پولیو کیسز میں اضافے کے پسِ پردہ سیاسی وجوہات کارفرما ہیں، عالمی ادارہ
لاہور/اسلام آباد: صحت کے عالمی فورم پر پاکستان کے سیاسی مسائل کو موضوع بحث لاتے ہوئے بین الاقوامی مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے کہا ہے کہ ’ملک میں پولیو پروگرام اور انسداد پولیو ویکسین دینے کا عمل سیاسی فٹ بال بن چکا ہے‘۔
آئی ایم بی وہ ادارہ ہے جو عالمی سطح پر پولیو کا پھیلاؤ روکنے کے لیے گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو (جی پی ای آئی) کی کارکردگی کا آزادانہ جائزہ لیتا ہے، جس کے مطابق پاکستان میں پولیو میں اضافے کے پسِ پردہ سیاسی نا اتفاقی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی تازہ رپورٹ میں آئی ایم بی کا کہنا تھا کہ ’2018 کے اوائل میں پاکستان کا پولیو پروگرام پولیو وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے دہانے پر تھا‘۔
تاہم صرف ایک سال کے عرصے کے دوران ملک میں اس بیماری کی صورتحال نے پولیو کا پھیلاؤ روکنے والے عالمی پروگرام کے اندازوں کو پلٹ کر رکھ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پولیو کے خاتمے کی راہ میں خیبر پختونخوا بڑی رکاوٹ
آئی ایم بی نے ستمبر 2019 کی انسداد پولیو مہم پر بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا جس میں بچوں کی سب سے بڑی تعداد ویکسینیشن سے محروم رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں پولیو نے 2018 کی تیسری سہ ماہی میں دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا اور صورتحال 2019 کی دوسری سہ ماہی میں مزید سنگین ہوگئی جب صرف 3 ماہ کے عرصے میں 38 کیسز سامنے آئے۔
آئی ایم بی کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وبا کی صورتحال انتہائی سنگین اور تشویشناک ہے، دنیا بھر میں سامنے آنے والے 80 فیصد پولیو کیسز پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں 90 فیصد روایتی بنیادی ذخائر سے باہر پائے گئے۔
ادارے نے اب تک پاکستان کے لیے کارآمد اور مثبت تنقید کی ہے تا کہ تکنیکی خامیوں کو دور کیا جائے اور اس پروگرام کو مضبوط بنایا جائے لیکن کمیٹی کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں پولیو کے پھیلاؤ کی صورتحال پر انتہائی سخت مذمت اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بچوں کے معالجین نے انسدادِ پولیو مہم کے طریقہ کار کو ’ناقص‘ قرار دے دیا
رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں پولیو پروگرام ملک کے لیے ایک مثال کے بجائے موجودہ بحران کی علامت کی صورت اختیار کرگیا اور یہی صوبہ عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی میں پولیو کا پھیلاؤ ہر جگہ موجود ہے جبکہ پنجاب میں بھی ہر مقام پر انسداد پولیو پروگرام کی خرابی کے آثار موجود ہیں۔
آئی ایم بی کے تجزیے میں یہ بات سامنے آئی کہ گزشتہ 8 برسوں میں پولیو سے معذوری کے 89 فیصد کیسز پشتو بولنے والے خاندانوں میں سامنے آئے جبکہ جی پی ای آئی کسی اہم پیش رفت کے موقع پر ان حیرت انگیز اعداد و شمار میں خاص دلچسپی نہیں لیتا۔
رپورٹ میں یہ سوال بھی کیا گیا کہ ’اگر سیاسی رہنما متضاد بیانات دیں گے تو پاکستانی عوام کس طرح اس بات پر یقین کریں گے کہ انسداد پولیو پروگرام ان کے مفاد میں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں پولیو وائرس کی معدوم قسم کے 7 کیسز کی تشخیص
ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ اکتوبر 2019 تک پاکستان میں 77 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں جبکہ افغانستان میں صرف 19 کیسز سامنے آئے جبکہ گزشتہ برس پاکستان میں یہ تعداد 6 تھی اور افغانستان میں 19 بچے اس سے متاثر ہوئے تھے۔
اس ضمن میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت صحت کے عہدیدار نے کہا کہ پولیو کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کی گئی ہے، جس میں پولیو پروگرام کے سابق سربراہ کی دوبارہ تعیناتی بھی شامل تھی۔
خیال رہے کہ اب تک ملک میں 88 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں، گزشتہ برس 12 جبکہ 2017 میں صرف 8 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ان 88 کیسز میں سے 64 خیبرپختونخوا، 10 سندھ، 7 بلوچستان اور 5 کیسز کا تعلق پنجاب سے ہے۔