف ناکامی کے سبب وہ گروپ اسٹیج کا کامیابی کے ساتھ اختتام نہ کر سکے اور اسی کے باعث سیمی فائنل میں انگلینڈ کے مقابلے میں آسٹریلین ٹیم دباؤ میں نظر آئی۔
انگلینڈ نے ایونٹ میں اب تک عمدہ کھیل پیش کرنے والی آسٹریلیا کو سیمی فائنل میں یکطرفہ مقابلے کے بعد شکست دے کر شائقین کرکٹ کو حیران کرنے کے ساتھ 27سال بعد فائنل میں جگہ بنائی اور چیمپیئن بننے میں کامیاب رہی۔
آسٹریلیا خصوصاً اسٹیو اسمتھ نے پہلے ہی میچ میں اپنے خطرناک عزائم ظاہر کر دیے اور انگلینڈ کو افتتاحی میچ میں 251 رنز سے شکست دے کر میزبان ٹیم کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔
سیریز کا دوسرا میچ بارش کے باعث ڈرا ہوا لیکن یہ سیریز کا تیسرا میچ تھا جس نے ایشز سیریز کی مسابقت اور ٹیسٹ کرکٹ کی خوبصورتی کو ایک بار پھر زندہ کردیا۔
ایک یادگار ٹیسٹ میچ
یہ میچ جس کی پہلی اننگز مکمل طور پر باؤلرز کے نام رہی، وہیں دوسری اننگز میں بلے بازوں کی جانب سے کمال مہارت کا مظاہرہ دیکھنے کا موقع ملا جس میں ورلڈ کپ فائنل کے مین آف دی میچ بین اسٹوکس سب پر بازی لے گئے۔
پہلی اننگز میں 74رنز بنانے والے مارنس لبوشین نے دوسری اننگز میں 80 رنز بنا کر اپنی ٹیم کو 246 رنز کے معقول مجموعے تک رسائی دلائی جس سے تقویت پاتے ہوئے آسٹریلیا نے میزبانوں کو فتح کے لیے 359رنز کا مشکل ہدف دیا۔
291رنز پر 7وکٹیں گرنے کے باوجود دوسرے اینڈ سے بین اسٹوکس نے ہمت نہ ہاری اور ٹیل اینڈرز کی مدد سے اپنی ٹیم کو فتح دلانے کا بیڑا اٹھایا اور 8 چھکوں اور 11چوکوں سے مزین ناقابل شکست 135رنز کی اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو ایک وکٹ کی شاندار فتح سے ہمکنار کرا دیا۔
اگلے میچ میں اسٹیو اسمتھ کی واپسی کے ساتھ ہی آسٹریلیا کی بھی سیریز میں واپسی ہوئی اور انہوں نے باآسانی فتح سمیٹ کر سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل کر لی۔
سیریز کے آخری میچ میں انگلینڈ کی ٹیم فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی لیکن آسٹریلیا نے ایشز سیریز اپنے پاس برقرار رکھ کر دورے کا فاتح کی حیثیت سے اختتام کیا۔
اس سیریز کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ ایشز کے ذریعے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار میچ کے دوران زخمی کھلاڑی کے متبادل (concussion sub) کو کھیلنے کا موقع ملا اور گراؤنڈ سے باہر جانے والے کھلاڑی کوئی اور نہیں بلکہ اسٹیو اسمتھ تھے اور مارنس لبوشین کرکٹ کی تاریخ کے پہلے concussion sub بنے۔
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل اور اس کے نتیجے میں آسٹریلین ٹیم کی قیادت سے محروم ہونے والا کرکٹر ایک سال بعد اپنی واپسی کا جشن کچھ ایسے منائے گا کہ تاریخ میں امر ہو جائے گا لیکن اسمتھ نے خود پر جملے کسنے والے تمام حریف شائقین کو رنز کے انبار لگا کر منہ توڑ جواب دیا۔
انجری کے باعث ایک میچ میں شرکت نہ کرنے اور محض 7 اننگز کھیلنے والے اسٹیو اسمتھ نے ایشز سیریز میں 774رنز بنا کر نئی تاریخ رقم کردی۔
اس کے بعد آسٹریلیا نے بقیہ سیزن کا بھی شاندار طریقے سے اختتام کرتے ہوئے سری لنکا کو ٹی20 سیریز میں باآسانی 0-3 سے مات دی اور اس کے بعد پاکستان کے خلاف بھی کھیل کے سب سے چھوٹے فارمیٹ میں 0-2 سے کامیابی حاصل کر کے ٹیسٹ سیریز کے دونوں میچز میں اننگز سے فتوحات سمیت کر کلین سوئپ کیا۔
سال کی سب سے کامیاب بھارتی ٹیم
ویرات کوہلی کی زیر قیادت بھارتی کرکٹ کی شاندار کارکردگی کا سلسلہ جاری رہا اور 2019 بھی بھارتی ٹیم کے لیے ایک اور یادگار سال رہا جہاں ان کا موازنہ اب ماضی کی عظیم ترین ویسٹ انڈین اور آسٹریلین ٹیم سے شروع کردیا گیا۔
گزرے سالوں کی طرح یہ سال بھی بھارت کے لیے بہت یادگار رہا اور ویرات کوہلی کی زیر قیادت بھارت نے خصوصاً ٹیسٹ کرکٹ میں فتوحات کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے تاریخ رقم کی۔
