پاکستان: مذہبی سیاحت کا ان دیکھا، ان سنا خزینہ
کرتارپور راہداری کا افتتاح بالآخر ہو ہی گیا، تعریف اور تنقید کا ایک طوفان سرحد کی دونوں جانب اُٹھا۔ کچھ کے لیے یہ فیصلہ اچھا اور بہت سوں کے لیے قابلِ تنقید ٹھہرا۔
تاہم اگر سکھ برادری کی نظروں سے دیکھا جائے تو 9 نومبر 2019ء کا یہ دن ان 14 کروڑ افراد کی زندگی میں ایک نئے رنگ اور خوشگوار ڈھنگ کے ساتھ طلوع ہوا اور انہوں نے وہ نظارہ دیکھا جس کے انتظار میں ان کی 2 نسلیں مٹی اوڑھ کر پیوندِ خاک ہوئیں۔
ایک ایسے وقت میں جب ایک طرف بھارتی عدالت کی جانب سے بابری مسجد کے حوالے سے متنازع اور ناقابلِ قبول فیصلہ سامنے آیا تب دوسری طرف پاکستان نے اپنی باہیں کھول کر سکھوں کو اپنی زمین پر خوش آمدید کہا اور دنیا پر واضح کردیا کہ خطے میں امن اور استحکام کس ملک کی ترجیح ہے۔
ضلع نارووال میں واقع گردوارہ دربار صاحب کرتارپور سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18 سال گزارے۔ یہیں ان کی قبر اور سمادھی ہے جو سکھوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس مقام کا درجہ رکھتی ہے۔
یہ گردوارہ ضلع نارووال تحصیل شکر گڑھ کے ایک گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی طرف واقع ہے۔ سرحد کے اس پار عین گردوارے کی سیدھ میں سکھ یاتری ’درشن ستھل‘ قائم کیے ہوئے ہیں جہاں سے وہ علی الصبح اپنی عبادات کا آغاز دُور بینوں کے ذریعے گردوارے کے درشن سے کیا کرتے تھے لیکن اس راہداری کے کھلنے سے اب وہ اس مقدس مقام تک خود چل کر درشن کے لیے آسکیں گے۔
پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات
پاکستان میں سکھوں کے دیگر مقدس مقامات میں پنجہ صاحب حسن ابدال، ڈیرہ صاحب لاہور اور جنم استھان ننکانہ صاحب شامل ہیں۔ کرتارپور راہداری کے حوالے سے پہلی بار 1998ء میں بات چیت ہوئی تھی لیکن دونوں ممالک کے بنتے بگڑتے تعلقات نے اس مشاورت کو کسی ٹھوس عمل سے دُور رکھا لیکن 20 برس بعد بالآخر یہ معجزہ ہو ہی گیا۔
اس راہداری کے کھلنے سے مذہبی بھائی چارے اور سکھ برادری سے قربتوں کا آغاز تو ہوا لیکن ساتھ ساتھ اس کو پاکستان میں مذہبی سیاحت کی باقاعدہ ابتدا بھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں سکھ، بدھ، ہندو اور جین مذہب کے اہم اور مقدس مقامات موجود ہیں۔ اگر ہم اس حوالے سے کوئی منظم حکمتِ عملی بنالیتے ہیں تو یہ اربوں بلکہ کھربوں ڈالرز کی صنعت ثابت ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں واقع بدھ مت کے دیگر مقدس مقامات
اگر بدھ زائرین کی بات کی جائے تو پاکستان ان کے لیے زمین پر کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ یہ پاک سرزمین بدھ مت کی شاندار خانقاہوں، یونیورسٹیوں اور اسٹوپوں سے بھرپور ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے علاقے اس اعتبار سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
