شہزاد اکبر کا شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب دینے کا مطالبہ
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف خاندان کی گڈ نیچر ٹریڈنگ (جی ایم سی) کمپنی کے خلاف تحقیق کریں جس کے تحت اربوں روپے کی جعلی ٹی ٹیز کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر مواصلات و پوسٹل سروسز مراد سعید کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف خاندان کے اثاثوں میں گزشتہ 10 برس میں 8 ہزار فیصد اضافہ ہوا۔
علاوہ ازیں معاون خصوصی برائے احتساب نے شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب طلب کیے۔
مزیدپڑھیں: نیب کا شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ
طویل دورانیہ کی پریس کانفرنس میں انہوں نے ایک جی ایم سی کمپنی کی 'کاغذی کمپنی کی آڑ میں رقوم کی غیرقانونی نقل و حرکت' سے متعلق چارٹ بھی دکھائے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ شریف خاندان کے اثاثوں کی تفتیش کی گئی تو جی ایم سی کمپنی کا انکشاف ہوا جس میں 200 سے زائد جعلی ٹی ٹیز کے ذریعے رقوم کی ہیرا پھیری کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ جعلی ٹی ٹیز کے ذریعے بیرون ملک سے آنے والی دولت کو جائز قرار دینے کے لیے اقدامات کیے گئے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ شریف خاندان نے معصوم اور غریبوں شہریوں کے نام پر اربوں روپے کی جعلی ٹی ٹیز بنوائی۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
معاون خصوصی برائے احتساب نے بتایا کہ مذکورہ جعلی ٹی ٹیز کے ذریعے 20 سے 22 چھوٹی کمپنیوں کاائماپر کھڑا کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ سے متعلق نیا انکشاف کاتعلق اتفاق گروپ نہیں تھا۔
انہوں نے جی ایم سی نامی کمپنی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا مذکور کمپنی کے تین ڈائریکٹرز تھے جن میں نثار احمد گِل، ملک علی احمد اور طاہر نقوی شامل تھے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبرنے بتایا کہ شہباز شریف نے 2009 سے نثار احمد گِل کو چیف منسٹر ہاؤس ڈائریکٹر پولیٹیکل افیئر مقرر کیا
اس ضمن میں شہزاد اکبر نے نثار احمد گِل کے دو مرتبہ جاری ہونے والی نوٹیفیکشن بھی دکھائے۔
علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ڈیلی میل کے خلاف شہباز شریف نے مقدمہ تو درکنار ایک بھی جواب نہیں دیا۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ شہباز شریف نے ملک علی احمد نامی شخص ڈائریکٹر پالیسی اور طاہر نقوی کو بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا اور جب طاہر نقوی کی تفیش کی گئی تو اس کا اسسٹنٹ جنرل ایڈمن شریف گروپ آف کمپنیز سے تھا۔
مزیدپڑھیں: نیب لاہور کے شہباز شریف و اہل خانہ کی جائیدادیں ضبط کرنے کے احکامات
انہوں نے کہا کہ نثار احمد کِل نیب کی حراست میں ہے اور انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ جی ایم سی محض کاغذی کمپنی تھی اور اس کو سلمان شریف چلاتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سلیمان شہباز کے اثاثوں کی ضبطگی شروع ہوچکی۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ 'کمپنی کے زیر حراست دو کیش بوائز نے بھی جعلی ٹی ٹیز کا اعتراف کرلیا ہے'۔
شہزاد اکبر کے 18سوالات
سوال نمبر 1: کیا نثار احمد گل وزیر اعلیٰ کے ڈائریکٹر برائے سیاسی امور اور ملک علی احمد وزیر اعلیٰ کے پالیسی ساز کے عہدوں پر تعینات نہیں تھے؟
سوال نمبر 2: کیا نثار احمد گل اور علی احمد آپ کے فرنٹ مین نہیں تھے؟
سوال نمبر 3: کیا یہ دونوں کاغذی کمپنی گڈ نیچر کے مالک نہیں تھے؟
سوال نمبر 4: کیا نثار احمد گل نے اپنے بینک اکاؤنٹ کے اوپنگ فارم میں اپنا عہدہ مشیر برائے سیاسی امور وزیر اعلیٰ پنجاب اور پتہ چیف منسٹر آفس نہیں لکھوایا تھا؟
سوال نمبر 5: کیا آپ کا ڈائریکٹر سیاسی امور نثار احمد کل آپ کے صاحبزادے سلیمان شریف کے ساتھ مختلف دوروں پر لندن، دبئی اور قطر نہیں گیا تھا؟
سوال نمبر 6: کیا انہوں نے بھاری رقم آپ کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل نہیں کیے تھے؟
سوال نمبر 7: کیا آپ نے ان پیسوں سے تہمینہ درانی شریف کے لیے وسپرنگ پائن کے دو ویلاز نہیں خریدے تھے؟
سوال نمبر 8: کیا آپ کے کیش بوائیز مسرور انور اور شعیب قمر نے جی ایم سی سے اربوں نکال کر آپ کے دونوں حمزہ اور سلیمان کے اکاونٹ میں منتقل نہیں کیے تھے؟
سوال نمبر 9: نثار گل ان کے اکاونٹس سے آپ کے اور آپ کے بیٹوں کو یہ رقم منتقل نہیں کی گئی تھی؟
