’لکھ کر بتاؤ کہ جرمنی جاکر کن کن باتوں کا خیال رکھو گی؟‘
معصومہ راجپوت کی چھوٹی بہن آمنہ رُباب نے پہلے دن اسکول جانے کے بعد اپنے بابا کو کہا کہ وہ پڑھنا نہیں چاہتی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے روایت شکن باپ مقصود احمد (بابا) نے بیٹی کی خواہش کا احترام کیا۔ جب آمنہ 6 برس کی ہوئی تو خود ہی بابا سے اسکول میں داخلے کی بات کی اور اسکول جانا شروع کردیا۔
جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے بیالوجی کینسر میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کررہیں بلوچستان کی معصومہ راجپوت جب اپنے گھریلو ماحول کے بارے میں بات کررہی تھیں تو میں اس وقت بس یہی سوچ رہا تھا کہ بچوں کے ذہن اور کردار سازی میں والدین کا کردار کتنا کلیدی ہوتا ہے۔
کراچی پریس کلب میں طے شدہ وقت پر ہونے والی ملاقات کے اختتام تک کئی گتھیوں کے جواب مل چکے تھے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تعلیم یافتہ والدین کے بچے تدریس اور شخصی اعتبار سے زیادہ پُراعتماد ہوتے ہیں۔ تاہم والدین کو اپنا رویہ لازماً متوازن رکھنا چاہیے۔
مثلاً بہاولپور میں راقم الحروف کے ایک عزیز ہیں، جو مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں لیکن ان کے بچے تدریسی میدان میں انہیں دغا دے گئے۔ پروفیسر صاحب کی ضد اور مرضی تھوپنے کی عادت نے بچوں کو باغی بننے پر مجبور کردیا۔
جرمن یونیورسٹی میں داخلہ کیسے ملا؟
جامعات کی عالمی درجہ بندی میں 25واں نمبر رکھنے والی یونیورسٹی سے فُل اسکالرشپ پر کینسر بیالوجی میں ماسٹر کرنے والی معصومہ راجپوت کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی بیرونِ ملک تعلیم کا خیال ذہن میں آتا ہے تو طالبعلم کی سوچ کا محور امریکا اور برطانیہ سے آگے نہیں جاتا لیکن ان ممالک کے علاوہ بھی کئی ایسے ملک ہیں جہاں جدید تعلیمی ادارے موجود ہیں اور وہاں اسکالرشپ بھی مل جاتی ہیں۔
معصومہ راجپوت نے بھی دیگر طلبا کی طرح امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں کو داخلے کے حصول کی خاطر درخواستیں ارسال کی تھیں اور برطانیہ کے 5 تعلیمی اداروں میں انہیں داخلہ مل بھی گیا تاہم ان اداروں کی جانب سے اسکالرشپ کی آفر نہیں کی گئی۔ معصومہ کے لیے برطانوی تعلیمی اداروں کی فیس پاؤنڈ میں ادا کرنا ناممکن تھا۔ اسی دوران معصومہ کی ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے جرمنی کے بارے میں بھی سوچے، جہاں تعلیمی اخراجات نسبتاً کم آتے ہیں۔
معصومہ بتاتی ہیں کہ مسئلے کا نصف حل مکمل معلومات میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ بیرونِ ملک پڑھائی سے متعلق ہمارے رویے قدرے جذباتی ہوتے ہیں۔
معصومہ نے انٹرنیٹ پر جرمنی کی مختلف جامعات میں داخلہ پالیسی کا جائزہ لیا اور ان سے متعلق تمام تر معلومات بھی اکٹھا کیں۔ اس ساری محنت اور مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر انہیں جرمنی کی ایک ایسی یونیورسٹی مل گئی جہاں انگریزی زبان میں لائف سائنسز میں بیچلر کروایا جارہا تھا۔
اسی تگ و دو میں معصومہ کو معلوم ہوا کہ بیرون ملک یونیورسٹی میں داخلے کے لیے SAT ٹیسٹ لازمی ہے۔ معصومہ نے انٹرنیٹ کی مدد سے SAT کی تیاری کی اور ٹیسٹ پاس کرلیا۔
