بیت الخلا کا ذکر بُرا نہیں، بلکہ بیت الخلا کا نہ ہونا بُرا ہے
اقوام متحدہ نے جب 19 نومبر کو بطور عالمی یومِ بیت الخلا منانے کا اعلان کیا، تو اس سے تقریباً 9 سال پہلے یعنی 2004ء میں مجھے ممبئی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ورلڈ سوشل فورم منعقد ہورہا تھا۔ پورٹ سٹی میں دوسرے روز صبح سویرے جب ہمارے دیگر ساتھی سو رہے تھے تب پاکستانی وفد میں شامل ربعیہ اور میں نے ساحلِ سمندر جانے اور وہاں سیر کرنے کا فیصلہ کیا۔
جب ہم ریتیلے ساحل پر پہنچے تو وہاں بہت ہی بدنما نظارہ دیکھنے کو ملا۔ عین ساحل پر ماہی خور پرندوں کے جھنڈ ساحل کے پانیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ابھی پوری طرح سمجھ ہی نہیں پائی تھی کہ ربیعہ نے کراہت آمیز آواز کے ساتھ مجھے متوجہ کیا۔ پھر میں نے اپنی کمزور نظر سے دیکھا کہ وہ درحقیقت ماہی خور پرندے نہیں بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں رفع حاجت کے لیے بیٹھے مرد تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
اب چونکہ پائیدار ترقی کے مقصد نمبر 6 کے مطابق ’2030ء تک حفظانِ صحت کی سہولیات فراہم کرنی ہیں‘ اس لیے بیت الخلا سے جڑے مسائل حکومتوں کے ایجنڈوں کا حصہ بن چکے ہیں اور اب انہیں زیادہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
میرے لیے یہ بات اس لیے بھی باعثِ مسرت ہے کیونکہ ماضی میں جس بیت الخلا کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا تھا، اب اسی بیت الخلا کا اقتدار اور مراعات کے تحرکات (dynamics) سے قریبی رشتہ جڑ چکا ہے۔ ویسے بھی کیا ایسا نہیں ہے کہ غریب کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں؟ کیا یہ بات درست نہیں کہ ان کی خواتین رفع حاجت کی غرض سے کھیتوں میں جانے کے لیے دن ڈھلنے کا انتظار کرتی ہیں؟
اب جبکہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، اس لیے مجھے بمبئی کے ساحلوں پر رفع حاجت کے لیے آنے والے مردوں اور دنیا کے 2 ارب 40 کروڑ افراد کا خیال آتا ہے جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔
برطانوی فلاحی ادارے واٹرایڈ کے مطابق ان افراد میں سے 70 کروڑ افراد اپنی شرمندگی کو دباکر، وقار کو مجروح کرکے اور لاچارگی کے احساس کے ساتھ کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ صحت عامہ سے جڑا ایک مسئلہ ہے اور افسوس کے ساتھ پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مناسب بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً 4 کروڑ افراد کھلے میں اس فطری عمل کو انجام دیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے ہاں وبائی امراض کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہے، جن میں سے ایک پولیو بھی ہے۔
اس معاملے میں بھی ہماری ناکامی کی اہم وجہ وہی ہے جو بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے، بچوں کو تعلیم اور عوام کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی اور ان سے سب سے بڑھ کر ہر ایک کو سماجی تحفظ دینے جیسے دیگر معاملات میں ناکامیوں کی وجہ رہی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ عوام کو آئینی، سیاسی اور قانونی رو سے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے ہمارے رہنماؤں میں مطلوبہ سیاسی عزم کا نہ ہونا ہے۔ کیونکہ جب بھی کوئی حکمران جو سماجی ضمیر رکھتا ہے اور اپنے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہر حال میں یقینی بنائے گا کہ یہ ضروریات ٹھیک ٹھیک انداز میں پوری کی جا رہی ہوں۔