سال کا آغاز ہی بھارت کے لیے تاریخ رقم کر گیا جہاں سڈنی ٹیسٹ ڈرا کر کے کوہلی الیون نے سیریز 1-2 سے اپنے نام کر لی اور بھارت نے پہلی مرتبہ آسٹریلین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا، کوہلی 71 سال میں آسٹریلین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے والے بھارت کے پہلے کپتان بن گئے۔
اس کے بعد بھارت نے عمدہ کارکردگی کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے اسی مارجن سے آسٹریلین سرزمین پر ون ڈے سیریز بھی اپنے نام کی۔
اس کے بعد بھارتی ٹیم نیوزی لینڈ کی سرزمین پر پہنچی تو ویرات کوہلی نے رخصت لی اور روہت شرما نے ٹیم کی قیادت کا منصب سنبھال لیا لیکن سب سے اہم بلے باز کی غیر موجودگی کے باوجود ٹیم کی عمدہ کارکردگی کا تسلسل برقرار رہا۔
بھارت نے نیوزی لینڈ کو انہی کی سرزمین پر 5 ون ڈے میچوں کی سیریز میں 1-4 سے مات دے کر کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا لیکن ٹی20 میچوں میں نیوزی لینڈ نے عمدگی سے واپس کرتے ہوئے سیریز 1-2 سے جیت لی۔
اس سیریز میں شکست کے باعث بھارت کی ٹیم فتوحات کی پٹڑی سے اتر گئی اور بھارت کو وطن واپسی پر آسٹریلیا کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں 0-3 سے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد ون ڈے سیریز کے ابتدائی دونوں میچز جیت کر بھارتی ٹیم سیریز جیتنے کے لیے فیورٹ بن گئی لیکن آسٹریلیا نے اگلے تینوں میچوں میں میزبان ٹیم کو زیر کر کے بھارتی شائقین پر سکتہ طاری کردیا اور سیریز 2-3 سے اپنے نام کر لی۔
عالمی کپ سے 3ماہ قبل اپنا آخری ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلنے والی بھارتی ٹیم نے برطانوی سرزمین پر قدم رکھا تو توقع کی جا رہی تھی کہ انہیں ابتدا میں شاید کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑے لیکن کوہلی کی زیر قیادت ٹیم نے تمام تر اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔
بھارت نے ایونٹ کا یادگار انداز میں آغاز کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے خلاف بارش کی نذر ہونے والے میچ کے سوا اپنے ابتدائی تمام 5 میچوں میں کامیابی حاصل کر کے سیمی فائنل تک رسائی یقینی بنا لی۔
بعد میں ورلڈ چیمپیئن بننے والی انگلینڈ کی ٹیم نے اپنے مہمانوں کی فتوحات کے اس سلسلے کو بریک لگا دیا لیکن وہ انہیں سیمی فائنل میں جانے سے نہ روک سکے اور بنگلہ دیش کے بعد سری لنکا کو زیر کر کے بھارتی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ کر کے سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔
سیمی فائنل میں بھارت کا مقابلہ چوتھے نمبر پر آنے والی ٹیم نیوزی لینڈ سے تھا اور حالیہ دورہ نیوزی لینڈ میں بھارت کی شاندار کامیابی کے ساتھ ساتھ عمدہ فارم کو دیکھتے ہوئے کرکٹ پنڈٹ کیویز کو میچ سے قبل ہی فائنل کی دوڑ سے باہر کر چکے تھے۔
البتہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور بارش سے متاثرہ اس سیمی فائنل مقابلے میں نیوزی لینڈ نے تجربہ کار روس ٹیلر اور کپتان کین ولیمسن کی نصف سنچریوں کی بدولت بھارت کو 239رنز کا ہدف دیا۔
بارش کے سبب یہ سیمی فائنل دو دن پر محیط تھا اور بظاہر ایک آسان نظر آنے والے ہدف کو دیکھتے ہوئے بھارتی شائقین نے اننگز کے آغاز سے قبل ہی اپنی ٹیم کی فتح یقینی مان کر جشن منانا شروع کردیا تھا لیکن قسمت کی دیوی اس دن نیوزی لینڈ پر مہربان تھی۔
نیوزی لینڈ کے باؤلرز نے تباہ کن اسپیل کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا اور پورے ورلڈ کپ میں رنز کے ڈھیر لگانے والے ابتدائی تینوں بھارتی بلے باز صرف 5 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے جبکہ 92 کے مجموعے تک پہنچتے پہنچتے 6 کھلاڑی پویلین سدھار چکے تھے۔
یہاں سے بھارتی ٹیم کی فتح واضح نظر آ رہی تھی لیکن پھر مہندرا سنگھ دھونی اور رویندرا جدیجا کیوی باؤلرز کے خلاف ڈٹ گئے اور ایک شاندار شراکت قائم کر کے اپنی ٹیم کی میچ میں واپسی کا سامان کردیا۔