وہ کہتی ہیں کہ طالب علم کی کامیابی ’سنجیدگی‘ سے مشروط ہے، میں نے انٹرنیٹ کے ذریعے انٹرنیشنل ٹیسٹ کی تیاری کی اور اپنے محدود مالی وسائل کو مزید بہتر انداز میں استعمال کیا، اسی طرح اگر آپ IELTS ٹیسٹ کی تیاری کرنا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر آپ کو ایسی متعدد ویب سائٹس مل جائیں گی جہاں ٹیسٹ کی بہترین تیاری کی جاسکتی ہے بشرطیکہ آپ تیاری کے لیے پوری طرح سے سنجیدہ ہوں۔
جب معصومہ کو نجی یونیورسٹی میں داخلہ ملا تو انہوں نے تعلیمی وظیفے کے لیے درخواست کی اور انہیں 50 فیصد اسکالرشپ اور 25 فیصد قرض مل گیا، اب انہیں بقیہ 25 فیصد فیس ادا کرنی تھی۔
اگرچہ معصومہ کو تعلیمی ادارے سے ملنے والا قرض بھی ادا کرنا باقی ہے، مگر اس کے لیے تعلیم مکمل ہونے تک کا وقت ان کے پاس ہے۔ ایک اور مزے کی بات یہ کہ جرمن کی سرکاری جامعات میں تعلیمی اخراجات کا تصور نہیں لیکن زبان کی وجہ سے بیشتر ایشیائی طالب علم جرمنی کے ایسے نیم سرکاری تعلیمی اداروں کی تلاش کرتے ہیں جہاں انگریزی میں مطلوبہ کورس پڑھایا جاتا ہیں، جیسا کہ معصومہ نے کیا۔
تدریسی اور شخصی کامیابی کے پیچھے کون تھا؟
معصومہ راجپوت کے بیشتر انٹرویوز میں ان کی تدریسی کامیابی کی کہانی پڑھنے اور سننے کو مل جاتی ہے لیکن میری ان سے ملاقات کا مقصد اس تدریسی کامیابی کے پیچھے اسباب کی حقیقت جاننا تھا۔
معصومہ کے بابا تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور بلوچستان کے ایک مقامی اسکول میں بطور پرنسپل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کو درپیش مالی مسائل کے سبب وہ شعبہ فزکس میں تحقیق کی اپنی خواہش کو کبھی پورا نہیں کرسکے۔ صورتحال اتنی خراب رہی کہ وہ ہاکی کلب میں شمولیت کے لیے کٹ خریدنے سے بھی قاصر رہے۔
عام مشاہدہ ہے کہ دل شکستہ والدین اپنے ٹوٹے خوابوں کی تعبیر کی توقعات اپنے بچوں سے باندھ لیتے ہیں۔ وہ ان پر ارادتاً اپنی مرضی بھی مسلط کرتے ہیں لیکن معصومہ راجپوت کو کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں جب ان کے والد نے تدریسی یا عام حالات میں اپنی مرضی اپنے کسی بچے پر لازمی قرار دی ہو۔
دہری شخصیت کا خول کس طرح توڑا؟
معصومہ کے والد نے کبھی اپنے قول یا فعل سے بچوں کی تدریس یا پروفیشن کے معاملے میں اپنی مرضی مسلط نہیں کی اور اس ضمن میں فیصلے کی مکمل آزادی دی۔
ماضی کو یاد کرتے ہوئے معصومہ نے بتایا کہ دراصل بابا کا سکون اور تعلیم پسند رویہ ہمارے دل و دماغ کو متاثر کرگیا۔ ایک طرف بڑھتا ہوا تدریسی رجحان تھا تو دوسری طرف والدہ کی جانب سے اخلاقی اور مذہبی تربیت کا سلسلہ۔
دونوں کے رویوں نے ہم بہن بھائیوں کو ہر قسم کے مصنوعی خول سے آزاد کردیا۔ ہم دہری شخصیت کے شکنجے سے آزاد ہیں کیونکہ ہمیں والدین کی تعلیم و تربیت سے یہ حقیقت منکشف ہوچکی ہے کہ اگر والدین آس پاس نہیں تو بھی محمد ﷺ اور اہل بیت کی محبت ہمارے گرد گھیرا کیے ہوئے ہے۔