پھر یہ طبقاتی مسئلہ بھی ہے۔ دولت مند مراعات یافتہ طبقہ اگر چاہے تو اس معاملے میں مدد فراہم کرسکتا ہے لیکن تاحال اس نے کوئی مدد نہیں کی ہے۔ ورنہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بیت الخلا کی تعمیر آسان اور سستا عمل ہے۔
ویسے یہ بھی کہنا غلط ہوگا کہ اس سمت کوئی کوشش ہوئی ہی نہیں۔ ریٹائرڈ سول سرونٹ تسنیم صدیقی، جو سندھ کچی آبادی اتھارٹی (ایس کے اے اے) کی ڈائریکٹر جنرل رہ چکی ہیں، انہوں نے کراچی میں اس حوالے سے کئی کوششیں کیں لیکن وہ زیادہ کامیاب نہ ہوئیں۔ ایک طرف اسپانسر یا تعاون کرنے والی کاروباری شخصیات نے اس حوالے سے دلچسپی لینا چھوڑ دی تو دوسری طرف ڈی جی ایس کے اے اے بھی عہدے سے ریٹائرڈ ہوگئیں، یوں یہ منصوبے بھی قصہ پارینہ بن گیا۔
اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملکوں نے بڑی تعداد میں عوامی بیت الخلا تعمیر کرکے اس سمت میں اچھا کام کیا ہے اور اسی وجہ سے ان کی صحت عامہ میں بھی بہتری آرہی ہے۔ بھارت گزشتہ 5 برسوں کے دوران 12 کروڑ عوامی بیت الخلا تعمیر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی اس سمت میں قابلِ ذکر بہتری دکھائی ہے۔
اس معاملے میں سب سے اہم اور حقیقی مسئلہ رویوں کا ہے۔ اگرچہ بیت الخلا کی صفائی یا گندگی لوگوں کی صحت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، لیکن انہیں صاف کرنا تو چھوڑیے بیت الخلا کا موضوع ہی نازیبا تصور کیا جاتا ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمس) کی ایک استاد غزل ذوالفقار نے مجھے چند برس قبل بتایا تھا کہ کس طرح ایک بار انہوں نے کورس پراسپیکٹس میں بیت الخلا کو ایک ایسی جگہ کے طور پر بیان کیا تھا جہاں طبقہ، آمدن اور نسلی عدم مساوات ڈرامائی انداز میں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے کئی طلبا (ان سب کا تعلق اشرافیہ طبقے سے ہے) نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انہوں نے نہ تو کبھی اپنی زندگی میں بیت الخلا کی صفائی کی ہے اور نہ ہی اس خاتون سے کبھی بات چیت کی ہے جو گھر یا کسی عوامی مقام پر بیت الخلا کی صفائی کرتی ہے۔
پھر ایک ایسے ملک میں جب نعیم صادق جیسا ایکٹوسٹ حکومت کو 2025ء تک 10 لاکھ بیت الخلا کی تعمیر کرنے اور ہر فرد کی بیت الخلا تک رسائی کو ممکن بنانے open defecation free’ (ODF) Pakistan کی تجویز پیش کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے چاند توڑ لانے کی خواہش کا اظہار کررہا ہو۔
یقیناً پائیدار ترقی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مقصد نمبر 6 اس معاملے کو سنجیدہ لینے پر مجبور کرسکتا ہے لیکن اس سے بھی پہلے ہمیں اپنے رویے بدلنا ہوں گے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب اساتذہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اس مہم کا حصہ بنیں اور نوجوانوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔
غزل نے مجھے بتایا کہ ٹوائلٹ پراجیٹ کے آغاز کے 3 برس بعد جب انہوں نے طلبا سے فیڈ بیک سروے کیا تو یہ پایا کہ اب طلبا کی ایک بڑی تعداد نے گندگی صاف کرنے والے ملازمین سے بات چیت کرنا شروع کردی ہے اور وہ ان کے کام کو سراہتے بھی ہیں۔
یقیناً پاکستان کو غزل جیسے زیادہ استاد مطلوب ہیں۔
یہ مضمون 22 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