تاہم 77رنز کی شاندار اننگز کھیلنے والے جدیجا بڑا شاٹ کھیلنے کی کوشش میں ٹرینٹ بولٹ کو وکٹ دے بیٹھے جبکہ مارٹن گپٹل کی براہ راست تھرو نے ناصرف دھونی کو رن آؤٹ یا بلکہ بھارت کا تیسری مرتبہ عالمی چیمپیئن بننے کا خواب بھی چکنا چور کردیا۔
عالمی کپ کے بعد بھارتی ٹیم ویسٹ انڈیز پہنچی اور فتوحات کے سلسلے کو دوبارہ جوڑتے ہوئے پہلے ٹی20 سیریز میں 0-3 سے کلین سوئپ کیا، ون ڈے سیریز کا ایک میچ بارش کی نذر ہونے کے باوجود سیریز 0-2 سے بھارت کے نام رہی جبکہ کوہلی الیون نے ٹیسٹ سیریز میں بھی باآسانی 0-2 سے وائٹ واش کیا۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم ٹی20 سیریز تو بارش کی بدولت برابر کرنے میں کامیاب رہی لیکن ٹیسٹ سیریز میں بھارت نے ان کی درگت بناتے ہوئے تینوں میچوں میں یکطرفہ مقابلے کے بعد مات دے کر 0-3 سے کلین سوئپ مکمل کیا۔
بعد ازاں اہم کھلاڑیوں سے محروم اور مسائل سے دوچار بنگلہ دیشی ٹیم، بھارتی سرزمین پر پہچنی تو سب کو امید تھی کہ سیریز کا نتیجہ کیا ہو گا لیکن بنگلہ دیش نے پہلا ٹی20 میچ جیت کر بھارت کے خلاف کھیل کے سب سے چھوٹے فارمیٹ میں پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی۔
البتہ اس کے بعد بھارت نے جس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، اس نے سب کو دنگ کردیا اور دونوں ٹی20 میچ جیت کر سیریز اپنے نام کر کے ٹیسٹ سیریز بھی باآسانی جیت لی۔
بھارت نے اس سیریز کے دوران اپنی تاریخ کا پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلا اور دونوں میچوں میں مہمانوں کو اننگز کی شکست سے دوچار کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں سال کا لگاتار تیسرا وائٹ واش کیا۔
بنگلہ دیش کے بعد ویسٹ انڈین ٹیم کی بھارتی سرزمین پر پہنچی تو پہلے ٹی20 میچ میں ویرات کوہلی نے عمدہ بیٹنگ کر کے ان سے یقینی فتح چھین لی لیکن دوسرے میچ میں انہوں نے کامیابی حاصل کر کے سیریز برابر کردی۔
سیریز کے تیسرے میچ میں بھارت کے صف اول کے تین بلے بازوں نے ویسٹ انڈین باؤلرز کی درگت بناتے ہوئے 240رنز کا پہاڑ جیسا ہدف کھڑا کردیا اور میزبان ٹیم نے میچ کے ساتھ ساتھ سیریز میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔
بھارتی کرکٹ میں تبدیلی کی بات کی جائے تو پورا سال عظیم وکٹ کیپر بلے باز مہندرا سنگھ دھونی کے مستقبل پر سوالیہ نشان برقرار رہا اور عالمی کپ کو 6ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک سابق بھارتی کپتان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کیا جا سکا۔
ورلڈ کپ کے بعد روی شاستری کو کوچ کے عہدے سے ہٹانے اور نئے کوچ ڈھونڈنے کی کوششیں تو ضرور کی گئیں لیکن بھارتی ٹیم خصوصاً ویرات کوہلی کی شاستری کے ساتھ بہترین ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بھارتی ٹیم کی کامیابیوں کے تسلسل کو دیکھتے ہوئے بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) نے انہیں دوبارہ ہیڈ کوچ بنا دیا۔
تاہم بھارتی کرکٹ میں 2019 میں سب سے بڑی تبدیلی اس وقت دیکھنے کو ملی جب 'دادا' کے نام سے مشہور سابق بھارتی کپتان اور بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ سارو گنگولی نے دنیا کے سب سے طاقتور کرکٹ بورڈ بی سی سی آئی کے نئے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا۔
عالمی چیمپیئن انگلینڈ
2019 میں تمام ہی ٹیموں کے کچھ شاندار اور یادگار لمحات آئے لیکن یہ سال انگلینڈ کے لیے ہمیشہ یادگار رہے گا جہاں ان کا عالمی چیمپیئن بننے کا خواب 44سال بعد سچ ہو گیا۔
سال کے آغاز سے بات کریں تو انگلینڈ کے لیے شاید کسی بھی سال کی ابتدا اس سے ابتر نہیں ہو سکتی تھی جہاں انگلینڈ کو عالمی نمبر 8ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور سیریز کا آخری میچ جیتنے کے باوجود وہ 1-2 سے بازی گنوا بیٹھے۔
اتار چڑھاؤ اور بڑے بڑے مجموعوں سے بھرپور ون ڈے سیریز میں انگلینڈ کا کامیابی کے حصول کا خواب پورا نہ ہوا اور سیریز 2-2 سے برابر رہی لیکن ٹی20 میں انگلینڈ نے 0-3 سے کامیابی سمیٹ کر دورہ ویسٹ انڈیز کا کامیابی کے ساتھ اختتام کیا۔
