• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

لندن میں سوئس ماہر امراض قلب کا نواز شریف کا معائنہ

شائع November 23, 2019
نواز شریف 19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
نواز شریف 19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لندن: شریف خاندان کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاج کے لیے سوئس ماہر امراض قلب نے ان کا معائنہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر الرچ سگوارٹ، ایوارڈ یافتہ کارڈیالوجسٹ (ماہر امراض قلب) ہیں جو ویسکیولر اسٹنٹس اور ان کے استعمال میں اپنے اہم کردار کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

شریف خاندان کئی برسوں سے ڈاکٹر الرچ سگوارٹ سے علاج کروا رہا ہے اور وہ میاں شریف (نواز شریف کے والد) کے ڈاکٹر بھی رہ چکے ہیں۔

ادھر لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا کہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کا معائنہ کیا تھا اور اب وہی مزید تجاویز دیں گے۔

مزید پڑھیں: لندن میں نواز شریف کے مرض کی تشخیص کیلئے مختلف ٹیسٹ

شہباز شریف نے بتایا کہ نواز شریف کی 7 ہارٹ انٹروینشنز ہوچکی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'نواز شریف کے کچھ ٹیسٹس ہوئے ہیں اور دیگر آئندہ چند روز میں ہوں گے'۔

نواز شریف کی طبیعت سے متعلق سوال پر شہباز شریف نے کہا کہ ان کے علاج اور صحت یابی کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کمزوری محسوس کررہے تھے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز نے کہا تھا کہ نواز شریف کو دوران علاج انجائنا کی تکلیف ہوئی تھی جس کی تصدیق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی کی تھی۔

نواز شریف اس وقت پارک لین میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام پذیر ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بیٹے حسن نواز، حسین نواز، بیٹی اسما نواز اور بھائی شہباز شریف موجود ہیں۔

خیال رہے کہ 20نومبر کو لندن پہنچنے کے بعد اگلے روز نواز شریف کو ہسپتال لے جایا گیا تھا جہاں علاج سے قبل ان کے متعدد ٹیسٹ کیے گئے تھے جن کے رپورٹ تاحال نہیں آئی۔

نواز شریف کی خرابی صحت سے روانگی تک

واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کو صحت کی تشویشناک صورتحال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی خون کی رپورٹس تسلی بخش نہیں اور ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے تھے۔

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس نے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے تاہم ڈاکٹر طاہر شمسی نے مزید تفصیلات فرہم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کی بیماری کی تشخیص ہوگئی ہے، ان کی بیماری کا نام ایکیوٹ امیون تھرمبو سائیٹوپینیا (آئی ٹی پی) ہے جو قابلِ علاج ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک ہے جبکہ نیب نے بھی علاج کی صورت میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا جس پر عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانت مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

بعدازاں شہباز شریف کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر کو العزیزیہ ریفرنس میں 3 روز کی ضمانت منظور کرلی تھی جس کی 29 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ان کی سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ مزید مہلت کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

بعدازاں صحت بہتر ہونے کے بعد نواز شریف نومبر ہسپتال سے اپنی رہائش گاہ جاتی امرا منتقل ہوئے جہاں انہیں گھر میں قائم آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔

8 نومبر کو شہباز شریف وزارت داخلہ کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی تھی جس کے بعد حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا اعلان کیا جس کے تحت روانگی سے قبل انہیں 7 ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈز جمع کروانے تھے۔

تاہم حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط پر بیرونِ ملک سفر کی پیشکش کو قائد مسلم لیگ (ن) نے مسترد کردیا تھا اور نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

عدالت نے شہباز شریف سے سابق وزیراعظم کی واپسی سے متعلق تحریری حلف نامہ طلب کیا اور اس کی بنیاد پر نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد 18 نومبر کو وزارت داخلہ نے نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی کے لیے گرین سگنل دیا تھا۔

جس کے بعد وہ 19 نومبر کو قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن پہنچے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024