پان کھائے سیاں ہمارو
تحریر و تصاویر: اختر حفیظ
کھیت کھلیان، پگڈنڈیاں، ٹیڑھے میڑے راستے، کہیں جنگل تو کہیں صحرا یہ سب میرے سفر کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ اس بار مجھے ایسے کھیتوں کی تلاش تھی جہاں سے کچھ خاص پتّے چُنے جاتے ہیں اور یہ نہ صرف گھروں تک پہنچتے ہیں بلکہ بازاروں کی ان منزلوں تک بھی پہنچتے ہیں جہاں ان کے چاہنے والے ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
اس بار میرے سفر کی منزل پان کے کھیت تھے، جہاں پان کی پیداوار بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ ٹھٹہ سے گاڑھو شہر پہنچنے کے بعد پان کے کھیت نظر آنے لگتے ہیں۔ پورے ملک میں پان کی بہترین فصلیں یہیں پر ہوتی ہیں، لیکن پان کی کاشت اور پھر اس کا منڈی تک پہنچنے کا سلسلہ اتنا سیدھا اور سہل بھی نہیں جتنا ہمیں محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اس کے کئی مراحل ہیں۔
ان مراحل پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ برِصغیر میں صدیوں سے لوگ پان کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ آج یہ نہ صرف ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے ہیں بلکہ یہ ایک کاروباری صنعت کی شکل بھی اختیار کر گئے ہیں۔ لیکن پان کی تاریخ کیا ہے اور یہ کس طرح برِصغیر کے ماحول میں گھل مل گیا، اس کا اندازہ ہمیں تب ہوتا ہے جب پان کا ذکر نہ صرف ہمیں شاعری بلکہ فلمی گانوں میں بھی ملتا ہے۔ جیسے ریاض خیرآبادی کا شعر ہے کہ
تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے
جبکہ بھارتی فلموں کے یہ گیت بھی بڑے مقبول ہوئے
پان کھائے سیاں ہمارو
اور
کھئی کے پان بنارس والا، کھل جائے بند عقل کا تالا
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح پان ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ سا بن گیا ہے۔
برِصغیر میں پان کی آمد مغلیہ دور میں ہوئی۔ پان کو شہنشاہ جہانگیر کی اہلیہ ملکہ نورجہاں بھی چبایا کرتی تھیں۔ یہ سن کر شاید آپ کو حیرت ہوگی کہ انہوں نے تو اسے بطورِ علاج استعمال کیا۔
اس حوالے سے ایک قصہ بھی مشہور ہے۔ بادشاہ جہانگیر اپنی بیگم کے منہ کی بدبو کو بہت ناپسند کرتے تھے لہٰذا اس بیماری کے تدارک کے لیے برِصغیر کے نامور حکما کو دربار میں مدعو کیا گیا، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک نسخہ پیش کیا۔ انہی نسخوں میں پان کا پتّہ بھی شامل تھا جو پان کی شہرت کی وجہ بنا۔
پان کو بنانے کے لیے اس وقت جن خاص اجزا کا استعمال کیا گیا ان میں چھوٹی الائچی، لونگ، چونا یا کیلشیم، کتھا، میٹھی لونگ (جو دانتوں اور مسوڑوں کی حفاظت کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے) بھی شامل کی گئی۔ پان کے دیگر اجزا میں چھالیہ کے چند دانے (جو پیٹ کے کیڑے مارنے کے لیے فائدہ مند ہے)، سونف اور ناریل (جو دماغی قوت کو دوام دیتا ہے) بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ چند عقائد بھی پان سے جڑے ہیں۔ بہار میں دولہا دلہن کے ایک ہونے کی علامت کے طور پر وہ اپنے خون کا قطرہ پان پر ٹپک کر ایک دوسرے کو دیتے ہیں، اس کا مطلب ہوا کہ جب ایک دوسرے کا خون آپس میں مل گیا تو وہ ایک ہوگئے۔
جبکہ ہندو مت کے مطابق بھگوان کرشنا بھی پان کھاتے تھے اور ان کے ہونٹ سرخ رہتے تھے۔ پان بیچنے والوں کو تنبولن بھی کہا جاتا ہے، بلکہ ماضی میں عورتیں ہی پان بیچا کرتی تھیں، پھر جب یہ مارکیٹ آئٹم بن گیا تو پان بیچنے والے پنواڑی بھی کہلانے لگے۔ جبکہ تنبولن کی ایک معنی پان بیچنے والے کی بیوی کے بھی ہیں۔
پوچھا میں تنبولن سے دکان پر یہ جا
دل پھیر نہ پان کی طرح سے اپنا