آئرلینڈ کو واحد ون ڈے میچ میں شکست دینے کے بعد انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کی میزبانی کے لیے تیار تھی اور واحد ٹی20 میچ میں کامیابی کے ساتھ اپنے خطرنام عزائم ظاہر کر دیے۔
ون ڈے سیریز کا پہلا میچ بارش کی نذر ہو گیا تاہم اگلے چار میچوں میں میزبان نے پاکستان کی بھرپور خاطر توازع کرتے ہوئے فتوحات حاصل کر کے گرین شرٹس کے لیے فتح کا حصول خواب بنا دیا اور سیریز 0-4 سے انگلینڈ کے نام رہی۔
اس کے بعد انگلینڈ کے ورلڈ کپ کے سفر کا آغاز ہوا جہاں میزبان ٹیم کو بھارت کے ساتھ ایونٹ کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن کسی کو امید نہ تھی کہ آئن مورگن کی قیادت میں یہ ٹیم اس مرتبہ تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے۔
انگلینڈ نے عالمی کپ کے افتتاحی میچ میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر اپنے سفر کا عمدگی سے آغاز کیا لیکن انہیں اس وقت بڑا دھچکا لگا جب ون ڈے سیریز کے چاروں میچ ہارنے والی پاکستانی ٹیم نے انہیں عالمی کپ کے دوسرے میچ میں مات دے دی۔
اس ناکامی کا غصہ میزبان کھلاڑیوں نے اگلے تین میچوں میں مہمانوں کی درگت بنا کر نکالا اور بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور افغانستان جیسی نسبتاً آسان ٹیموں کو شکست دے دی۔
البتہ عالمی کپ جیتنے کے خواہشمند انگلش تماشائیوں کو روایتی حریف آسٹریلیا کے خلاف میچ سے قبل سب سے بڑا صدمہ اس وقت لگا جب سری لنکا نے انہیں اپ سیٹ شکست دے کر کرکٹ پنڈتوں کو حیران پریشان کردیا جبکہ اگلے میچ میں کینگروز نے بھی انہیں ناکامی سے دوچار کردیا جس کے بعد انگلش ٹیم کی سیمی فائنل میں رسائی کے لالے پڑ گئے کیونکہ ان کا اگلا میچ ایونٹ میں ناقابل شکست بھارتی ٹیم سے تھا۔
بھارت اور انگلینڈ کے درمیان اس میچ میں بھارتی بلے بازوں کی شکوک و شبہات سے بھرپور بیٹنگ نے جہاں بھارتی شائقین کو حیران پریشان کیا وہیں ماہرین کرکٹ بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے اور 338رنز کے ہدف کا تعاقب کرنے والی بھارتی ٹیم یہ میچ 31 رنز سے ہار گئی۔
انگلینڈ نے راؤنڈ روبن کے آخری میچ میں نیوزی لینڈ کو 119رنز کے بھاری مارجن سے شکست دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنائی اور پھر سیمی فائنل میں روایتی حریف آسٹریلیا سے راؤنڈ میچ میں شکست کا بدلہ لیتے ہوئے باآسانی کامیابی حاصل کر کے 27سال بعد پہلی مرتبہ ورلڈ کپ فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔
لارڈز کے میدان پر میزبان انگلینڈ کا سامنا اس نیوزی لینڈ کی ٹیم سے تھا جسے انہوں نے راؤنڈ میچ میں 119رنز سے شکست دی تھی لیکن یہ عالمی کپ کا فائنل تھا اور 3مرتبہ ورلڈ کپ فائنل ہارنے والی انگلینڈ کی ٹیم اس کی اہمیت سے بخوبی واقف تھی۔
نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 241رنز کا مجموعہ اسکور بورڈ پر سجایا جو انگلینڈ کی فارم کو دیکھتے ہوئے ایک آسان ہدف محسوس ہوتا تھا لیکن سیمی فائنل میں بھارت جیسی مضبوط بیٹنگ لائن کو زیر کرنے والی کیوی باؤلنگ لائن ایک مرتبہ پھر اپنے کپتان کے اعتماد پر پورا اتری۔
بین اسٹوکس کی عمدہ بیٹنگ کے باوجود انگلینڈ کی ٹیم فتح حاصل نہ کر کسی اور میچ دلچسپ مقابلے کے بعد ٹائی ہوا اور کرکٹ کی تاریخ کے اس دلچسپ ترین میچ کا نتیجہ سپر اوور میں بھی نہ نکل سکا اور ایک مرتبہ پھر ٹائی ہونے پر انگلینڈ کو میچ میں زیادہ باؤنڈریز مارنے پر عالمی چیمپیئن قرار دے دیا گیا۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 2015 ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کھا کر کوارٹر فائنل راؤنڈ سے قبل ہی ایونٹ سے باہر ہونے والی انگلش ٹیم اگلے ایونٹ میں چیمپیئن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی لیکن انگلش کرکٹ کے ڈائریکٹر اینڈریو اسٹراس کی دانشمندی نے اس ٹیم کی کایا ہی پلٹ دی اور مسلسل 4سال ون ڈے کرکٹ میں عمدہ کھیل پیش کرنے والی اس ٹیم کو اپنی عمدہ کارکردگی کا ثمر عالمی کپ کی ٹرافی کی صورت میں ملا.
