25 فیصد نوجوان اسمارٹ فونز کی لت کا شکار
بچوں اور نوجوانوں کی ایک چوتھائی تعداد اب اسمارٹ فونز پر اتنا انحصار کرنے لگی ہے کہ یہ ڈیوائسز ان کی مجبوری یا لت بن گئی ہیں۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔
کنگز کالج لندن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر چار میں سے ایک بچہ اور نوجوان کا اسمارٹ فونز سے تعلق مسائل کا باعث بن رہا ہے۔
جریدے بی ایم سی سائیکاٹری میں شائع ہونے والی تحقیق میں 2011 سے اب تک اسمارٹ فونز کے استعمال اور ذہنی صحت پر اثرات کے حوالے سے ہونے والی 41 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہواکہ نوجوانوں میں اسمارٹ فونز کی لت رویوں پر ایسے اثرانداز ہوئی ہے کہ اگر انہیں ڈیوائسز تک مسلسل رسائی سے روکا جائے تو وہ ذہنی طور پر چڑچڑے اور منتشر الخیال ہوجاتے ہیں۔
تحقیقی میں خبردار کیا گیا کہ ایسی لت کے ذہنی صحت پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا کہ 10 سے 30 فیصد کے درمیان بچے اور نوجوان ان ڈیوائسز سے دوری پر ذہنی بے چینی جیسے رویے کا شکار ہوجاتے ہیں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔
تحقیق کے مطابق ا س طرح کے رویے کے نتیجے میں دیگر مسائل بھی سامنے آتے ہیں جیسے ذہنی تناﺅ، مایوسی، نیند کی کمی اور تعلیمی اداروں میں پیشرفت کی شرح گھٹ جاتی ہے۔
محقق نکولا کیک نے اس حوالے سے بتایا کہ اسمارٹ فونز اب اس دنیا سے کہیں جانے والے نہیں اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح انہیں استعمال کرنا مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ اسمارٹ فونز خود ہیں یا ان میں موجود ایپس جو لوگوں میں لت جیسے رویے کا باعث بنتی ہیں۔
ان کے بقول بچوں اور نوجوانوں میں اسمارٹ فونز کے استعمال کے حوالے سے عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور والدین کو آگاہ کیا جانا چاہیے کہ بچوں کے لیے فونز استعمال کرنے کا وقت کتنا ہونا چاہیے۔
تحقیق میں شامل سمانتھا سون نے خبردار کیا کہ یہ لت یا عادت ذہنی صحت اور روزمرہ کے افعال پر سنگین اثرات مرتب کرسکتی ہے، تو اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