جب معصومہ نے جرمنی جانے کی اجازت چاہی تو ان کے والد نے بیٹی کو ایک قلم اور صفحہ تھما کر پوچھا کہ لکھ کر بتاؤ کہ وہاں پہنچ کر کن باتوں کا خیال رکھو گی؟ چند منٹ بعد معصومہ تحریری نوٹ لے کر والد کے پاس پہنچی تو انہوں نے جواب دیا کہ سوچ سمجھ کر 2 دن بعد جواب دینا۔ معصومہ کہتی ہیں کہ والدین کے غیر روایتی طرزِ عمل بچوں کو تخلیقی بنانے میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد یقیناً ہماری سوچ اور سمجھ کا معیار جانچنا تھا۔
کیمسٹری ریسرچ لیب میں جاب کی پیشکش کیوں مسترد کی؟
جرمنی میں معصومہ سمیت دنیا بھر سے آئے متعدد طلبہ و طالبات کے لیے بین الامذاہب و ثقافتی ہم آہنگی سے متعلق 2 روزہ تربیتی و معلوماتی کلاسز کا اہتمام کیا گیا جس میں انہیں ایک دوسرے کے مذہب اور ثقافت کے احترام کا درس دیا گیا اور احترام نہ کرنے پر ممکنہ نقصان سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بعدازاں جب باقاعدہ کلاسز کا آغاز ہوا تو تیسرے لیکچر کے بعد ہی کیمسٹری کے ایک جرمن پروفیسر نے معصومہ کو شعبہ کیمسٹری ریسرچ لیب میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ کی پیشکش کی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ’میں بیالوجی کے ریسرچ سینٹر میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوں‘۔
کیا اس انکار کے پس منظر میں بھی تربیت کا دخل تھا؟ جب معصومہ اپنی مدد آپ کے تحت اے لیول کی پڑھائی میں مصروف تھیں تب انہیں کوئٹہ کے ایک معروف اسکول سے بیالوجی پڑھانے کی پیشکش ہوئی۔ اسکول انتظامیہ کے بے حد اصرار پر معصومہ نے اس شرط پر یہ آفر قبول کی کہ وہ ہفتے میں چند لیکچر دیں گی۔ محض ایک مہینے کی تدریس کی مد میں انہیں 60 ہزار روپے معاوضہ دیا گیا۔ تب معصومہ کے والد نے انہیں بتایا کہ کینسر بیالوجی میں ماسٹر کا خواب جو ’او لیول‘ سے تم اپنے دماغ میں بسا چکی ہو ایک مرتبہ اپنا مقصد حاصل کرلو، کیونکہ پھر تمہیں 60 ہزار سے کہیں زیادہ مل جائیں گے۔
مختصر المیعاد اور طویل المعیاد منصوبہ بندی اور اس کے نتائج سے معصومہ اپنے گھر سے عملی درس حاصل کرچکی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کیمسٹری ریسرچ لیب میں ملازمت کی پیش کش قبول نہیں کی۔
علم کی ترسیل میں کنجوسی کا دخل کیوں؟
یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان میں علم پھیلنا تو دُور کی بات بلکہ الٹا سکڑتا جارہا ہے۔ کچھ کر جانے کا خواب لے کر آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی مثالیں ہر چھوٹے بڑے، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں جابجا ملے گی جس کے باعث نئے نظریات پنپنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں اور تحقیق و آگاہی کے بیج بوئے جاپاتے ہیں نہ ہی ان سے ثمرات حاصل ہوپاتے ہیں۔
معصومہ نے لاہور میں شوکت خانم ہسپتال میں کینسر کے ریسرچ سینٹر میں بطور انٹرن 4 ماہ کام کیا جہاں انہوں نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو اپنے ماتحت محنتی طالب علموں کی حوصلہ شکنی کرتے دیکھا۔
معصومہ جرمنی کے تدریسی ماحول اور اساتذہ کے رویے سے متعلق کہتی ہیں کہ شاید جرمن معاشرے میں سائنسی ترقی کی بڑی وجہ طالب علموں کو سازگار ماحول کی فراہمی ہے کہ جہاں اساتذہ کا کردار شفیق والد سے کم نہیں ہوتا۔ طالب علم کا محض ایک ’خیال‘ بھی جرمن استاد ایسے سنتا ہے جیسے وہ اپنے معصوم بیٹے کی بات سن کر سمجھنے کی کوشش کررہا ہو۔