سوال نمبر 10: کیا جی ایم سی سے اربوں کیش کی صورت میں نکال کر آپ اور آپ کے خاندان کے اندورنی اور بیرونی اخراجات کے لیے استعمال نہیں کیے گئے؟
سوال نمبر 11: کیا جی ایم سی نے بلواسطہ آپ کے چپڑاسی ملک مقصود کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے جمع نہیں کرائے تھے؟
سوال نمبر 12: کیا جی ایم سی کے مالکان کو وزیراعلیٰ کے آفس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کرکے آپ براہ راست کالا دھن کو سفید کرنے کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لیے سرپرستی نہیں کرتے تھے؟
سوال نمبر 13: کیا آپ کی رہائش گاہ 56 ایچ ماڈل ٹاؤن میں کمیشن رقوم وصول ہوتی نہیں رہی؟
سوال نمبر 14: کیا ان رقوم کو شریف گروپ کے دفتر واقع 55 کے ماڈل ٹاؤن میں منتقل کرنے کے لیے آپ کی ذاتی گاڑی استعمال نہیں ہوتی رہی؟
سوال نمبر 15: کیا دبئی کی چار کمپنیوں جو بیگم نصرت شہباز اور سلیمان شہباز کے اکاونٹ بذریعہ ٹی ٹی رقوم منتقل کرتی رہی؟
سوال نمبر 16: کیا یہ وہی کمپنیاں نہیں ہیں جو آصف زرداری اور اومنی گروپ کے لیے بھی منی لانڈرنگ کرتی رہی؟
سوال نمبر 17: کیا ڈیفٹ کے دیے ہوئے پیسے کی آپ کے داماد علی عمران نے بذریعہ نوید اکرام لوٹ مار نہیں کی؟
سوال نمبر 18: کیا آپ ہمیں بتانا پسند کریں گے کہ پاکستان کی عزت بحال کرنے کے لیے لندن کی عدالتوں میں ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روس اور میرے خلاف حرجانے کا دعویٰ دائر کریں گے؟
'لوگوں کو جیل میں رکھنا نہیں چاہتے'
وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت سول مقدمات میں معاہدوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور وہ لوگوں کو جیل میں رکھنا نہیں چاہتے۔
انہوں نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور پراپرٹی ٹائکون ملک ریاض کے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے سے متعلق کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب قانونی عمل کے ذریعے کسی دوسرے ملک سے رقم واپس ملک میں آئی ہو۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ قابل ذکر بات ہے کہ یہ معاملہ کوئی فوجداری مقدمہ نہیں بلکہ سول نوعیت کا ہے ۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ رقم سپریم کورٹ کو منتقل کردی گئی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے عدالت میں درخواست بھی دائر کردی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 19 کروڑ پاؤنڈز میں سے 14 کروڑ پاؤنڈز منتقل ہوگئے ہیں جبکہ 5 کروڑ پاؤنڈز 1 ہائیڈ پارک کی جائیداد فروخت کر کے حاصل کیے جائیں گے۔
تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ جب آفیشل پریس ریلیز میں کہا گیا کہ رقم ریاست پاکستان کو منتقل کی جائے گی تو وہ سپریم کورٹ میں کس طرح منتقل کی گئی۔
انہوں نےکہا کہ ہم رازدای کے معاہدے کے تحت ہم اس کی تفصیلات نہیں بتاسکتے اور کہا کہ کیا سپریم کورٹ ریاست پاکستان کا حصہ نہیں تو اگر رقم سپریم کورٹ منتقل کی گئی اس کا مطلب ریاست پاکستان کو حاصل ہوئی۔
دوسری جانب اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی قوانین کے ماہر بیرسٹر افتخار نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل شدہ رقم کا سپریم کورٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہیے۔
اس ضمن میں سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر رقم سپریم کورٹ میں گئی ہے تو عدالت کو بتانا پڑے گا یہ رقم بینک اکاؤنٹ میں کس طرح منتقل ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت تحقیقات میں تیزی لانے اور پاکستان میں رقم واپس کرنے پر برطانوی حکومت اور این سی اے کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ اس معاملے میں دوسرے ملک کی حکومت شامل ہے لہذا وہ رازداری کا پابند ہیں اور اس بارے میں تفصیلات پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں گے۔
خیال رہے کہ 2 روز قبل ملک ریاض نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں 19 کروڑ پاؤنڈز کی رقم جمع کروانے کے لیے برطانیہ میں موجود ظاہر شدہ قانونی جائیداد فروخت کی۔
تاہم جب اس بارے میں این سی اے کے ایک عہدیدار سے پوچھا گیا کہ آیا یہ تصفیہ ملک ریاض کی جانب سے جائیداد فروخت کرنے کا نتیجہ ہے تو انہوں نے ڈان کو بذریعہ ای میل بتایا کہ ’این سی اے نے جائیداد کی ملکیت حاصل کرلی ہے جسے فروخت کر کے آمدنی پاکستان کو واپس کی جائے گی‘۔