عالمی کپ کے فوراً بعد انگلینڈ نے آئرلینڈ کو ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر تاریخی ایشز سیریز کی تیاریوں کا ثبوت دیا لیکن یہاں پر اسٹیو اسمتھ انگلینڈ اور فتح کے درمیان حائل ہو گئے۔
عظیم آسٹریلین بلے باز نے شاندار کھیل پیش کر کے انگلینڈ کو ایشز میں فتح سے محروم کردیا اور یوں اپنی سرزمین پر سیریز 2-2 برابر ہونے کے نتیجے میں میزبان سابقہ ایشز کی فاتح آسٹریلین ٹیم کو اعزاز سے محروم نہ کر سکی اور آسٹریلیا نے ایشز کی ٹرافی اپنے پاس برقرار رکھی۔
ایشز سیریز کے بعد انگلینڈ کو ڈیڑھ ماہ آرام کا موقع ملا اور وہ ٹیسٹ اور ٹی20 سیریز کے لیے نیوزی لینڈ کی سرزمین پر پہنچی جہاں مقابلے کا آغاز ٹی20 سیریز سے ہوا۔
ورلڈ کپ فائنل میں دلچسپ مقابلے کے بعد شائقین کرکٹ کو امید تھی کہ انہیں ایک مرتبہ پھر دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے اور دونوں ہی ٹیموں نے اپنے مداحوں کو مایوس نہ کیا۔
دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز ابتدائی چار میچوں کے بعد 2-2 سے برابر تھی جس کے بعد فیصلہ کن میچ کے لیے دونوں ٹیمیں آکلینڈ میں مدمقابل آئیں اور دنیائے کرکٹ کو ان دونوں ٹیموں کے درمیان ایک اور ایسا مقابلہ دیکھنے کو ملا جس کا نتیجہ ٹائی نکلا تاہم بعدازاں انگلینڈ نے سپر اوور میں کامیابی سمیٹ کر سیریز میں بھی فتح حاصل کر لی۔
تاہم ٹی20 سیریز میں فتح کے باوجود نیوزی لینڈ کے حوصلہ پست نہ ہوئے اور انہوں نے پہلے میچ میں بی جے واٹلنگ کی عمدہ ڈبل سنچری کی بدولت میچ میں ناصرف بہترین انداز میں واپسی کی بلکہ انگلینڈ کو اننگز اور 65رنز سے ہرا کر سیریز میں برتری حاصل کی۔
سیریز کا دوسرا میچ ڈرا ہونے کے ساتھ ہی نیوزی لینڈ نے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہتھیا لی اور ون ڈے کرکٹ کی عالمی چیمپیئن انگلینڈ کے دورہ نیوزی لینڈ اور سال2019 کا اختتام ناکامی کے ساتھ ہوا۔
ہار کر بھی دل جیتنے والی نیوزی لینڈ
رواں سال بھارت اور آسٹریلیا کے بعد سب سے کامیاب ٹیم نیوزی لینڈ کی رہی لیکن ہار جیت سے قطع نظر نیوزی لینڈ نے اسپرٹ آف کرکٹ سے شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے۔
رواں سال نیوزی لینڈ کرکٹ کے لیے ایک اور کامیاب سال قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا جہاں ٹیسٹ اور ٹی20 میں عمدہ کھیل سے بڑھ کر ورلڈ کپ فائنل میں شکست نہ کھانے کے باوجود بھی کیوی ٹیم چیمپیئن کا تاج سر پر نہ سجا سکی لیکن اس متنازع فیصلے کے باوجود ٹیم نے بڑے دل کے ساتھ اس فیصلے کو قبول کیا، جی ہاں ایک ایسا فیصلہ جسے ان کے حریف انگلینڈ کے کپتان آئن مورگن نے بھی غیرمنصفانہ قرار دیا تھا۔
سال کی ابتدا سے بات کی جائے تو نیوزی لینڈ نے سری لنکا کے خلاف ون ڈے اور ٹی20 سیریز میں کلین سوئپ کے ساتھ 2019 کا فاتحانہ انداز میں آغاز کیا۔
تاہم اس کے بعد بھارتی ٹیم ون ڈے اور ٹی20 سیریز کے لیے کیوی سرزمین پر پہنچی اور پانچ ون ڈے میچوں کی سیریز میں 1-4 سے میزبان کو مات دے کر سیریز اپنے نام کر لی البتہ ٹی20 سیریز میں نیوزی لینڈ نے کسی حد تک حساب بے باق کرتے ہوئے 1-2 سے کامیابی سمیٹی۔
اس کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم نے لگاتار تیسری ایشین ٹیم بنگلہ دیش کی میزبانی کی اور سری لنکا کی طرح اس سیریز کے نتائج بھی کیویز کے حق میں گئے۔
ون ڈے سیریز میں بنگلہ دیش کو 0-3 سے وائٹ واش کے بعد ابتدائی دونوں ٹیسٹ میچوں میں بھی اننگز سے مات دی جس کے بعد سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں بھی کچھ اسی طرح کے نتائج کی امید تھی۔
تاہم سیریز کا تیسرا ٹیسٹ میچ منعقد ہی نہ ہو سکا اور اس میچ سے قبل ہی نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس سے نیوزی لینڈ کی فضا سوگ میں ڈوب گئی اور بنگلہ دیش کی ٹیم نے وطن واپسی کی راہ لی۔
اس کے بعد تقریباً ڈھائی ماہ تک نیوزی لینڈ کو مزید کوئی بھی سیریز یا انٹرنیشنل میچ کھیلنے کا موقع نہ ملا اور 2015 کے ورلڈ کپ کی رنر اپ ٹیم بغیر کسی میچ پریکٹس کے ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے انگلینڈ پہنچی۔
ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کا آغاز انتہائی شاندار رہا جہاں ان کے ابتدائی چاروں میچ ایشین حریفوں سے تھے جن میں سے انہوں نے بالترتیب سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کے خلاف فتح کے جھنڈے گاڑے جبکہ بھارت کے خلاف میچ بارش کی نذر ہونے کے بعد کیویز نے اگلے میچ میں جنوبی افریقہ اور پھر سنسنی خیز مقابلے کے بعد ویسٹ انڈیز کو بھی مات دے کر سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات روشن کر لیے۔
ابتدائی 6 میں سے پانچ میچوں میں فتوحات کے بعد نیوزی لینڈ کی عالمی کپ کے فائنل فور میں رسائی یقینی نظر آتی تھی لیکن پھر یہاں ایونٹ میں ایک ڈرامائی موڑ آیا اور لگاتار فتوحات حاصل کرنے والی ٹیم کو پاکستان، آسٹریلیا اور میزبان انگلینڈ کے ہاتھوں شکستوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے انہیں ایونٹ میں اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لالے پڑ گئے۔
