مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی برقرار
مقبوضہ کشمیر میں حکام نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد اور دیگر مساجد میں مسلسل 17ویں ہفتے لوگوں جمعہ کی نماز کی ادائیگی سے روک دیا۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق حکام نے 5 اگست سے اب تک جامع مسجد سمیت دیگر مساجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
خیال رہے کہ 5 اگست کو نریندر مودی کی قیادت میں بھارت حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لے لی تھی اور مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا تھا۔
دوسری جانب آج مقبوضہ کشمیر کے وسطی، شمالی و جنوبی حصے میں بھارتی قبضے اور لاک ڈاؤن کے خلاف عوام کی جانب سے مظاہرے کیے گئے۔
جمعے کی نماز کے بعد عوام سری نگر، بڈگام، گندربال، اسلام آباد، پلوامہ، کلگام، شوپیان، باندی پورا، براملا، کپواڑہ سمیت مقبوضہ وادی کے دیگر علاقوں میں سڑکوں پر نکل آئے۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 370 کی منسوخی، مقبوضہ کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا
مظاہرین نے بھارت مخالف اور آزادی کے نعرے لگائے جبکہ بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے کئی مقامات پر مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔
دریں اثنا مقبوضہ وادی اور جموں کے مسلمان اکثریتی علاقوں میں معمولات زندگی 117ویں روز بھی فوجی لاک ڈاؤن اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کی وجہ سے بری طرح متاثر رہی۔
انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کاروبار اور معیشت پر منفی اثرات سامنے آرہے ہیں جبکہ طلبہ کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
اس کی وجہ سے صحافیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں طویل سفر کرکے سری نگر کے میڈیا سہولتی مرکز کی جانب جانا پڑتا ہے جہاں وہ کئی گھنٹوں انتظار کے بعد سہولت کا استعمال کر پاتے ہیں۔
جدید دور کے اس مواصلاتی سہولت کی معطلی کی وجہ سے عوام کو دنیا سے الگ کردیا گیا ہے۔
سری نگر میں کشمیر ایڈیٹرز گلڈ نے بھارتی حکام سے انٹرنیٹ سروسز کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’طاقتور ممالک تجارتی مفاد کے باعث مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خاموش ہیں‘
علاوہ ازیں اسلام آباد میں کشمیر لبریشن فرنٹ نے قومی پریس کلب کے باہر مقبوضہ کشمیر پر قبضے اور حریت رہنما یاسین ملک کی رہائی کے لیے احتجاج کیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ بھارت نے محمد یاسین ملک اور دیگر حریت رہنما کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔
خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد سے وادی میں زندگی مفلوج ہے اور ساڑھے 3 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کرفیو نافذ ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد اب وہاں بھارت کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد املاک خرید سکتے ہیں، نوکریاں حاصل کرسکتے ہیں جبکہ مقامی خواتین سے شادی بھی کرسکتے ہیں، اس سے قبل غیر مقامی شخص سے شادی کرنے کی صورت میں خاتون کا جائیداد کا حق ختم ہوجاتا تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بھاری تعداد اب بھی موجود ہے جبکہ حریت قیادت کے علاوہ دیگر سیاسی رہنما بھی تاحال قید میں یا نظر بند ہیں۔
بھارتی حکومت کی جانب سے وادی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ پر لگائی گئی پابندی بھی اب تک ہٹائی نہیں گئی البتہ لینڈ لائن بحال کردی گئی تھی۔