وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے استعفیٰ دے دیا
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا جس کو منظور کرلیا گیا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا کہ فروغ نسیم نے کابینہ اجلاس میں اپنا استعفیٰ پیش کیا جس کو منظور کرلیا گیا۔
شیخ رشید نے کہا کہ ‘فروغ نسیم کل قمر جاوید باجوہ کا کیس لڑیں گے اور ایم کیو ایم کے اتحادی وزیر اور پاکستان کے وزیر قانون کی حییثیت سے عمران خان اور اس کابینہ کے لیے انہوں نے بڑی خدمات دی ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اپنی خدمات کو پس پشت ڈال کر اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو دیا تاکہ وہ انورمنصور کے ساتھ مل کر کیس لڑیں گے اور استعفیٰ وزیراعظم نے قبول کرلیا ہے’۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا
اس موقع پر شہزاد اکبر نے کہا کہ ‘وزیرقانون صاحب نے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ اس لیے دیا ہے کہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے وہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے اور حکومت کا موقف کو واضح کرنے کے لیے رضاکارانہ استعفیٰ دیا ہے تاکہ اٹارنی جنرل کی معاونت کریں گے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب وہ معاونت پوری ہوجاتی ہے تو وزیراعظم کی منظوری سے واپس کابینہ میں شامل ہوٓسکتے ہیں’۔
وفاقی کایبنہ کے اجلاس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ایک وضاحت کہ رولز 17 اور 19 کے مطابق کابینہ اراکین کی طرف انکار نہیں ہے تو وہ ہاں تصور ہوگا، کابینہ کی طرف سے وقت دیا جاتا ہے اور اس میں 24 گھنٹے دیے گئے تھے اورباقی دستخط اگلے روز آئے تھے جو 19 ہیں تاہم 5 غیر حاضر تھے وہ ملک سے باہر ہیں’۔
فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کی معطلی کے بعد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں استعفیٰ پیش کیا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن کل تک کے لیے معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے وکیل ریاض حنیف راہی کے توسط سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر ہی درخواست گزار جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی اور اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرر کا اختیار نہیں توسیع کا ہے، یہاں سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرر کیا جارہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کب ریٹائر ہورہے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائر ہورہے ہیں، ساتھ ہی اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ آرمی چیف کی اس وقت عمر کیا ہے۔
عدالت میں جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ قانون میں توسیع کے لیے کوئی شق ہے، کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئیں، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن اپلائی کیا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر رہے ہیں، ساتھ ہی عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اس درخواست میں عدالت آرمی چیف کو فریق بنارہی ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کب ہوئی؟
یاد رہے کہ رواں سال 19 اگست کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی گئی تھی۔
وزیراعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر صحافی، سیاستدان کیا کہتے ہیں
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا۔
آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا۔
تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔
خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