البتہ پاکستان کی ٹیم خراب رن ریٹ کے سبب سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی اور نیوزی لینڈ نے لگاتار دوسری مرتبہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔
سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کا مقابلہ فیورٹ بھارتی ٹیم سے تھا لیکن کین ولیمسن الیون نے تمام تر پنڈتوں، ماہرین اور بیٹنگ کے شہنشاہوں کو ورطہ حیرت میں مبتلا کرتے ہوئے ایک آسان کا تعاقب کرنے والی بھارتی ٹیم کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی۔
فائنل میچ کے احوال کا تو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں لیکن اس میچ میں عمدہ کھیل اور اس سے بڑھ کر بہترین اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے پر نیوزی لینڈ کی ٹیم خصوصاً کپتان کین ولیمسن نے شائقین کرکٹ کے دل موہ لیے۔
ورلڈ کپ کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم ٹیسٹ اور ٹی20 سیریز کھیلنے سری لنکا پہنچی جہاں میزبانوں نے 6وکٹ سے شکست دے کر ان کا استقبال کیا البتہ کولمبو میں کھیلے گئے دوسرے میچ میں نیوزی لینڈ نے گال کا حساب چکتا کرتے ہوئے میچ اننگز اور 65رنز سے جیت کر سیریز بھی برابر کرنے کے ساتھ ساتھ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں بھی اپنا کھاتا کھول لیا۔
نیوزی لینڈ نے تین ٹی20 میچوں کی سیریز میں فتح کے ساتھ دورے کا اختتام کیا لیکن انہیں سیریز کے آخری میچ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس کے بعد کیویز کو اپنی سرزمین پر انگلینڈ کی میزبانی کا موقع ملا اور میزبانوں نے ہوم گراؤنڈ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لگاتار دوسرا ٹیسٹ میچ اننگز اور 65رنز سے جیت لیا جبکہ دوسرا میچ ڈرا کر کے سیریز بھی جیت لی۔
تاہم اس دورے کا اصل محور ٹی20 سیریز تھی جس میں شائقین کو ایک مرتبہ پھر بہترین کرکٹ دیکھنے کا موقع ملا اور ٹی20 سیریز 2-2 سے برابر ہونے کے بعد ورلڈ کپ کی فائنلسٹ ٹیموں کے درمیان یہ آخری ٹی20 میچ بھی ٹائی ہو گیا جس میں بالآخر سپراوور میں انگلینڈ فاتح ٹھہرا۔
اب نیوزی لینڈ کی ٹیم آسٹریلیا میں موجود ہے جہاں وہ 'ان فارم' میزبان ٹیم کے ہاتھوں پہلا ٹیسٹ میچ 296رنز کے بڑے مارجن سے ہار چکے ہیں اور اب وہ باکسنگ ڈے پر دوسرے ٹیسٹ میچ میں کینگروز کے مدمقابل آئیں گے۔
پاکستان کرکٹ کے لیے بدترین اور مایوس کن سال
اب آخر میں بات کرتے ہیں گرین شرٹس یعنی پاکستان کرکٹ ٹیم کی جس کے بارے جتنا کم کہا جائے اتنا اچھا ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ جتنا لکھا جائے اتنا کم ہے۔
اگر نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل سری لنکن ٹیم پاکستان نہ آئی ہوتی تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ پاکستان کی ٹیم پورے سال میں ایک بھی سیریز نہ جیت سکی لیکن اس ایک سیریز میں فتح نے پاکستان کرکٹ کو بڑے داغ سے بچا لیا۔
تو جناب بات کریں سال 2019 کی ابتدا سے تو ہماری ٹیم جنوبی افریقہ میں موجود تھی اور پہلا ٹیسٹ میچ گنوا چکی تھی جس کے بعد شائقین کی ٹیم سے وابستہ بڑی بڑی توقعات کا محل زمین بوس ہو چکا تھا۔
سیریز کے اگلے دونوں میچوں میں بھی سرفراز الیون بے دانت کی شیر ثابت ہوئی اور جنوبی افریقہ ٹیم میں بمشکل بنا پانے والے ڈوانے اولیویئر پاکستانی ٹیم کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے۔
پاکستان نے اپنے سابقہ ریکارڈ کو ایک مرتبہ پھر برقرار رکھتے ہوئے ڈوانے اولیویئر کو سیریز میں 24وکٹیں دے کر ایک بے نام باؤلر کو راتوں رات سپر اسٹار بنا دیا۔
ٹیسٹ سیریز میں شکست کے بعد ون ڈے سیریز میں گرین شرٹس تھوڑی بہتر فارم میں نظر آئے اور ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلی گئی اس سیریز میں پاکستان نے فتح کا نادر موقع گنوا دیا اور پہلا میچ جیتنے اور بعدازاں سیریز 2-2 سے برابر کرنے کے باوجود قومی ٹیم یہ سیریز 2-3 سے ہار گئی۔
عالمی نمبر ایک اور لگاتار 11 ٹی20 سیریز جیتنے والی ٹیم کو اس سیریز میں کپتان سرفراز احمد کی خدمات حاصل نہ تھیں جو ایک بڑا فرق ثابت ہوا اور پاکستانی ٹیم اپنی فتوحات کے سلسلے کو برقرار نہ رکھتے ہوئے ابتدائی دونوں میچ ہار کر ہی سیریز گنوا بیٹھی۔
پورے دورے میں ناکامیوں سے دوچار ہونے والی اس ٹیم نے آخری ٹی20 میچ میں فتح کے ساتھ کچھ لاج رکھ لی اور اس ناکام دورے کا کامیابی سے اختتام کیا۔
جنوبی افریقہ میں آخری میچ میں ناکامی کے ساتھ ہی پاکستان کی ون ڈے کرکٹ میں شکستوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر ورلڈ کپ میں جا کر اختتام کو پہنچا۔