یہاں عالیشان اور صدیوں پرانے بدھ کے مجسمے، کنندہ چٹانیں اور اسٹوپا موجود ہیں۔ تاریخ میں درج ہے کہ گوتم بدھ کی خاک 8 اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی تھی جسے بعد میں اشوک اعظم نے اس وقت کی سلطنت کے تمام بڑے شہروں میں اسٹوپے تعمیر کروا کر ان میں یہ خاک محفوظ کردی تھی۔ یوں یہ خاک 84 ہزار اسٹوپوں میں رکھی گئی۔ ایسے کئی اسٹوپے سوات اور ملک کے دیگر علاقوں میں موجود ہیں اور ہمیں بھی بہت سے اسٹوپا دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
کہتے ہیں کہ سوات نے بدھ مت کا عروج دیکھا ہے۔ دورِ ماضی میں دریائے سوات کے کنارے پر سیکڑوں خانقاہیں قائم تھیں جن میں ہزاروں طلبا علم حاصل کرتے تھے۔ ایک چینی سیاح سنگ یون نے لکھا کہ ‘رات کے سمے خانقاہوں میں بجتی گھنٹیوں سے فضا گونج اٹھتی تھی‘۔
بدھ مت سے متعلق گندھارا آرٹ نہ صرف ایک فن ہے جو گوتم بدھ کے پتھروں کو عالیشان مجسموں میں ڈھالتا نظر آتا ہے بلکہ یہ ایک عظیم تہذیب کا آئینہ دار بھی ہے۔ یہ فن پہلی تا 7ویں صدی اپنے کمال پر رہا۔
گلگت بلتستان میں بدھ مت 7ویں صدی کے دوران پہنچا، یہاں بدھ مذہب کے متعدد آثار ملتے ہیں جن میں اسکردو کے قریب واقع منتھل میں بدھا کی چٹان اور ہنزہ کی چٹان خاص اہمیت رکھتی ہیں۔
منتھل بدھا راک
حال ہی میں ہم نے اسکردو سے تقریباً 3 کلومیٹر دُور ہمالیہ پہاڑوں میں منتھل کے مقام پر ایک شاندار چٹان دیکھی جس پر گوتم بدھ اور ان کے چیلوں کی تصاویر کندہ تھیں۔ یہ چٹان 9ویں صدی میں کندہ کی گئی تھی، اس چٹان پر گوتم بدھ کو اپنے پیروکاروں کے بیچ حالت مراقبہ میں دکھایا گیا ہے۔ اس چٹان کے قریب ہی ایک غار موجود ہے جہاں بدھ مت کے پیروکار اب بھی نروان کے لیے مراقبہ کرتے ہیں۔
یہ یقیناً ایک تاریخی ورثہ ہے لیکن لوگ یہاں بھی جاکر اس چٹان کو توڑنے اور تصاویر پر کالک مَلنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بچنے کی خاطر ایک چار دیواری میں اس چٹان کو محفوظ کردیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ پہلی بار 1906ء میں ایک اسکاٹش سیاح ایلا نے اپنی کتاب میں اس چٹان کے بارے میں ذکر کیا تھا جس کے بعد محققین کی توجہ اس جانب مرکوز ہوئی۔
ہنزہ کی مقدس چٹان
کریم آباد کے قریب دریائے ہنزہ کے کنارے ایک بڑی چٹان موجود ہے جس کی قدامت ہزاروں سال بتائی جاتی ہے۔ چٹان کے دونوں حصوں میں تصاویر اور عبارتیں کندہ ہیں۔ یہ جگہ بھی اب ایک محفوظ ورثہ ہے۔
خیبر پختونخوا کی وادئ سوات میں قدم قدم پر بدھ مت کے مقدس مقامات ملتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدھ مت سوات سے ہی چین گیا تھا۔ زیادہ تر قدیم آثار بری کوٹ، سیدو شریف اور اوڈیگرام کے آس پاس ہیں۔
بری کوٹ سوات میں کھدائی کے دوران گھوڑے پر سوار گوتم بدھ کا بہت بڑا مجسمہ برآمد ہوا تھا جبکہ یہاں ایک چٹان پر 2 شیروں کے مجسمے بنے ہوئے ہیں جو بظاہر اسٹوپا کی شباہت کے حامل ہیں۔ مینگورہ سے کچھ فاصلے پر ایک اور چٹان بھی موجود ہے جس پر گوتم بدھ کا بہت بڑا مجسمہ بنا ہوا ہے۔
یہاں سوات کے بت کدہ نامی مقام کا تذکرہ بھی کرتے چلتے ہیں، جسے ہم نے تباہ حال صورت میں دیکھا تھا لیکن آثارِ قدیمہ اپنے دور کی عظمت اور شوکت کی گواہی دے رہے تھے۔ سوات میوزیم کے قریب یہ بدھ مت کا ایک بہت بڑا معبد بت کدہ موجود ہے۔ یہ معبد تقریباً 2 ہزار سال پرانا ہے اور اسے اشوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا۔
