کیا چائنا ماڈل واقعی بے مثال ہے؟
ہر چند ماہ بعد سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر پاکستان میں ’صدارتی نظام‘ کو نافذ کرنے سے متعلق مطالبات نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ٹوئٹر سب سے آگے ہے کہ جہاں صارفین کی بڑی تعداد ایک جیسی ٹوئیٹس کو یکساں ہیش ٹیگز کے ساتھ اپنا پیغام پھیلا رہی ہوتی ہے۔
ویسے آئین کو ازسرِ نو نئی شکل دینے کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سیاسی نظام، نظریاتی بنیادوں پر، پتھر پر لکیر نہیں ہوتے اور نہ ہی آئین تبدیل کرنا ناممکنات میں شامل ہے۔
متعدد ملکوں میں کئی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو ان پلیٹ فارمز سے اقتدار کی جنگ لڑ چکی ہیں جو انتخابی نظام، ووٹنگ فارمولہ، مختلف سماجی گروہوں کے درمیان طاقت کی تقسیم، ایگزیکٹو، قانون ساز اداروں اور عدلیہ کے درمیان تعلقات میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
خیر جو بھی ہو، ریاست کے کسی ایک مخصوص ادارے کو وقتی مداخلت کی دعوت دینے سے کئی گنا زیادہ بہتر یہ ہے کہ اداروں کی ری ڈزائننگ سے متعلق عوام میں بات ہو۔
ماضی میں اس مطالبے کو لے کر کم از کم 2 مرتبہ مہم چلائی جاچکی ہے، لیکن اس بار جو مہم چلی ہے، وہ ماضی کے مقابلے میں کچھ مختلف دکھائی دی۔
پہلا فرق تو اس مطالبے کی تکرار ہے جو جولائی 2018ء کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے بعد بڑھتی جارہی ہے۔ حکمراں جماعت کے ایک بڑے طبقے کا ماننا یہ ہے کہ وزیرِاعظم کا عہدہ زیادہ ایگزیکٹو اختیارات نہیں رکھتا اور فیصلہ سازی میں بڑی حد تک ناہل وزرا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’تبدیلی‘ لانے کے لیے مطلوب قانون سازی کے پیچیدہ و بے کار طریقوں کی وجہ سے ملک آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔
صدارتی نظام کے لیے اس بار کی مہم میں دوسرا فرق 2 ملکوں کے حوالوں کی صورت میں نظر آیا۔ وہ 2 ممالک جن کے نظامِ حکومت کو پاکستان کے لیے موزوں قرار دیا گیا۔ ان ملکوں کے نام ہیں چین اور ترکی۔
اگرچہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں اردوان کی دیوانگی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن ترکی کے نظام کی پسندیدگی قدرے نئی نئی ہے۔ یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ ’چائنا ماڈل‘ کے ماننے والوں کی تعداد میں اتنا زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جتنا کہ یہ ملک پاکستان کی اقتصادی اور اسٹریٹجک فیصلہ سازی میں اپنا اثر و رسوخ بٹھا چکا ہے۔
ڈرائنگ رومز میں کچھ ایسی منطقیں سننے کو ملتی ہیں کہ، ’اگر ان کے نظام کے تحت برق رفتاری کے ساتھ موٹر وے تعمیر ہوجاتی ہے، پھر تو ہمیں بھی ایسے ہی نظام کو اپنے ہاں رائج کرنا چاہیے‘۔ زیادہ سنجیدہ، بلند شرح نمو، ’قانون کی سخت حکمرانی‘، کرپشن کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی، اور اس ترقیاتی ماڈل کی مجموعی فلاحی کامیابی کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں چین جیسا نظام نافذ کیا جائے۔
یہ بات باعثِ تجسس ہے کیونکہ چین کا حقیقی موجودہ نظام (جو کہ اس کے ترقی کی مشہور و معروف کی جانے والی کہانی کو آگے بڑھاتا ہے)، وہ پورے پاکستان میں مرکزی دھارے کی سیاسی بحث کا حصہ رہا ہے۔
چین کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وہاں کی داخلی سیاست کی خبریں رپورٹ نہیں کرتا اور یہ ایسی کوئی تفصیل فراہم ہی نہیں کرتے جس کی مدد سے معلوم ہوسکے کہ آخر چین میں اقتصادی ترقی کا راز کیا ہے؟
ڈرائنگ رومز، واٹس ایپ گروپس اور ٹی وی کے اسٹوڈیوز میں مضبوط قیادت، غیر حقیقی سطح پر ہونے والی بدعنوانیوں اور فیصلہ سازی کی قوت پر سطحی انداز میں بار بار گفتگو کی جاتی ہے لیکن یہ تو وہ معاملات ہیں جہاں اس کی گہرائی ختم ہوتی ہے۔
لسانی طور پر تقسیم سماجوں میں پارلیمانی جمہوریت کی اخلاقی اور عملی پسندیدگی اور چین کی اپنے اقلیتی گروہوں کے ساتھ حاکمانہ رویے کو ایک طرف رکھ کر ہمیں چین کی سیاسی اقتصادیات کو اپنے لیے آئیڈیل بنانے سے پہلے اس سے جڑی چند اہم باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
ماضی، حال اور مستقبل کے اقتصادی نظاموں کے موضوع پر برانکو ملانووک نے Capitalism, Alone کے عنوان کے ساتھ ایک شاندار کتاب لکھی جس میں وہ سرمایہ داری کی ان 2 آئیڈیل اقسام کے درمیان فرق کو پیش کرتے ہیں جن میں قدرے استحکام پایا گیا ہے۔
اس کتاب میں امریکا کو ایک ایسے سماج کے طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں لوگوں کو ان کی اہلیت کے مطابق اختیارات اور مقام دیا جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے بڑی حد تک اشرافیہ کی حکومت میں نظر آنے والی عدم مساوات اور تفریق سے منسوب کیا گیا ہے۔