ورلڈ کپ کی تیاریوں کے سلسلے میں آسٹریلیا سے منعقد کی گئی سیریز میں کرکٹ بورڈ نے حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے متعدد اہم کھلاڑیوں کو آرام کی غرض سے اسکواڈ سے ڈراپ کردیا جس کے بعد سیریز کے نتائج کے حوالے سے کسی کو کوئی خوش گمانی نہیں تھی۔
سیریز میں عابد علی اور محمد رضوان کی عمدہ بیٹنگ بھی پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں ناکامی 0-5 کی کلین سوئپ کی خفت سے نہ بچا سکی۔
ان شکستوں کے ایک ماہ بعد پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے لیے انگلش سرزمین پر پہنچی جہاں میزبان ٹیم کے ہاتھوں ٹی20 میچ میں شکست سے دورے کا بدترین آغاز ہوا تاہم ناکامیوں کا سلسلہ یہیں نہیں تھما تھا۔
ون ڈے سیریز کا پہلا میچ تو بارش بہا کر لے گئی لیکن غیر مستقل مزاجی اور غیر پیشہ ورانہ کھیل کی قیمت پاکستان کو ایک مرتبہ پھر لگاتار چاروں میچوں میں شکست کی صورت میں چکانی پڑی۔
مسلسل 10 ون ڈے میچوں میں شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کا اعتماد پارہ پارہ ہو چکا تھا اور ویسٹ انڈیز نے ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں اعتماد سے عاری اس ٹیم کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور باؤنسرز کی برسات کر کے ایک ایسی شکست سے دوچار کیا جو بعدازاں گرین شرٹس کے ورلڈ کپ سے اخراج کی وجہ بنی۔
میزبان انگلینڈ کے ہاتھوں سیریز میں لگاتار چار میچ ہارنے والی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر غیر متوقع نتائج دینے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف کامیابی سمیٹی جس کے بعد سری لنکا کے خلاف اگلے ہی میچ میں فتح کا ارمان بارش بہا لے گئی۔
اس کے بعد پاکستانی ٹیم کو اگلے دونوں میچوں میں پہلے آسٹریلیا اور پھر روایتی حریف بھارت کے خلاف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور پانچ میچوں میں صرف ایک فتح کے بعد پاکستان کا عالمی کپ میں سفر اختتام پذیر نظر آتا تھا لیکن یہاں سے قومی ٹیم نے انگڑائی لی اور حیران کن طور پر فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
سرفراز احمد الیون نے پہلے جنوبی افریقہ کو مات دی اور پھر اگلے میچ میں ان فارم نیوزی لینڈ کو شکست فاش دے کر سیمی فائنل میں رسائی کی امید پیدا کی۔
اگلے میچ میں آسان نظر آنے والے حریف افغانستان کے خلاف قومی ٹیم شکست سے بال بال بچی اور پھر ایونٹ میں اپنے آخری میچ میں بنگلہ دیش کو ہرا کر سیمی فائنل میں رسائی کی امیدوار بن گئی۔
اس موقع پر پاکستان اور نیوزی لینڈ کے پوائنٹس ایک برابر تھے لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں بدترین شکست پاکستان کو بھاری پڑ گئی اور رن ریٹ کی بنیاد پر کیویز نے فائنل فور میں جگہ بنا لی۔
ورلڈ کپ سے پاکستانی ٹیم کے اخراج کے بعد وہی ہوا جو ہماری کرکٹ میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، خراب کارکردگی کے بعد چیف سلیکٹر انضمام الحق کو اپنا عہدہ جاتا ہوا نظر آنے لگا تو انہوں نے خود ہی مزید نوکری جاری نہ رکھنے کا اعلان کرنے میں عافیت جانی۔
لیکن ورلڈ کپ میں ناکامی ہو اور کپتان اور کوچ فارغ نہ ہو، ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے، اگلی باری کوچنگ اسٹاف کی تھی جنہیں لارے لپے دیے جانے کے باوجود معاہدوں میں توسیع نہ کی گئی کیونکہ کسی اور سے عہدوپیماں کیے جا چکے تھے، نتیجتاً مکی آرتھر اینڈ کمپنی کو واپسی کی راہ لینی پڑی۔
تاہم اصل تلوار کپتان سرفراز احمد پر گرانی تھی جس کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا تھا اور وہ وقت آیا اور بہت جلد آیا۔
نئی ٹیم مینجمنٹ کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پاکستان کرکٹ میں چیئرمین پی سی بی کے سوا تمام تر اختیارات سابق کپتان مصباح الحق کو سونپ کر انہیں ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر اور بیٹنگ کنسلٹنٹ مقرر کردیا گیا اور ان کے ساتھ وقار یونس کو باؤلنگ کوچ کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔
اس کے بعد پاکستان کو سری لنکا کی میزبانی کا موقع ملا اور کراچی میں پہلا میچ بارش کی نذر ہونے کے بعد پاکستان نے توقعات کے عین مطابق 10 اہم کھلاڑیوں سے محروم ناتجربہ کار ٹیم کو دونوں میچوں میں باآسانی شکست دی۔
شائقین کرکٹ کو ٹی20 سیریز میں بھی عالمی نمبر ایک ٹیم سے یہی امید تھی لیکن یہاں نوجوان سری لنکن ٹیم نے سب کو حیران کرتے ہوئے پاکستان کو سیریز میں 0-3 سے کلین سوئپ کردیا۔
اس سیریز کے اختتام پر پاکستان کرکٹ میں تبدیلیوں کا ایک اور موسم شروع ہوا اور سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹ کی قیادت سے ہٹا دیا گیا اور اظہر علی اور بابر اعظم کو بالترتیب ٹیسٹ و ٹی20 ٹیم کی قیادت سونپ دی گئی۔
