• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی، جسٹس عمر عطا بندیال

شائع November 27, 2019
منیر اے ملک نے کہا کہ میرا مدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری ضروری ہے—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
منیر اے ملک نے کہا کہ میرا مدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری ضروری ہے—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ اثاثہ جات کی برآمدگی کا یونٹ (اے آر یو) کو اداروں کی جانب سے 10 مئی کو دستاویزات موصول ہوئیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رولز آف بزنس میں تو اے آر یو کا ذکر نہیں۔

مزید پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو نے 10 سال کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے نجی تحقیقاتی کمپنی کی خدمات حاصل کیں اور ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی اے آر یو نے تحقیقات کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی جانب سے کسی شہری کے خلاف کوئی بھی اقدام قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 4 اس حوالے سے کہتا ہے کہ ریاست کوئی قدم اٹھائے گی تو اس کے پیچھے قانونی وجوہات ہوں گی۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کے لیے قانون کے سیکشن آف پاور کی ضرورت ہے اور شہری کوئی بھی ایسا قدم اٹھا سکتا ہے جو قانون کے خلاف نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی ادارے یا اہلکار صرف وہ اقدامات اٹھا سکتے ہیں جن کی قانون میں اجازت ہو۔

یہ بھی پڑھیں: 'جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اور اہلخانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں'

جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایکزیکٹو اتھارٹی ماورائے قانون کوئی اقدام نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو اور انتظامیہ کو اختیارات قانون ہی دیتا ہے اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کیس اعلیٰ عدلیہ کے جج کے مس کنڈکٹ سے متعلق تھا۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا اور اب کابینہ وزیراعظم کے ذریعے صدر کو ایڈوائس بھیجتی ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ میرا مدعا ہے کہ کابینہ کی منظوری ضروری ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ’آپ کہنا چاہتے ہیں کہ کابینہ معاملہ صدر کو بھیجتی ہے؟‘

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جج کے مس کنڈکٹ کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بجائے کابینہ کرے‘۔

منیر اے ملک نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا کیونکہ ریفرنس کی منظوری کابینہ دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے آر یو کے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹی فکیشن دیکھ لیں یہ جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف تحقیقات سے پہلے جاری ہوا یا بعد میں؟

منیر اے ملک نے کہا کہ تحقیقات پہلے شروع ہوئیں اور شہزاد اکبر نے ہی کروائیں اور پھر بعد میں وزیراعظم نے شہزاد اکبر کو اپنا معاون خصوصی تعینات کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر کو اختیار نہ تھا کہ جج کے مس کنڈکٹ کی تحقیقات کرے۔

جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اپنے اختیارات کسی کو دے سکتے ہیں؟

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

منیر اے ملک نے کہا کہ کسی بھی شخص کے خلاف اس وقت تک تحقیقات نہیں ہوسکتیں جب تک متعلقہ انتظامیہ اجازت نہ دے اور افتخار چودھری کیس میں اس قانون کا تعین ہوچکا۔

انہوں نے کہا کہ صدر کو اختیار حاصل ہے لیکن صدر کی جانب سے تحقیقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اے آر یو نے برطانیہ میں جج کی تحقیقات کے کیے نجی کمپنی کو رکھا، جس پر انہوں نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔

بعدازاں عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس 10 رکنی بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین احمد شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024