اسلام آباد ہائیکورٹ: سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست پر سیکریٹری قانون طلب
سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ روکنے کے لیے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اور وزارت داخلہ کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دونوں فریقین کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل لارجر بینچ نے کی۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں حکومت نے موقف اپنایا تھا کہ 'حکومت کو موقع ملنے اور نئی استغاثہ ٹیم کو تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے'۔
سماعت میں چیف جسٹس کا پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ بھی ہوا، جس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مشرف کے وکیل کو بیٹھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہم وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت کریں گے اور استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کیا کہتی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کیلئے حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست
جسٹس عامر فاروق نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ سپریم کورٹ کے حکم سے واقف ہیں؟ جس پر انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں مجھے سپریم کورٹ کی ہدایات کا نہیں معلوم۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے کہا تھا کہ پرویز مشرف پیش نہ ہوئے تو حق دفاع ختم ہو جائے گا، آپ کی درخواست دیکھی اُس میں صرف ایک پیرا گراف متعلقہ ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ کے حکام یہاں موجود ہیں؟ اور پھر وزارت داخلہ کے افسر کو روسٹرم پر بلا لیا گیا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل پرویز مشرف اشتہاری ہیں اور خصوصی عدالت کے حوالے سے دریافت کیا کہ اس وقت ٹریبونل کس کا ہے؟
جس پر وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ، جسٹس نظر احمد اور جسٹس شاہد کریم ٹریبونل میں ہیں۔
مزید پڑھیں: پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کا فیصلہ روکنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
سماعت میں جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ آیا وفاقی کابینہ نے اس (کیس) کی منظوری دی ہے؟ جس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ میں تمام ریکارڈ کی تصدیق کرکے عدالت کو آگاہ کروں گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو کیس کے حوالے سے اگر نہیں معلوم تو سماعت کیسے کریں گے، سابق صدر عدالتی مفرور ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ وزارت قانون سے تمام ریکارڈز منگوائے، بعدازاں عدالت کے 3 رکنی بینچ نے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کو ریکارڈ سمیت طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
یہ بات مدِ نظر رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کا سنگین غداری مقدمے میں فیصلہ روکنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی جسے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا تھا۔
خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست
واضح رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے محفوظ شدہ فیصلے کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے 25 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ عبوری ریلیف کے طور پر خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔
وزارت داخلہ نے موقف اپنایا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی شکایت مجاز فرد کی جانب سے داخل کرائی گئی تھی، اس معاملے کو بھی قانون کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے استدعا کی تھی کہ 'پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو فیصلہ دینے سے روکا جائے'۔
وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ 'سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، استغاثہ کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو بغیر اختیار کے مقدمے کی پیروی کی گئی'۔
حکومت کا کہنا تھا کہ 'کیس میں استغاثہ نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے جس کا اسے اختیار نہ تھا، خصوصی عدالت نے نئی استغاثہ ٹیم کو نوٹی فائی کرنے کا موقع دیے بغیر حتمی فیصلے کی تاریخ مقرر کر دی'۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 'وفاقی حکومت کو استغاثہ کو تبدیل کرنے کا اختیار ہے، خصوصی عدالت کا سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کا 19 نومبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے'۔
سنگین غداری کیس میں اب تک کیا ہوا؟
خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔
اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔
خصوصی عدالت میں غداری کے مقدمے کی کئی سماعتوں میں سابق صدر پرویز مشرف پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالت نے 14 مارچ 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے11 مئی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے بعد 19 جولائی کو ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
یاد رہے کہ 2018 کے اوائل میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
جس کے بعد رواں سال یہ معاملہ خصوصی عدالت میں زیر سماعت آیا تھا، جہاں 8 اکتوبر کو اس کیس کی 24 اکتوبر سے روزانہ سماعت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
تاہم کیس میں اہم موڑ تب آیا تھا جب 25 اکتوبر کو موجودہ حکومت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے میں سرکاری پراسیکیوٹر (استغاثہ) کی پوری ٹیم کو فارغ کردیا کیونکہ یہ ٹیم مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت میں بنائی گئی تھی۔