اس کے مرکز میں ایک بلند و بالا اسٹوپا تھا اور اس کے گرد 240 چھوٹے اسٹوپے بنائے گئے تھے۔ اسٹوپا کے گنبد پر ہمیشہ 7 چھتریاں بنائی جاتی ہیں جو 7 آسمانوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہم نے اس مقام کو نہایت خستہ حالی میں دیکھا تھا۔
ٹوٹے پھوٹے آثار اپنی بربادی پر نوحہ کناں تھے۔ بت کدہ کے انفارمیشن سینٹر سے تعلق رکھنے والے ہمارے گائیڈ ثنااللہ کے مطابق اس بت کدے سے 9 ہزار 484 مجسمے برآمد ہوئے تھے جو اس وقت اٹلی کے میوزیم میں موجود ہیں۔
مستنصر حسین تارڑ جو اس سفر میں ہمارے ساتھ تھے، ان کے مطابق تو 1956ء سے 1961ء تک جس اطالوی مشن نے بت کدے کی کھدائی کی تھی وہی مشن بہترین اور مکمل مجسمے اپنے ساتھ لے گیا البتہ چند ایک اشک شوئی کے لیے سوات میوزیم کو دے گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گندھارا کا سب سے اعلی کام ایک اطالوی پروفیسر کے ذاتی گھر کی زینت ہے۔
مردان کا ضلع تخت بائی گندھارا آرٹ یا بدھ مت کا مرکز ہے۔ یہاں ایک پہاڑی پر گندھارا طرزِ تعمیر سے آراستہ پورا ایک شہر موجود ہے جو اب عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ تخت بائی میں موجود آثار کی دریافت کے لیے کھدائی کا آغاز 1836ء میں کیا گیا تھا۔
ہری بہلول کے آثار بھی 1980ء سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ یہ آثار ایک قلعہ بند شہر کے ہیں۔
مردان شہر سے کچھ دُور شہباز گڑھی میں کندہ چٹان دیکھی جاسکتی ہے۔
بدھ مت کی ہر قسم کی باقیات کے حوالے سے پشاور میوزیم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا بھر میں بدھ مت اور بدھ سلطنتوں سے تعلق رکھنے والے نوادارات کا امین ہے، جن میں سیکڑوں مجسمے، سکے، اسٹوپے، برتن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ناصرف سیاحوں بلکہ تاریخ دانوں اور محققین کے لیے بھی باعثِ کشش مقام ہے۔
پنجاب میں بھی بدھ مت کے بے شمار آثار دریافت ہوئے ہیں مثلاً ٹیکسلا، اس کے نواحی علاقے اور رحیم یار خان کا کچھ حصہ اس حوالے سے اہم ہے۔
سندھ میں بھی بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں لیکن ان سب کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ کہتے ہیں کہ سندھ کے بہت سے مجسمے ممبئی کے شیوا جی راؤ میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔
پاکستان میں واقع جین مذہب کے مقدس مقامات
جین مت کے حوالے سے صوبہ سندھ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، جبکہ پنجاب میں بھی جین مت سے متعلق چند مقامات موجود ہیں۔ تاریخی حوالوں کے مطابق سندھ صدیوں تک جین مت کے ماننے والوں کا گڑھ رہا ہے۔ یہاں کے شاندار مندر اس بات کے گواہ ہیں۔ اگرچہ متعدد مندر اب ناپید ہوچکے ہیں لیکن تھرپارکر میں واقع جین مت کے 4 اہم مندر موجود ہیں جو اس وقت اپنی خستہ حالی پر نوحہ کناں ہیں۔
ان 4 مندروں میں سب سے اہمیت کا حامل گوڑی مندر ہے جسے 1376ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مندر کی بناوٹ، نقاشی اور صناعی اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ کشادہ مندر خستگی کا شکار ہورہا ہے۔
