• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پاکستانی حکام ڈان کے دفاتر کے گھیراؤ کی مذمت کریں، میڈیا کی عالمی تنظیموں کا مطالبہ

شائع December 4, 2019
گزشتہ روز کراچی پریس کلب کے باہر درجنوں افراد نے ڈان کے خلاف مظاہرہ کیا تھا — فوٹو: پرویز بنبھن ٹوئٹر
گزشتہ روز کراچی پریس کلب کے باہر درجنوں افراد نے ڈان کے خلاف مظاہرہ کیا تھا — فوٹو: پرویز بنبھن ٹوئٹر

گلوبل میڈیا واچ ڈاگز کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) اور رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے پاکستانی حکام سے اسلام آباد میں ڈان کے دفاتر کے گھیراؤ کی مذمت کرنے اور اخبار کے خلاف مظاہروں کو پرتشدد ہونے سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

2 روز قبل دارالحکومت اسلام آباد میں کچھ نامعلوم افراد نے لندن برج پر 2 افراد کو چاقو مار کر قتل کرنے والے شخص کے پسِ منظر کے حوالے سے خبر شائع کرنے پر ڈان کے دفاتر کے باہر احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین نے ڈان اخبار کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے، نعرے بازی بھی کی اور عملے کو عمارت کے اندر محصور کرکے 3 گھنٹے تک دفتر کے باہر موجود رہے تھے۔

کیپٹل انتظامیہ کے افسران اور پولیس اہلکاروں کی آمد سے قبل مظاہرین کو عمارت کی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے میڈیا ہاؤس کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی گارڈز کو دروازوں پر تالے لگانے پڑے تھے۔

جس کے بعد گزشتہ روز کراچی پریس کلب کے باہر درجنوں افراد نے ڈان کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور عملے کے خلاف دھمکیاں دیں۔

مظاہرین نے ’غلط خبر شائع کرنے پر ادارے اور انتظامیہ کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی صورت میں‘ ڈان میڈیا گروپ کے دفاتر کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

سی پی جے بورڈ کی چیئرپرسن کیتھیلن کیرل نے گزشتہ روز جاری بیان میں کہا کہ ’ پاکستانیوں کے پاس ڈان اخبار کی کوریج پر اعتراض کرنے اور اس کے خلاف مظاہرہ کرنے کا ہر حق حاصل ہے لیکن تشدد کی دھمکیاں اس حق سے باہر ہیں‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’ ہم پاکستانی حکام سے ڈان کے عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام مناسب اقدامات لینے کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: ڈان اسلام آباد کے دفتر کا گھیراؤ

رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ نے بھی واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ ’ طاقت کا یہ مظاہرہ پاکستان کے نامور اخبار کے خلاف دھمکی دینے کا ایک اور ناقابل قبول عمل ہے‘۔

آر ایس ایف کے بیان میں کہا گیا کہ ’ ہمیں جو معلومات موصول ہوئی ہیں ان سے اشارہ ملتا ہے کہ وفاقی حکومت اگر اس رویے کی اصل محرک نہیں تو انتہائی کم سطح پر ایک غیر متحرک ساتھی ہے جو جمہوریت میں ناقابل قبول ہے ‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ ہم وزیراعظم عمران خان سے عوامی سطح پر ان زیادتیوں کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، ایسا کرنے میں ناکام ہونے کی صورت میں انہیں ذاتی طور پر آزادی صحافت کی خوفناک خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا‘۔

آر ایس ایف کے بیان میں 2 وفاقی وزرا فواد چوہدری اور شیریں مزاری کے ٹوئٹس بھی شامل تھے جنہوں نے یکم دسمبر کو ڈان کی رپورٹ پر تنقید کی تھی۔

ڈان کے دفاتر کے گھیراؤ کی مذمت

گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی دارالحکومت میں ڈان کے دفاتر کا دورہ کیا اور نامعلوم افراد کے گھیراؤ کا شکار بننے والے ملازمین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے ڈان کے دفاتر کے گھیراؤ کی مذمت کی اور کہا تھا کہ یہ میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش تھی۔

بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ’ میڈیا اداروں کو دھمکایا جارہا ہے لیکن ہم کسی کو آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب دارالحکومت میں اس طریقے سے ڈان کے دفاتر پر حملہ کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کا ڈان کے دفاتر کا دورہ، گھیراؤ کی مذمت

سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین مصطفیٰ نواز کھوکر نے بھی ڈان کے دفاتر کا گھیراؤ کرنے کا نوٹس لیا اور اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کو 6 دسمبر تک کمیٹی کو واقعے کی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ذمہ داران کی شناخت اور سزا دینے کے لیے واقعے کی اععلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ کسی مہذب معاشرے میں ایسے اقدامات ناقابل قبول ہیں‘۔

مریم اورنگزیب نے عزم ظاہر کیا کہ عوام، سیاست دان اور میڈیا ایسے عناصر کے خلاف متحد ہوں گے۔

نیشنل پارٹی (این پی) پنجاب کے صدر ایوب ملک نے اسے ’ آزادی صحافت پر حملہ‘ قرار دیا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز، آل پاکستان نیوزپیپرز ایمپلائیز کونفیڈریشن، میڈیا ورکرز آرگنائزیشن اور نیشنل پریس کلب نے بھی واقعے کی مذمت کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024