جبکہ دوسری قسم ہے سیاسی سرمایہ داری، جس کی مثال چین کی صورت پیش کی گئی ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کمیونزم (یا ریاستی سوشلزم) کی ناکامی کے باعث یہ سیاست اور اقتصادیات کو ایک مخصوص ترتیب میں سنبھالنے کے لیے موجودہ دور کا واحد متبادل ہے۔
ملانووک کے مطابق چین کا نظام ایسے ستم ظریفانہ ستونوں پر کھڑا ہے جن میں سے کچھ تو قطعی طور پر پاکستانیوں کے نزدیک مقبولِ عام نہیں نظر آتے۔
ملانووک نے چین کے موجودہ نظام کا ڈینگ (Deng) کے اصلاحاتی دور سے جائزہ لیا ہے۔ ان کے مطابق اس نظام کی 2 اہم خصوصیات نظر آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس میں انتہائی باصلاحیت، ٹیکنوکریٹک صلاحیتوں اور میرٹ کی بنیادوں پر تعینات ہونے والے افسران پر مشتمل بیوروکریسی نظر آتی ہے۔ اس نظام سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والی اس بیوروکریسی کا اہم فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بلند اقتصادی نمو کو حقیقت کا روپ دے اور اس مقصد کے حصول کے لیے مطلوب پالیسیوں پر عمل درآمد کرے۔ مسلسل بیوروکریٹک اور یک جماعتی حکومت کو اپنا اقتدار جائز ٹھہرانے کے لیے اقتصادی ترقی بہت ہی ضروری ہوتی ہے۔
اس نظام کی دوسری خصوصیت ہے قانون کی حکمرانی پر غیر مبہم نفاذ کے بجائے اس کی غیر موجودگی۔ ملانووک کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ کاروباری شخصیات کے مفادات کبھی بھی حکومتی رویے کے آڑے نہ آسکیں، اور یہ صرف اس وقت ہی آسکتے ہیں جب قانون پر پختہ اور مستقل عمل درآمد ہوگا۔ اس کے برعکس ریاست اختیارات اور خودمختاری اپنے پاس ہی رکھتی ہے کیونکہ یہ اپنی مرضی سے کسی پر بھی کبھی بھی اپنی مرضی سے قانون کا اطلاق کرسکتی ہے۔
حتٰی کہ نیم علم و آگہی رکھنے والے مشاہدہ کاروں کو بھی یہ سمجھنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دونوں خصوصیات ایک بنیادی تضاد کو جنم دیتی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کی عارضی غیر موجودگی میں آپ کس طرح ایک ملک میں ایک ہی وقت میں ٹیکنوکریٹک اور میرٹ کی بنیادوں پر تعینات افسران پر مشتمل بیوروکریسی کا نظام وجود میں لاسکتے ہیں؟
ملانووک کے مطابق اسی وجہ سے چینی نظام میں ایک اور خصوصیت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے، اور وہ ہے زبردست کرپشن۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی نظام کو جب فیصلہ سازی کے صوابدیدی اختیارات درکار ہوتے ہیں تو وہ بے ضابطگی کی راہ ہموار کردیتی ہے۔ اگر قیادت کی نظر سے کرپشن کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تو اس سے بیوروکریسی کی سالمیت اور ان اقتصادی پالیسیوں پر عمل کرنے کی صلاحیت کمزور پڑسکتی ہے جو اقتصادی ترقی میں مدد دیتی ہیں۔
اسی لیے ایسا نظام ہمیشہ غیر یقینی توازن کا شکار رہتا ہے۔ ایک طرف اسے اپنے مخالفین کو سزا دینے اور شرح نمو کو بلند سطح پر لانے کے لیے چند مخصوص عناصر (بزنس مین، بیوروکریٹس) کو فائدہ پہنچانے کا پورا اختیار چاہیے ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف نظام کے اندر فیصلہ سازی کے صوابدیدی اختیارات حاصل ہونے پر سرکاری وسائل کو ذاتی دولت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جس کا مظاہرہ ہم وقتاً فوقتاً دیکھ چکے ہیں۔ اس توازن کو برقرار رکھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد مداخلت کی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کرپشن اقتصادی ترقی کو مکمل طور پر غیر مستحکم نہ کردے۔
جہاں تک اس نظام کی ٹیکنوکریٹک اور باصلاحیت بیوروکریسی کی خاصیت کا تعلق ہے تو ہمیں اس کی ضرور نقل کرنی چاہیے۔ وہ ریاستیں جو لاکھوں افراد کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانا چاہتی ہیں انہیں بڑے بڑے ترقیاتی پروگرامز کا انتظام سنبھالنے کے لیے باعزم اور باصلاحیت انسانی وسائل درکار ہوتے ہیں۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ اس نظام کی دوسری وہ خاصیت جس نے کراماتی انداز میں اقتصادی ترقی بخشی ہے وہ ویسا ہی رویہ ہے جس کی حکمراں جماعت کے کئی حامی برملا انداز میں مخالفت کرتے ہیں، یعنی صوابدیدی اختیارات کے ساتھ قوانین کا نفاذ اور کرپشن کو ’ایک خاص‘ حد سے زیادہ بڑھنے نہ دینا۔
لہٰذا اگلی بار چند افراد کو چائنا ماڈل کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر مہم شروع کرنے سے پہلے اس تضاد کا حل نکالنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
یہ مضمون 2 دسمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