’سقوط ڈھاکا اور اے پی ایس جیسے سانحات قوموں کی سوچ میں تبدیلی کی وجہ بنتے ہیں‘
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ سانحہ اے پی ایس اور سقوط ڈھاکا جیسے واقعات قوموں کی سوچ میں تبدیلی کا باعث ہوتے ہیں۔
نیشنل پولیس اکیڈمی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آج 16 دسمبر ہے، 16دسمبر کی تاریخ 2 سانحات کی یاد دلاتی ہے ایک سانحہ سقوط ڈھاکا اور دوسرا چند برس قبل پیش آنے والا سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے تقریب میں شرکت خوش آئند اور باعثِ فخر ہے، ہم پولیس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا چاہتے ہیں اور یہ زور دینے کے لیے یہاں موجود ہیں کہ ہم پولیس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آج سے 30 برس قبل 1989 میں وکیل تھا اور میرے بڑے بھائی طارق کھوسہ یہاں اس اکیڈمی میں کورس کمانڈر تھے اور راٹھور اس اکیڈمی کے کور کمانڈنٹ تھے اور بطور نوجوان وکیل مجھے پولیس اور آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متعلق بات کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: طاقتور کا طعنہ نہ دیں،'کسی' کو باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح پولیس کے ساتھ باضابطہ طور پر میرے تعلق کا آغاز ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ان دونوں سانحات میں ہمارے لیے سبق ہے، سقوط ڈھاکا سے سبق ملتا ہے کہ ریاست، عوام کے ساتھ سماجی معاہدے کے تحت قائم کی جاتی ہے اور اگر یہ معاہدہ کمزور پڑجائے، اگر ریاست اور عوام کا تعلق مضبوط نہ ہو، اگر ریاست عوام کے حقوق کو نظرانداز کرنا شروع کردے تو پھر کسی طرح اس سماجی معاہدے کو توڑ دیتے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک پاکستان کا آغاز ابتدائی طور پر مشرقی پاکستان سے ہوا تھا، وہ ہم (مغربی پاکستان ) سے زیادہ پاکستان کے وفادار تھے کیونکہ انہوں نے پورے عمل کا آغاز کیا تھا لیکن وہ کسی طرح ہم سے الگ ہوگئے کیونکہ ریاست نے عوام کے حقوق کا خیال نہیں رکھا تھا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی ریاست اور عوام کے درمیان سماجی معاہدہ ہے جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق موجود ہیں، ریاست کو عوام کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کو ریاست کے ساتھ مصروفِ عمل رکھا جاسکتا ہے ورنہ شہری خود کو الگ کرلیں گے اور ریاست شاید زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست 2 طریقوں سے اپنے شہریوں کا خیال رکھ سکتی ہے پہلا یہ حکمرانی آئین میں موجود قوانین کے مطابق اور دوسرا یہ کہ بنیادی حقوق کے ثمرات شہریوں تک پہنچیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں پولیس بنیادی کردار ادا کرتی ہے بدقسمتی سےپولیس کایہ تاثر رہا ہےکہ وہ بنیادی حقوق سلب کرلیتی ہے، شاید وقت آگیا ہے کہ ہمیں پولیس کے حوالے سے دوبارہ سوچنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس بنیادی طور پر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے، پولیس کا ظلم کرنے والے کے بجائے محافظ سمجھا جاناچاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 30 سال بعد میں پھر سے اس اکیڈمی میں اس بنیادی تبدیلی پر زور دینا چاہوں گا کہ آپ کو زیر تربیت افسران کو سکھانا چاہیے کہ وہ شہریوں کے لیے موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس آصف سعید کھوسہ کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اہم ملاقات
چیف جسٹس نے کہا معاشرے میں امن کے قیام اور شہریوں کے تحفظ میں پولیس کا کلیدی کردار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چند برس قبل پیش آنے والے سانحہ اےپی ایس نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اس سانحے سے قبل ملک میں دہشت گردی کئی برسوں سے جاری تھی۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد ہم نے بطور قوم فیصلہ کیا کہ اب کچھ کرنا ہے اور اس لیے نیشنل ایکشن پلان لایا گیا تھا اور قوم نے دہشت گردی کےخلاف نیشنل ایکشن پلان کی حمایت کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بڑے پیمانے پر دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں یہ سبق ہے کہ اگر ہم ایک ایجنڈا پر متحد ہوجائیں تو بطور قوم ایسا کچھ نہیں ہے جو ہم حاصل نہیں کرسکتے ۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات بھی ہے۔