میٹھے پان میں چھالیہ، گل قند، پسا کھوپرا، سبز الائچی، سونف، مختلف رنگ برنگے مصالحے استعمال کیے جاتے ہیں اور اگر کوئی خاص موقع ہو تو چاندی کے ورق بھی لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ اکثر خواتین میٹھا پان ہی کھاتی ہیں، اور جو لوگ اپنے منہ اور دانتوں پر کتھے کا رنگ نہیں چاہتے وہ سلیمانی پان کھاتے ہیں۔ سلیمانی پان میں کتھا اور چونا نہیں لگایا جاتا۔
مگر اب ہمارے ہاں پتی والا پان بھی خوب کھایا جاتا ہے اور آج میٹھے پان کھانے والوں کی نسبت پتی والا پان کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لیے اس پان کی وجہ سے بہت سے لوگ منہ کے کینسر کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔
چلیں، ان ابتدائی باتوں کے بعد اصل مدعے کی طرف آتے ہیں یعنی پان کی کاشت اور اسے بازار تک پہنچائے جانے کے مرحلے کی۔
پان کی کاشت
گاڑھو سندھی زبان میں سرخ رنگ کو کہا جاتا ہے اور اتفاق سے اسی شہر میں سرخ دانتوں والے لوگ جابجا نظر آتے ہیں، ظاہر ہے پان کے شوقین جو ٹھہرے۔
کاشف میمن ایک کاروباری نوجوان ہیں اور ان کے پان کے کھیت بھی ہیں۔ ان کے پان کے کھیت گاڑھو شہر کے مضافات میں ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پان کی کاشت کرنے کے لیے پہلے چھاپرا تیار کیا جاتا ہے، یہ چھاپرا خاص پتوں سے بنی چٹایوں اور لکڑیوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ جس میں لکڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے پان کی بیل ان پر سانپ کی مانند چڑھتی جاتی ہے۔
وہ ایک سرسبز علاقہ تھا، ہر جانب درخت اور جھاڑیاں تھیں۔ میں ایک چھوٹی سی پانی کی نہر کا کنارا لے کر ان کھیتوں تک جا رہا تھا، جس کے عقب میں ہی کیلوں کے باغات تھے۔ چہارسو سبزہ ہی سبزہ تھا۔ چھوٹی سی پگڈنڈی راستے کا پتا دے رہی تھی۔ حالانکہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہوتی ہے مگر وہاں کی زمینوں کو آباد دیکھ کر دل میں ایک خوشی کی لہر سی دوڑنے لگی۔ میرے بدن کو ٹھنڈک کا احساس ہو رہا تھا۔ ایک پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے ہم پان کے ان کھیتوں تک جا پہنچے جہاں ہر جانب ہرے بھرے پتّے تھے اور کہیں کہیں نئی کونپلیں ابھی زندگی پانے والی تھیں۔
پان کی فصل پورے سال ہی ہوتی ہے، لیکن بہار کا موسم پان کے لیے بہترین ہوتا ہے۔ سندھ میں ٹھٹہ کی ساحلی پٹی میں 4 سے 5 ہزار کے قریب ایسے چھاپرے ہیں، جہاں آج بھی پان کاشت کیا جاتا ہے۔
ایک ایکڑ چھاپرے میں 450 لکڑیاں لگتی ہیں۔ ایک چھاپرے کی لمبائی اور چوڑائی 120 بائے 60 فٹ ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس کا کوئی بیج نہیں ہوتا بلکہ بیل کو پودے میں تبدیل کیا جاتا ہے جوکہ پہلے گملے میں ہوتا ہے، جہاں تھوڑا بڑا ہوجانے پر اسے زمین میں لگا دیا جاتا ہے۔
ہفتے میں 2 بار پان کے پتوں کو چنا جاتا ہے۔ ایک ایکڑ میں 150 کلو پان کی پیداوار ممکن ہوسکتی ہے جسے ان کی اقسام کے مطابق 200 سے 2 ہزار روپے فی کلو تک فروخت کیا جاسکتا ہے۔
ان دنوں سندھ میں گٹکے پر پابندی لگنے کے بعد پان کی کھپت میں کافی اضافہ ہوا ہے اور یوں اس کی قیمت بھی کافی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سندھ میں 3 اقسام کے پان اگتے ہیں، جن میں سیلون، پاکستانی اور سانچی شامل ہیں۔ ان سب میں سیلون کا پان بہترین سمجھا جاتا ہے۔
کاشف میمن کافی عرصے سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی محنت طلب کام ہے اور ذرا سی بھی لاپرواہی پان کے کاروبار کو سخت متاثر کرسکتی ہے، لہٰذا فصل پر 24 گھنٹے توجہ دینے کے ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب ان کے علاقے میں زیادہ تر سرائیکی بیلٹ کے لوگ پان کی کاشت کرتے ہیں اور یہ علاقہ کاروباری لحاظ سے بہت زرخیز ثابت ہورہا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی معاشی حالت بھی کافی بہتر ہوگئی ہے۔ مگر وہ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں کے مقامی لوگ پان کی فصل کی کاشت میں اب زیادہ دلچسی نہیں لیتے۔
