• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

امل کیس:'سندھ ہیلتھ کمیشن کا غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو محکمے کو ختم کردیں گے'

شائع November 19, 2019 اپ ڈیٹ February 11, 2020
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ  کیا 2 دن کی تربیت کا عمل کافی ہے؟ — فائل فوٹو: بینش عمر
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کیا 2 دن کی تربیت کا عمل کافی ہے؟ — فائل فوٹو: بینش عمر

سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بچی امل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہیلتھ کمیشن کے چیئرمین کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر کوئی غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو پورے محکمے کو ختم کردیں گے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ حکومت سندھ اور وزیراعلیٰ کی جانب سے متاثرین کو معاوضہ دینے کی پالیسی کے مطابق امل عمر کے والدین کو معاوضہ دینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

دوران سماعت امل عمر کے والدین کے وکیل نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جو معاوضہ دیا جارہا ہے اسے قبول کرنا امل کے والدین کے لیے شرمناک ہوگا۔

جس پر دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ جن پولیس اہلکاروں کی وجہ سے امل کی جان گئی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، اس پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سید کلیم امام نے کہا کہ ان اہلکاروں کو معطل کرکے ان کے خلاف مقدمے کا اندراج ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: امل ہلاکت کیس: معذرت چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو ختم نہیں کرسکا، چیف جسٹس

آئی جی کے جواب پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ' جن کی غفلت سے بچی کی جان گئی کیا انہیں صرف معطل کردینا کافی ہے؟'، ساتھ ہی کہا کہ 'پولیس رپورٹ میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہیں آئے گا، اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہلکاروں کی تربیت کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے'۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ' کیا 2 دن کی تربیت کا عمل کافی ہے؟ پولیس والے 2 دن میں کتنا کچھ سیکھ جائیں گے؟'

عدالتی ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ تربیت کا عمل کچھ عرصے بعد جاری رہے گا۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے عدالت میں موجود چیئرمین سندھ ہیلتھ کمیشن کی بھی سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ' عدالتی حکم کے بعد آپ کے لوگ، لوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، اگر آپ کی جانب سے کوئی غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو پورے محکمے کو ختم کردیں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: امل ہلاکت کیس: تحقیقاتی کمیٹی نے پولیس رپورٹ کے جائزے کےلیے مہلت مانگ لی

جسٹس گلزار احمد نے مزید ریمارکس دیے کہ ' آپ لوگوں کے خلاف سنگین الزامات ہیں، اگر وہ ثابت ہوئے تو عدالت کوئی رعایت نہیں برتے گی'۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ ہیلتھ کمیشن نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے اور عدالت سے دوسری جامع رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دینے کی درخواست کی ہے۔

جس پر سپریم کورٹ نے سندھ ہیلتھ کمیشن کو رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ لیے ملتوی کردی۔

امل کیس

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران امل عمر کو گولی لگی تھی۔

بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔

امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) منتقل کیا تھا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھی۔

مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا ہسپتال انتظامیہ نے بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امل کیس: مبینہ پولیس مقابلے کے بعد فرار ہونے والا ملزم گرفتار

اس واقعے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ’ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں‘۔

بعد ازاں عدالت نے امل کیس کی تحقیقات کرنے کے لیے سابق جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے رپورٹ طلب کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024