دوسرا مندر ویراوا ہے۔ یہ ایک چھوٹا لیکن بہت خوبصورت مندر ہے۔ اس کے در و دیوار پر سنگ تراشی کا نفیس کام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پونی مندر ہے جو زیادہ اچھی حالت میں نہیں ہے۔ اس کی بناوٹ بتاتی ہے کہ یہ کسی زمانے میں بہت مضبوط اور شاندار رہا ہوگا۔ یہ مندر کارونجھر پہاڑوں کے دامن میں 9 دہائیوں کی تاریخ سمیٹے ایستادہ ہے۔
ان چاروں مندروں میں سب سے بڑا مندر نگر پارکر میں ہے جس کی حالت کچھ بہتر ہے۔ اس کے در و دیوار پر کی گئی نقاشی اور مورتیوں کے باعث یہ کسی زمانے میں جین زائرین کا پسندیدہ مقام ہوا کرتا تھا۔
پاکستان میں واقع ہندو منادر
پاکستانی مصنفہ ریما عباسی نے پاکستان میں واقع اہم مندروں کے حوالے سے ایک کتاب ’پاکستان کے تاریخی مندر‘ لکھی ہے۔ اس کتاب میں شامل شاندار تصاویر ہماری مرحومہ دوست مدیحہ اعجاز کی ہیں۔ اس کتاب میں ہزاروں مندر کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں سے چند اہم مندروں کا ذکر مختصراً مندرجہ ذیل ہے۔
کٹاس راس مندر، چکوال
کٹاس راج کے اس مندر کا ذکر مہا بھارت میں بھی ملتا ہے۔ ہندو روایات کے مطابق جب شیوا جی کی بیوی سیتا دنیا سے رخصت ہوئیں تو ان کے غم میں شیوا کی آنکھوں سے جو سیل رواں جاری ہوا اس سے 2 مقدس تالاب وجود میں آگئے۔ ایک اجمیر کا پشکر اور دوسرا کٹک شیل۔ سنسکرت میں اس لفظ کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کثرتِ استعمال سے کٹاس بن گیا۔ ہندوؤں کے لیے اس تالاب کا پانی نہایت مقدس ہے اور ہر سال دنیا بھر سے ہندو یاتری یہاں زیارت کے لیے آتے ہیں۔
ہنگلاج دیوی یا نانی مندر
بلوچستان میں ہنگول دریا کے کنارے واقع اس ہنگلاج مندر کو نانی مندر بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ پاکستان اور بھارت کے ہندوؤں کا مقدس ترین مقام ہے۔ ہر سال لاکھوں زائرین یہاں آتے ہیں۔ نانی مندر کے بعد نگر پارکر کا چوڑیو مندر متبرک سمجھا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب بھی یہاں سالانہ لاکھوں زائرین آتے ہیں اور رات قیام کرتے ہیں۔
شوالہ تیجا
سیالکوٹ کا تاریخی شوالہ تیجا سنگھ مندر بھی ہندومت کے لیے ایک اہم مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مندر کو قیامِ پاکستان کے بعد بند کردیا گیا تھا لیکن مندر کی تزئین و آرائش کے بعد ایک بار پھر کھول دیا گیا ہے۔
کراچی میں واقع شری رام سوامی، 200 سال قدیم لکشمی نارائن مندر اور ڈیڑھ ہزار سال پرانا ہنومان مندر بھی اہم مندروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ لاہور کا والمیکی مندر اور پشاور کا گورکھ ناتھ مندر بھی زائرین کا مرکز بنا رہتا ہے۔
پاکستان میں واقع مزاراتِ صوفیا کرام