بابا نے ایسا کیوں کیا؟
معصومہ راجپوت سے انٹرویو کے دوران ذہن کے قرطاس پر راقم الحروف کی بھی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ہمارے اکثر رشتہ دار ہمارے محلے دار بھی تھے لہٰذا دن کا بیشتر حصہ چاچا اور خالہ زادوں کے ساتھ خوش گپوں میں گزرتا تھا لیکن میرے مغفور و مشفق والد ارشاد علی خاں ضیاعِ وقت پر بہت خفا ہوتے تھے۔ معصومہ کے سر پر بھی ایک ایسے ہی والد کا سایہ رہا ہے۔ معصومہ ایک ایسے گھر میں بڑی ہوئیں جہاں تمام ہی بہن بھائیوں کو اسکول کے دور سے ہی چند حدود و قیود کا سامنا تھا۔
معصومہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد نے محلے کے بچوں کے ساتھ انتہائی محدود روابط کی اجازت دی جس کی اہمیت کا اندازہ انہیں پختہ عمر میں ہوا۔
اس ضمن میں اکثر محققین کے درمیان اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسکول کے زمانے کی دوستیاں بچوں کی ذہنی اور جذباتی صلاحیت کو تقویت بخشتی ہیں تاہم زیادہ دوستیوں کے نتیجے میں بچوں کی تخلیقی سوچ اور رجحانات دوستیاں نبھانے کے چکر میں متاثر ہوسکتی ہیں۔
ہر مقصد قربانی کا تقاضہ کرتا ہے
معصومہ راجپوت شعبہ بیالوجی میں تحقیق کی خواہش مند تھیں لیکن یہ خواہش تایا کے انتقال کے بعد مقصد کا روپ دھار گئی اور پھر انہوں نے شعبہ کینسر بیالوجی میں پی ایچ ڈی کو مقصدِ حیات بنا لیا۔ گریجویشن کا دوسرا سال تھا جب ان کے تایا مثانے کے کینسر میں مبتلا ہوکر جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اور اپنی خوش نما یادوں کی خوشبو بکھیر کر چلے گئے۔ اس دن معصومہ نے عہد کیا کہ وہ کینسر بیالوجی میں ماسٹر کریں گی اور اس مہلک مرض سے دیگر لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی خدمامت پیش کریں گی۔
ایسے ملک میں جہاں حکومتی اور غیر سرکاری مالیاتی ادارے (مثلاً بینک وغیرہ) ذہین طالب علموں کو تعلیمی قرض دینے سے کتراتے ہوں، وہاں متوسط طبقے کے نوجوانوں کو اپنے ارادوں کو حقیقی روپ دینا کٹھن ترین مرحلہ ہوتا ہے اور بچوں کی خواہش پوری کرنے میں والدین بڑی قربانی دیتے ہیں۔
معصومہ راجپوت کے اس فیصلے کا اثر پورے گھر پر پڑا۔ ضروریاتِ زندگی کے علاوہ بہت سی خواہشات کا گلا گھونٹا گیا۔ معصومہ نے بتایا کہ ان کے والد ویزٹنگ ٹیچر ہیں اور انہیں اوقات کار کے مطابق ادائیگی ہوتی ہے۔ ’بابا نے علالت کے باوجود کبھی اسکول کی چھٹی نہیں کی‘، معصومہ نے اپنے والد کے بارے میں مزید معلومات دیتے ہوئے کہا۔
ان کا گھرانہ اب بھی مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے اور شاید جب تک معصومہ راجپوت کینسر بیالوجی میں ماسٹر کرکے کسی معتبر تحقیقی ادارے سے وابستہ نہیں ہوجاتیں تب تک مشکلات کے گراف میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ معصومہ کے حوصلے کو سلام ہے جن کا کہنا ہے کہ دنیا میں اپنی موجودگی کا بڑا اثر چھوڑنا ہے تو بڑی قربانی دینی پڑتی ہے، یقیناً معصومہ کا یہ خیال ان کے والد کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
