• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

ملک ریاض کے معاملے میں کسی ’جرم‘ کا ارتکاب نہیں کیا گیا، شہزاد اکبر

شائع December 14, 2019
شہزاد اکبر نے بتایا کہ مذکورہ جائیداد اب تک فروخت نہیں کی گئی—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
شہزاد اکبر نے بتایا کہ مذکورہ جائیداد اب تک فروخت نہیں کی گئی—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے ملک ریاض کے 9 اکاؤنٹس منجمد کرنے اور رقم پاکستان کو فراہم کرنے کے معاملے میں کسی 'جرم' کا ارتکاب نہیں کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس میں ان سے سوال کیا گیا کہ اگر منی لانڈرنگ کی گئی اور برطانیہ نے ملک ریاض کے 9 اکاؤنٹس منجمد کردیے تو پاکستانی قوانین کے تحت ان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

جس پر شہزاد اکبر نے جواب دیا کہ ’یہ مجرمانہ کیس نہیں بلکہ مکمل طور پر ایک سوِل معاملہ تھا جس میں کوئی جرم نہیں کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کی جائیداد کا قبضہ حاصل کرلیا

لندن میں 5 کروڑ پاؤنڈز کے عوض فروخت کی گئی جائیداد کی مالیت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’جب حسین نواز نے یہ جائیداد فروخت کی اس وقت اس کی مالیت ڈیڑھ کروڑ پاؤنڈز تھی لیکن انہوں نے ملک ریاض کو فروخت کرتے ہوئے اس کی قیمت زیادہ لگائی‘۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’این سی اے کے فیصلے کے تحت مذکورہ جائیداد اب تک فروخت نہیں کی گئی‘۔

مذکورہ پریس کانفرنس بظاہر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کی جانب سے قومی اسمبلی میں اثاثہ جات برآمدگی یونٹ (اے آر یو) کے بارے میں دیے گئے ریمارکس کے حوالے سے کی گئی تھی، جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی نے ملک ریاض سے برآمد کیے گئے 19 کروڑ پاؤنڈز کے معاملے سے متعلق پوچھے گئے زیادہ تر سوالات کے جوابات دینا سے اجتناب کیا۔

اس کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی نے پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (پی اے سی ای) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو گزشتہ ڈیرھ سال کے عرصے میں کی گئی ریکوریز کا کریڈٹ بھی دیا۔

مزید پڑھیں: برطانوی ایجنسی اور عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا، ملک ریاض

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کے سوالات کے تحریری جوابات بھی دکھائے اور کہا کہ وفاقی کابینہ نے گزشتہ برس 5 ستمبر کو اثاثہ جات برآمدگی یونٹ قائم کرنے کی منظوری دی تھی تاکہ مرکزی مانیٹرنگ کے لیے انسداد بدعنوانی کے تمام اداروں کو ایک چھتری تلے لایا جاسکے۔

شہزاد اکبر کے مطابق یہ اقدام 2018 میں سپریم کورٹ کی بنائی گئی ٹاسک فورس کی تجویز پر اٹھایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اے آر یو کے زیر نگرانی انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) پنجاب ایک سال کے عرصے میں ایک کھرب 29 ارب روپے کی زمین واگزار کروانے میں کامیاب رہی اور چونکہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے اس نے گزشتہ برس وصولیاں کیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم اورنگزیب کو من گھڑت بیانات کے ذریعے اے آر یو کی کارکردگی پر سوالات اٹھانے کے بجائے اپنی پارٹی کے صدر شہباز شریف سے ان سوالات کے جوابات لینے چاہئیں جو میں نے پوچھے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شہزاد اکبر کا شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب دینے کا مطالبہ

اس کے علاوہ دیگر الزامات کا جواب دیتے شہزاد اکبر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے پنجاب کے محکمہ انسداد بدعنوانی پر تنقید صرف اس لیے کی کیوں کہ ان کے غیر قانونی قبضے سے زمین چھڑوائی گئی ہے، ان کے آبائی علاقے گوجرانوالہ میں موجود اس زمین پر انہوں نے پیٹرول پمپ تعمیر کر رکھا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اے آر یو ایک ایسا یونٹ ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متعلقہ اداروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے تاکہ نئے کیسز کا سراغ لگایا جاسکے اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت سے بیرونِ ملک اثاثے بنانے کے موجودہ کیسز پر تیزی سے کارروائی کی جاسکے۔

شہزاد اکبر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت، برطانوی حکومت کے ساتھ منی لانڈرنگ کے حوالے سے مزید بہتر معلومات اور تعاون کی خواہاں ہے جبکہ پاکستان نے 3 مطلوبہ افراد کو بھی برطانوی حکام کے حوالے کیا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے بھانجے کا نام مقدمے میں شامل نہ کرنے پر پولیس کو تنقید کا سامنا

ایک اور سوال کے جواب میں معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے میں ملوث وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ پولیس وزیراعظم کے بھانجے کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے ماررہی ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024