مستقل خراب فارم اور پاکستان کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے سرفراز کی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے چھٹی تو یقینی تھی لیکن پاکستان کرکٹ سے منسلک ہر خاص و عام کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب ٹیم کو لگاتار 11 ٹی20 سیریز جتوانے والے سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹ کی قیادت سے برطرف کر کے ان پر ٹیم کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔
اس سیریز کے بعد پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر پہنچی جہاں مزید ناکامیاں قومی ٹیم کی منتظر تھیں اور بارش کی نذر ہونے والے دورے کے پہلے میچ کے سوا گرین شرٹس کو دورے میں مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔
آسٹریلیا نے ٹی 20 سیریز 0-2 سے جیتنے کے بعد ٹیسٹ میچوں میں بھی اظہر علی الیون کو تختہ مشق بناتے ہوئے دونوں میچوں میں یکطرفہ مقابلے کے بعد اننگز سے شکست دے کر 0-2 سے کلین سوئپ کیا۔
مسلسل ناکامیوں اور بحرانی صورتحال کے باوجود پاکستان کرکٹ کے لیے کسی بھی سال کا اختتام اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا جہاں سری لنکا کی ٹیم ٹیسٹ میچوں کے لیے پاکستان آ کر 10سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان کے سونے میدانوں کو ٹیسٹ کرکٹ سے آباد کردیا جسے 2019 میں پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
رواں سال پاکستان نے ڈومیسٹک کرکٹ میں ایک نیا نظام متعارف کرا دیا جس کے تحت قائد اعظم ٹرافی میں ٹیموں کی تعداد کم کر کے 6 کردی گئی۔
اس نئے نظام سے جہاں فرسٹ کلاس کرکٹرز کو انٹرنیشنل کرکٹ کی طرز پر سہولیات کی فراہمی کی ایک نئی اور اچھی روایت ڈالی گئی وہیں کئی سالوں سے ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنا لوہا منوانے کے لیے کوشاں درجنوں کرکٹرز بے روزگار ہو گئے۔
سال کے تمام پاکستانیوں کو اس وقت ایک اور صدمہ ہوا جب دو سال مسلسل انکار کے بعد کرکٹر ناصر جمشید نے 2017 کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں اپنے کردار کو قبول کرتے ہوئے غلطی کا اعتراف کر لیا اور اب انہیں برطانیہ کی عدالت سے سزا متوقع ہے۔
وہیں پاکستان سپر لیگ میں منظر عام پر آنے والے اس اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے ایک اور مرکزی کردار اوپننگ بلے باز شرجیل خان نے بھی اپنی سزا اور بحالی کے عمل کو مکمل کر لیا ہے اور اب وہ پاکستان سپر لیگ کے اگلے ایڈیشن کے ذریعے ممکنہ طور پر اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا دوبارہ آغاز کریں گے۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں ہونے والی اہم تبدیلیاں
رواں سال انٹرنیشنل کرکٹ میں کئی نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں جہاں کرکٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے چند نئے فیصلوں کو پہلی مرتبہ کرکٹ گراؤنڈ میں لاگو کیا گیا۔
رواں سال تاریخی ایشز سیریز کے ذریعے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا آغاز ہوا جس کا مقصد شائقین کرکٹ کی توجہ کھیل کے سب سے بڑے فارمیٹ کی جانب مبذول کرانا ہے۔
3 سال تک جاری رہنے والی اس ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں 9 ٹیمیں مدمقابل آئیں گی اور 2 بہترین ٹیمیں جون 2021 میں لارڈز کے میدان پر مدمقابل آئیں گی۔
ورلڈ کپ فائنل کے متنازع انداز میں فیصلے کے بعد آئی سی سی نے فائنل کا فیصلہ زیادہ باؤنڈریز کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ تبدیل کردیا اور اب کوئی بھی ورلڈ کپ فائنل میچ ٹائی ہونے کی صورت میں جب تک میچ کا فیصلہ نہ آ جائے اس وقت تک فیصلہ سپر اوور کے ذریعے کیا جاتا رہے گا۔
ایشز سیریز سے جہاں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا آغاز ہوا وہیں میدان میں زخمی ہونے والے کرکٹر کے لیے متعارف کرائے گئے قانون (concussion sub) کا بھی پہلی مرتبہ استعمال کیا گیا جس کے تحت اگر زخمی ہونے والا کھلاڑی ٹیسٹ میچ میں مزید حصہ لینے کے قابل نہ ہو تو اس کی جگہ نیا کھلاڑی میدان میں آ کر اس کی جگہ صرف فیلڈنگ ہی نہیں بلکہ باؤلنگ اور بیٹنگ بھی کر سکے گا۔
گزرتے سالوں کے دوران نوبال کے حوالے سے اٹھنے والے تنازع کو دیکھتے ہوئے نوبال کے لیے تھرڈ امپائر کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا اور بھارت اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹی20 سیریز کے دوران آزمائشی بنیادوں پر لائن کی نوبال کے لیے تھرڈ امپائر کی مدد لی گئی۔
اس نئی جدت کے بعد اب اگر فیلڈ امپائر کسی گیند کو نوبال قرار دینے سے چوک جائے یا غلط نوبال قرار دے تو تھرڈ امپائر فوری طور پر مداخلت کر کے فیلڈ امپائر کی غلطی درست کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی مرتبہ کٹ کے پیچھے نام اور نمبر بھی متعارف کرائے گئے جہاں انگلینڈ اور آسٹریلین ڈومیسٹک کرکٹ میں اسے بہت عرصہ قبل ہی رائج کردیا گیا تھا۔
اسامہ افتخار ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