• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ڈان دفاتر کا گھیراؤ: سینیٹ کمیٹی کی اسلام آباد پولیس کو تحقیقات کی ہدایت

شائع December 6, 2019
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'ملک کے کچھ علاقوں میں ڈان اخبار پر پابندی کیوں ہے؟'—فائل فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'ملک کے کچھ علاقوں میں ڈان اخبار پر پابندی کیوں ہے؟'—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسلام آباد میں ڈان کے دفاتر کا محاصرہ کرنے کے معاملہ کا جائزہ لیں اور اگر کوئی 'جرائم پیشہ عناصر' ہیں تو ان کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

واضح رہے کہ 3 دسمبر کو اسلام آباد میں موجود ڈان کے دفتر کے باہر کچھ لوگوں نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پس منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر احتجاج کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: پاکستانی حکام ڈان کے دفاتر کے گھیراؤ کی مذمت کریں، میڈیا کی عالمی تنظیموں کا مطالبہ

احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بیننرز اٹھا رکھے تھے جبکہ انہوں نے نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کرکے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے۔

حملے کے بعد سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے نامعلوم افراد کی طرف سے ڈان دفاتر کا محاصرہ کرنے کا نوٹس لیا اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو 6 دسمبر (آج) کمیٹی کو اس معاملے پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مصطفی نواز کھوکھر کی زیرصدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے عہدیداروں نے واقعے سے متعلق بریفنگ دی۔

ڈی آئی جی آپریشنز وقارالدین سید نے بتایا کہ تقریبا 40 سے 50 افراد نے احتجاج کیا اور جیسے ہی پولیس کو مظاہرے کی اطلاع ملی تو وہ اسلام آباد میں ڈان کے دفاتر پہنچ گئی۔

انہوں نے کہا کہ ڈان کی جانب سے کسی نے مظاہرین سے بات کی جس کے بعد وہ (مظاہرین) روانہ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ

دوران اجلاس انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ پولیس کو ایف آئی آر کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

علاہ ازیں ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت کے مطابق مشتعل افراد کسی پارٹی سے منسلک نہیں تھے۔

اجلاس کے دوران عہدیداروں نے بتایا کہ کمیٹی کی ہدایت پر اور میڈیا ہاؤس سے موصول درخواست کی بنیاد پر ڈان کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

کمیٹی کے اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ نے کہا کہ مظاہرے سے قبل ایک وزیر نے [لندن واقعہ کے حوالے سے] ٹوئٹ کی تھی، جس کے 24 گھنٹے بعد ہی مظاہرہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی ڈان دفاتر کا دورہ کیا تھا اور ان کے ہمراہ فرحت اللہ بابر بھی موجود تھے۔

اگرچہ فرحت اللہ بابر نے وزیر کا نام نہیں لیا تاہم ڈان کی اتوار کو شائع رپورٹ کے حوالے سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹ کی تھی۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے ایک خفیہ ایجنسی کی حمایت میں نعرے لگائے تھے اور حکومت نے اس واقعے کی بھی مذمت نہیں کی۔

دوران اجلاس پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس بارے میں تفتیش نہیں کی کہ لوگ کیسے جمع ہوئے یا وہ کون تھے؟

مزیدپڑھیں: صحافی برادری کا ڈان اخبار سے اظہار یکجہتی کیلئے کیمپ لگانے کا اعلان

انہوں نے سوال اٹھایا کہ 'ملک کے کچھ علاقوں میں ڈان اخبار پر پابندی کیوں ہے؟'

دوسری متحدہ قومی موومنٹ کے قانون ساز سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ڈان کے خلاف مظاہرے کے پیچھے کون تھا اور ان کا مقصد کیا تھا؟

دریں اثنا سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے مزید کہا کہ میڈیا کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم انسانی حقوق کی کمیٹی اس سلسلے میں اپنی آواز بلند کرتی رہے گی۔

طلبہ کا احتجاج

ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ کے تحت ایک احتجاجی مظاہرے کے بعد منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرکے ایک شخص عالمگیر وزیر کو گرفتار کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

اس ضمن میں سینیٹ کمیٹی نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا اور پنجاب پولیس کو مشال خان کے والد اقبال لالا کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لینے کی ہدایت کی۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ مشال خان کے والد کو عدالتوں میں گھسیٹنا نہیں چاہیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے خلاف ایف آئی آر کو واپس لیا جائے۔

واضح رہے کہ 13 اپریل 2017 کو عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے 23 سالہ طالب علم مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں قتل کردیا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: طلبہ یونین کی بحالی کیلئے مربوط ضابطہ اخلاق بنائیں گے، وزیراعظم

بریفنگ میں پنجاب پولیس نے بتایا کہ ان لوگوں نے احتجاج کیا اور ریاست مخالف نعرے لگائے۔

پولیس کے مطابق طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ طلبہ تنظیموں کی نمائندگی کررہے ہیں اور انہوں نے اپنی یونیورسٹی سے وابستگی بھی ظاہر نہیں کی۔

پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ عالمگیر وزیر نے اپنی تقریر کے ذریعے [مظاہرین] کو اکسایا تھا جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

پروفیسر عمار علی جان نے کمیٹی کو بتایا کہ متعلقہ یونیورسٹی کا چیف سیکیورٹی آفیسر انہیں مسلسل ہراساں کررہے ہیں۔

واضح رہے پروفیسر عمار علی جان نے اس کیس میں عبوری ضمانت حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'احتجاج کے دوران (ہم) نے ایسی کوئی تقریر نہیں کی کہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور شرکا کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمگیر وزیر کو احتجاج کے بعد اغوا کیا گیا۔

واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق طالبعلم عالمگیر وزیر کیمپس سے لاپتہ ہو گئے تھے، جس کے بعد کیپٹل سٹی پولیس آفیسر ذوالفقار حمید نے ڈان کو بتایا تھا کہ عالمگیر کو مذکورہ معاملے میں گرفتار کیا گیا۔

علاوہ ازیں پیر کو عالمگیر وزیر کو 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا، تاہم ریاست کی مدعیت میں درج اس کیس کو لاہور کی سیشن عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ طلبہ کا احتجاج ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے اور طلبہ وہ کام کررہے ہیں جو سیاستدان کو کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ

انہوں نے کہا کہ 'دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینے والے افراد کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟، ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ طلبہ کے خلاف ایف آئی آر فوری طور پر واپس لی جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024