الہ بچایو اور ایاز بلوچ کافی وقت سے پان کی کھیتوں میں مزدوری کر رہے ہیں، جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس سے ملنے والی رقم کی چوتھائی مزدوروں کو دی جاتی ہے، جبکہ بقیہ رقم سے پان کی کاشت اور رسد کے اخراجات بھی مالک کے ذمے ہوتے ہیں۔
الہ بچایو کا کہنا ہے کہ پان کے پتّے کافی نازک ہوتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال اگر بہتر انداز سے نہ کی جائے تو وہ جلدی سڑ جاتے ہیں، اس لیے زمین میں نمی ہونی چاہیے اور اس کے علاوہ پانی بھی وقت پر دینا لازمی ہے۔ ان کے مطابق پانی 15 دن سے ایک مہینے میں دیا جاتا ہے۔
سندھ کے اس حصے میں پان کی فصل گاڑھو، جالو، بگھان، اداسی، سجن والی، جور، ڈھانڈاری، کھتھو اور میران سمیت دیگر شہروں میں ہوتی ہے۔
پان کو منڈیوں تک کیسے پہنچایا جاتا ہے؟
بیج بونے سے لے کر پتّہ اُگنے اور پتّے چُننے سے لے کر پان کے شوقین کے منہ میں جانے تک، اس کی رسد کے جو مراحل ہیں وہ بھی کافی دلچسپ اور محنت طلب ہیں۔ اس سلسلے میں پان کے کھیتوں سے ہفتے میں 2 دن گاڑیاں پان کے پتّے لیکر مختلف منڈیوں کی جانب روانہ ہوتی ہیں۔ پان کے پتّے منگل اور جمعہ کے روز چُنے جاتے ہیں، جن میں ایک نمبر (سائز میں بڑے)، دو نمبر (سائز میں چھوٹے) اور باقی خستہ حال پتّے ہوتے ہیں، ان سب کو الگ الگ کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد انہیں 5، 5 کلو کی پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھرا جاتا ہے، مگر ان میں بھرنے سے قبل ان پر پانی چھڑکنا لازمی ہوتا ہے تاکہ انہیں سڑنے سے بچایا جاسکے۔
منڈی تک رسائی کے لیے کھیتوں سے گاڑی یا سوزکی پک اپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جن میں 15 سے 20 تھیلیاں آرام سے بھری جاسکتی ہیں۔ یہاں سے پان کے پتّے سندھ کے 3 بڑے شہروں کی منڈیوں کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹہ میں پہنچتے ہیں۔ کراچی میں لی مارکیٹ پان کی منڈی ہے، حیدرآباد میں ٹاور مارکیٹ جبکہ ٹھٹہ میں شاہی بازار بڑی منڈی ہے۔ جہاں سے پان کے پتّوں کی رسد دیگر دکانوں اور کیبنوں تک کی جاتی ہے۔
جب یہ پتّے ان بڑی منڈیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں بھی انہیں تازہ دم رکھنے کے لیے ٹوکریوں میں پانی سے بھرپور کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے۔ یہ کام اس لیے بھی بہت نازک ہے کیونکہ منڈی پہنچنے کے بعد یہ پتّے مزید محض 2 سے 3 تک ہی استعمال کے قابل رہتے ہیں، اور اس کے بعد پھر یہ سڑنے لگتے ہیں۔
اب بالفرض جن شہروں میں باقاعدہ منڈی کی سہولت نہیں ہے وہاں دلال یا بروکر شہروں میں پان کی رسد کا کام خود کرتا ہے، مگر چند تاجر ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھیتوں سے ہی براہِ راست پان اٹھاتے ہیں، انہیں منڈی جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
میرے لیے پان کے کھیتوں سے سجی یہ دنیا ایک نئی دنیا تھی، جہاں ہرے بھرے مہکتے پان کے پتّے آنکھوں کو بھا رہے تھے۔ میں صرف یہ سوچنے لگا یہ ایک خوشبودار پان جو اتنی آسانی سے ہمارے ہاتھوں تک پہنچتا ہے، اس کی افزائش کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اور اس کا سہرا کاشف جیسے زمیندار، الہ بچایو اور ایاز جیسے مزدوروں کو جاتا ہے جو پان کلچر کو آج بھی سہارا دیے ہوئے ہیں۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (14) بند ہیں