دنیا بھر میں سندھ کو صوفیائے اکرام کی دھرتی پکارا جاتا ہے۔ دانشور اور سماجی کارکن ذوالفقار ہالیپوتو کے مطابق سندھ میں مذہبی مقامات کی سیاحت کو زبردست حد تک فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سندھ کا دامن اس حوالے سے بہت کشادہ ہے۔ یہاں اسلام، ہندو اور جین مت کے متعدد مقدس مقامات موجود ہیں۔ یہاں لعل شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، صوفی شاہ عنایت اور اڈیرو لال میں واقع جھولے لال جیسے عظیم صوفیائے کرام، شاعر اور ولی اللہ کے مزارات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ سیکڑوں چھوٹے بڑے دربار، درگاہیں اور مندر بھی وادی مہران کی زینت ہیں۔ تھرپارکر میں ہندو اور جین مت کے ماننے والوں کے قدیم مندر اور مقامات موجود ہیں۔ سکھر میں سادھ بیلو کا مندر اس حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔
اگر صوبہ سندھ اور ہندوستان کے مابین بھی سرحدیں کھول دی جاتی ہیں تو دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ اس دو طرفہ سیاحت سے ناصرف ریونیو حاصل ہوگا بلکہ خطے میں بھائی چارگی اور مذہبی رواداری کی فضا پروان چڑھے گی۔ یہاں کے لوگ بھی اجمیر زیارت کے لیے جانا چاہتے ہیں۔
دنیا بھر میں سیاحت ایک پھلتی پھولتی صنعت ہے۔ اربوں سیاح دنیا بھر میں سیاحت کے لیے نکلتے ہیں۔ ان سیاحوں کی کشش کے لیے پاکستان میں بہت سی سیاحتی جگہیں موجود ہیں لیکن یہ سیاح گوتم بدھ کا ٹوٹا مجسمہ یا ایسی مورتی دیکھنا نہیں چاہیں گے جس پر کالک ملی گئی ہو۔
ہمیں اس حوالے سے مقامی آبادیوں کو سیاحتی پالیسیوں میں شامل کرنا ہوگا اور انہیں شعور و آگاہی فراہم کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنی کم علمی سے اپنے بیش بہا وسائل کو نقصان نہ پہنچائیں۔ امن و امان کی صورت حال تو اب خاصی بہتر ہے مگر سیاحتی سہولتوں کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ ڈالرز خرچ کرکے سیاح غلیظ باتھ رومز، ہوٹلوں کے گندے اور سیلن زدہ کمروں میں کیونکر رہیں گے؟ (یہ ہمارا حالیہ مشاہدہ ہے)۔
سیاحت سے وابستہ مقامی افراد کے رویوں کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ وہ غیر ملکی سیاحوں کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سمجھ کر ذبح کرنے نہ بیٹھ جایا کریں بلکہ سیاحت کے حوالے سے بہتر قاعدے اور قوانین مرتب کیے جائیں اور مقامیوں کو اس کا ہر صورت میں پابند بنایا جائے۔
اگر دوست ملک چین کی سیاحتی صنعت کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہاں 2 کروڑ سے زائد سیاح بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے مذہبی اثاثوں کی بہتر انداز میں تشہیر اور ان کی حفاظت کو یقینی بنائے تو ان سیاحوں کو پاکستان آنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان اور دیگر ممالک میں ثقافتی اور مذہبی مقامات کی سیاحت لاکھوں ڈالرز کی صنعت بن چکی ہے۔
پاکستان کی 2 دہائیاں دہشت گردی اور اس کے اثرات کی نذر ہوگئیں مگر اب صورتحال کافی بہتر ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم بندوق کے بل پر دہشت گردی کے فتنے کو تباہ نہیں کرسکتے البتہ یہ ایک ایسا وائرس ضرور ہے جو محبت، رواداری اور بھائی چارے کی فضا میں پنپ نہیں سکتا اور مذہبی سیاحت اس حوالے سے ایک شاندار کردار ادا کرسکتی ہے۔
شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (14) بند ہیں