معصومہ اپنے مقصد کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی انرولمنٹ سے قبل جب سالانہ فیس جمع کرانے کا مرحلہ آیا تو بہت سی مشکلات آڑے آئیں لیکن اس دوران ان کے والد کے دوست نے مدد کی اور یوں میں جرمنی پہنچ گئیں۔
طالب علم کا دشمن ’ٹال مٹول‘
شعبہ تدریس سے وابستہ ماہرین کہتے ہیں کہ طالب علم کا سب سے بڑا دشمن ’ٹال مٹول‘ ہے۔ یعنی جب وہ ارادہ کرلے تو اس کی تکمیل کے لیے صبح، شام، کل، پرسوں کا سہارا لیتا ہے اور جو لوگ اپنے متعین کردہ ارادوں پر کام نہیں کرتے وہ دوسروں کے بتائے ہوئے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ معصومہ راجپوت خوش نصیب ثابت ہوئیں کہ انہوں نے ٹال مٹول کو اپنی کوشش کے بیچ میں حائل نہیں ہونے دیا۔
کامیابی کا لطف اس وقت دوبالا ہوجاتا ہے جب محدود وسائل میں کامیابی کی منزل حاصل کی گئی ہو۔ ہم انسانوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پہلا قدم اٹھانے سے قبل محدود وسائل کا رونا رونے لگتے ہیں اور یوں کامیابی کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھا پاتے۔ یہ رویہ دراصل راہ فرار کا بہانہ ہے۔
ارادوں اور خواہش کے درمیان باریک دیوار
انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کی معلومات کا ذخیرہ انسان کی ہتھیلی پر رکھ دیا ہے تاہم پاکستان میں لوگوں نے انٹرنیٹ کو بڑی حد تک تفریح کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ گوگل اور دیگر ویب سائٹس پر دستیاب معلوماتی خزانے میں سے آپ اپنے مقصد کی معلومات حاصل کرکے اپنے مستقبل کا روڈ میپ خود ہی تیار کرسکتے ہیں، خواہ اس کا تعلق آپ کی پڑھائی سے ہو یا پھر ملازمت سے۔
مگر افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں اکثر نوجوان اساتذہ کی غیر سنجیدگی اور غیر ملکی یونیورسٹی کی جانب سے بروقت جواب نہ ملنے کی شکایات کرتے ہیں اور جلد ہار مان جاتے ہیں۔
اس ضمن میں راقم خود اپنی مثال پیش کرنا چاہے گا کہ اسے دورانِ تدریسی تحقیق متعدد ایسے سہاروں کی تلاش رہی جو اس کی راہوں کے کانٹے اپنی جھولی میں ڈال لے۔ لیکن پھر ایک نفیس انسان نے گاہے بگاہے رہنمائی کی اور مجھے میری کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے مفید مشورے بھی دیے۔
معصومہ راجپوت کہتی ہیں کہ مجھے میرے ارادوں کی مضبوطی وہاں تک لے آئی جہاں ہر طالب علم پہنچنا چاہتا ہے۔ انہوں نے ارادوں اور خواہش کے درمیان باریک دیوار کی وضاحت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ خواہش کے پیچھے محض تمنا ہوتی ہے جبکہ ارادوں کو محنت کا سہارا ہوتا ہے۔ جب ارادوں میں محنت کی آمیزش نہ ہو تو خواہش بن کر رہ جاتی ہے اور خواہش کے پورے ہونے یا نہ ہونے پر زیادہ افسوس نہیں ہوتا۔
وہ کہتی ہیں کہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ارادوں کو پہچانیں کیونکہ اگر انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ چاہتے کیا ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے مقاصد کو اپنا بنائے بیٹھے ہیں اور اسی میں محو ہوکر ساری زندگی اپنے ارادوں کو تھپکی دے کر سلاتے رہتے ہیں۔
وقاص علی ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں، ان کو ٹوئٹر پر یہاں twitter.com/waqasaliqk فالو کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں