پاکستان آکر گوشت کھانے کا اپنا الگ ہی مزہ ہے
جب کبھی پاکستان جانا ہوتا ہے تو اپنی اہلیہ کی نظروں سے بچ کر گوشت سے بنے کھانوں کا لطف اٹھانے کی پوری پوری کوشش کرتا ہوں۔ سچ پوچھیے تو یہاں گوشت کے بنے کھانوں کا مزہ لوٹنے میں کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہوتا کیونکہ سری لنکا میں بڑی حد تک میری خوراک میں گوشت شامل ہی نہیں ہوتا اور گوشت کی کمی کو مچھلی پورا کرتی ہے۔
چنانچہ جب تھوڑے عرصے کے لیے اسلام آباد آنا ہوا تو میرے ایک پرانے دوست قاسم شاہ نے مجھے بار بی کیو پر مدعو کرلیا۔
قاسم اپنے کھانے بالخصوص گوشت کے پکوانوں کے معاملے پر بہت زیادہ سنجیدہ ہے، اس لیے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ دعوت کوئی عام دعوت نہیں ہونے جا رہی، اور میرا اندازہ درست نکلا۔ وہاں سیخوں پر پرویا ہوا مٹن بہت ہی رسیلا اور نرم تھا۔ میں نے وہاں ایک نئی چیز یہ دیکھی کہ انگاروں پر بھیڑ کی چربی کی چند سیخیں بھی موجود تھیں۔ چربی پگھلنے پر اسے مٹن پر رگڑ دیا جاتا تاکہ گوشت نم رہے۔
سوچا تو یہ تھا کہ میری توجہ کا محور انگاروں پر پکتا گوشت ہوگا لیکن وہاں کڑاہی گوشت نے میرا دھیان دوسری جگہوں پر زیادہ بھٹکنے ہی نہیں دیا۔ میں نے اس سے پہلے اتنا ذائقے دار کڑاہی گوشت کبھی نہیں کھایا تھا۔
قاسم نے مجھے بتایا کہ کڑاہی گوشت میں گوشت، ٹماٹر، ہری مرچ، ادرک اور نمک کے علاہ کچھ بھی شامل نہیں کیا گیا۔ گوشت کو پکانے کا شاید یہی سادہ ترین طریقہ ہے۔
ایک دن میں نے چکن کڑاہی بنائی کیونکہ سری لنکا میں دستیاب گوشت کا معیار کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ اگرچہ وہ اچھی بنی تھی، مگر قاسم کے یہاں کھائی گئی کڑاہی سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔
بنیادی طور پر گوشت کا معیار ہی کھانے کے ذائقوں میں اصل فرق ثابت ہوتا ہے، اور چونکہ قاسم اس مقامی قصائی سے گوشت لائے تھے جو اعلیٰ معیار کا گوشت بیچتا ہے، اس لیے وہ بہت کمال تھا۔
جب میں ہمارے بہت ہی پیارے اور قریبی دوستوں کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے لاہور گیا تو وہاں برسوں بعد اپنے دوستوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ پھر تقریب میں کھانا بھی بہت ہی عمدہ تھا۔
میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اس طرح کی تقاریب میں کھانے ہمیشہ اتنے زیادہ معیاری نہیں ہوتے۔ تاہم لاہور میں اپنے مختصر قیام کے دوران جو پکوان مجھے سب سے زیادہ بھایا وہ چوبرجی میں واقع خان بابا کا کھانا تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ لاہور بلکہ ممکنہ طور پر پاکستان میں دیسی کھانوں کا یہ بہترین ریسٹورنٹ ہے۔
میں جب لاہور میں ٹی جے کے پاس ٹھہرا ہوا تھا تو اس وقت اپنے چند چٹورے دوستوں کو برین مصالحہ، گوشت کا سالن، قیمہ نان اور مٹن پلاؤ کی لذت سے محظوظ ہونے کی دعوت دی۔
ہم نے لاہور کے جن دیسی پکوان مراکز کے بھی کھانے کھائے، ان میں سے اکثر نے اپنے کھانوں میں اس قدر مصالحہ ڈالا ہوتا کہ وہ پکوان اپنے اصل ذائقے سے محروم ہوگئے تھے، لیکن خان بابا کا کمال یہ تھا کھانوں میں شامل کیے گئے ہر ایک مصالحے کا ذائقہ الگ سے محسوس ہورہا تھا، پھر انہوں نے کھانوں میں بہترین معیار کے گوشت، مرغی اور دیسی گھی کا استعمال کیا تھا۔
یہ عام مسئلہ ہے کہ باہر زیادہ تر جگہوں کا کھانا اس قدر مرچوں سے بھرپور ہوتا ہے کہ انسان کھاتے کھاتے پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے، لیکن یہاں پکوان کا خالص اور اصل ذائقہ چکھنے کو ملے گا۔ میری تو خواہش ہے کہ خان بابا اپنے کھانوں کی ترکیبوں پر مشتمل کتاب شائع کروائیں، یقین مانیے یہ لاہور میں ایک ایسا ادارہ ہے جس کا علم اور جس کی قدر کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔
ایسے کئی پکوان ہیں جنہیں گھر پر بنوانے کے بجائے اگر باہر ماہرین سے تیار کروایا جائے تو وہ زیادہ لذیذ ثابت ہوتے ہیں۔ انہی پکوانوں میں نہاری اور پائے شامل ہیں۔ ان دونوں کو ہی دھیرے دھیرے پکانے اور مصالحہ جات کی درست مقدار شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے ان پکوانوں کو خود تیار کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی، لیکن کراچی کی ’نہاری اِن‘ یا ’زاہد نہاری‘ کے ہاں بڑے بڑے برتنوں میں بنائی جانے والی نہاری سے اپنے پیٹ کی خرابی کا رسک بھی نہیں لینا چاہتا۔ بلاشبہ دونوں مراکز کا ذائقہ عمدہ و لاجواب ہے لیکن فلائیٹ پر سوار ہونے سے قبل ان پکوانوں سے پیٹ بھرنا کیسا رہے گا؟ نہیں بھائی نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ خیال اچھا ہے۔
ارے ہاں، کڑاہی بنانے کی آسان ترکیب تو اپنے پاس نوٹ کرلیجیے۔
کڑاہی کو گرم کیجیے اور اس میں 2 چمچ گھی ڈالیے، جس کے بعد آدھا کلو گوشت (یا مرغی) کو ہر تیل میں پکائیے اور اسی مقدار میں ٹماٹروں کو 4 حصوں میں کاٹ کر شامل کردیجیے، جس کے بعد 5 سے 6 ہری مرچیں، نمک اور تھوڑی سی باریک لمبی کٹی ہوئی ادرک شامل کردیجیے۔
ٹماٹر جب نرم ہوجائیں تو ان کا چھلکا اتار دیجیے اور مسلسل کرچھی چلاتے رہیں، کڑاہی کو ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے چھوڑ دیجیے تاکہ گوشت اور دیگر اجزا اچھی طرح پک جائیں۔ کڑاہی میں موجود پانی خشک ہوجانے پر چولہا بند کردیجیے اور کڑاہی کی لذت کا مزہ لیجیے۔ اب اس سے زیادہ آسان ترکیب بھلا کیا ہوگی؟
سری لنکا میں سرمئی یا سیر مچھلی کافی مقبولِ عام ہے۔ اسے کنگ فش بھی کہا جاتا ہے، اور اس کا وزن 45 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ میں کئی بار مقامی مچھیروں سے 15 کلو وزنی سرمئی مچھلی خرید کرچکا ہوں۔ ہمارے گھر کی اسٹار ملازمہ نندی مچھلی سے بنے بڑے ہی لذیذ پکوان تیار کرتی ہے اور حالیہ دنوں میں گوشت اور مرغی کھانے کے بعد میں ضرور چاہوں گا کہ دسترخوان پر کچھ الگ ہو۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں یکم دسمبر 2019ء کو شائع ہوا۔