سوڈان کے سابق صدر عمرالبشیر کو کرپشن پر 2 سال کی سزا
سوڈان کے سابق صدر عمرالبشیر کو کرپشن کے ایک مقدمے میں 2 سال کے لیے بحالی مرکز میں قید رکھنے کی سزا سنا دی گئی جو ان کے خلاف قائم کیے گئے کرپشن کے کئی مقدمات میں پہلی سزا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق عمرالبشیر کو سعودی عرب سے ملنے والے کروڑوں ڈالر میں غبن کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔
عمرالبشیر کو روایتی لباس میں لوہے کے پنجرے میں عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے انہیں سزا سنائی۔
جج الصادق عبدالرحمٰن نے سزاسناتے ہوئے کہا کہ انہیں کرپشن اور غیر ملکی کرنسی رکھنے کے جرم میں سزا دی گئی ہے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ 10 سال قید ہے۔
مزید پڑھیں:سوڈان: سابق صدر نے سعودی عرب سے 9 کروڑ ڈالر وصول کیے، تفتیش کار
عدالت نے 75 سالہ عمرالبشیر کی عمر کو دیکھتے ہوئے بزرگوں کے لیے قائم بحالی مرکز میں دو سال تک رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔
جج کا کہنا تھا کہ ‘قانون کے مطابق جن کی عمر 70 برس ہو ان کو جیل کی سزا نہیں دی جاسکتی’۔
عمرالبشیر کی سزا کے حوالے سے جج نے کہا کہ سابق صدر کی سزا کا آغاز دوسرے مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد ہوگا جس میں ان پر مظاہرین کو قتل کرنے کے احکامات جاری کرنے کا الزام ہے اور انہی احتجاج کے باعث ان کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا تھا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عمرالبشیر کے گھر سے برآمد ہونے والے 60 لاکھ 90 ہزار یورو، 3 لاکھ 51 ہزار 770 امریکی ڈالر اور 50 لاکھ 70 ہزار سوڈانی پاؤنڈز(ایک لاکھ 28 ہزار ڈالر) کو بھی ضبط کرلیا جائے۔
سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن نے ٹویٹر میں اپنے بیان میں عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا، عمرالبشیر کے خلاف احتجاج کی قیادت شروع میں اسی گروپ نے کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عمرالبشیر کے خلاف مزید مقدمات بھی ہیں جس میں انہیں جواب دینا ہے اور ان کا کام مکمل نہیں ہوا’۔
دوسری جانب عمرالبشیر کے وکیل احمد ابراہیم نے کہا کہ سابق صدر فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:سوڈان میں فوجی بغاوت، صدر عمر البشیر گرفتار
عدالت کے باہر سابق صدر کے حامیوں کی بڑی تعداد بھی جمع ہوئی تھی جو ان کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے۔
طویل عرصے تک سوڈان میں حکمرانی کرنے والے عمرالبشیر کو رواں برس اپریل میں عوام کے طویل احتجاج کے نتیجے میں فوج نے معزول کردیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔
عمرالبشیر کو معزول کرنے کے بعد فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تھا، جس پر احتجاج میں مزید شدت آگئی تھی اور مظاہرین نے مطالبہ کیا تھا کہ فوج حکومت چھوڑ کر واپس چلی جائے اور سویلین افراد کو حکومت کا حق دیا جائے جس پر فوج کو معاہدہ کرنا پڑا تھا۔
فوج نے 3 جون کو مظاہرین پر گولیاں بھی برسائی تھیں، جس کے نتیجے میں کئی افراد مارے گئے تاہم اس تشدد کے ذمہ دار کئی فوجیوں کو برطرف کر دیا گیا تھا۔
فوجی کونسل اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان کئی ماہ تک مذاکرات جاری رہے اور اگست میں مشترکہ حکومت سازی کا معاہدہ ہوا جس پر دونوں فریقین نے دستخط کیے تھے۔
سوڈان میں اس وقت سویلین اور فوجی کونسل کی مشترکہ حکومت قائم ہے جس کو بتدریج حکومت، سویلین کے ہاتھوں منتقل کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