فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس:'یہ موجودہ دور کا سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے'
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس کیس موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
حکومت نے حراستی مراکز سے متعلق سربمہر تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ موجودہ دور کا اہم ترین اور سب سے بڑا آئینی مقدمہ ہے، کیا معلوم کتنے ہزار لوگ حراست میں ہیں؟ پہلے آرڈیننس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لیں گے، زیر حراست افراد کا معاملہ آخر میں دیکھیں گے جبکہ وزارت دفاع کا جواب آنے پر ہی فوج کے مینڈیٹ کا اندازہ ہوگا۔
چیف جسٹس کے 2008 میں فوج کو طلب کرنے کے مقصد سے متعلق استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے بلایا گیا، حراستی مراکز 2011 میں بنے جبکہ جولائی 2015 میں بھی فوج کو طلب کیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کئی ہزار خاندانوں کا مستقبل اس کیس سے جڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فاٹا ایکٹ 2019 سماعت: اٹارنی جنرل کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کروڑوں لوگوں کے تحفظ کے لیے چند افراد کو حراست میں رکھا گیا جبکہ کسی کو حراست میں رکھنا سزا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی اس بات پر حیرت ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پھر تو عدالتوں سے بری ہونے والوں کو بھی حراستی مراکزمیں رکھ لیں، ایسا قانون ہے تو ٹرائل کی کیا ضرورت؟ کروڑوں لوگوں کے تحفظ کے لیے ایک بھی بلاوجہ گرفتار ہوا تو اس شخص کا ساتھ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے گوانتاناموبے جیل اپنی حدود سے باہر غیر ملکیوں کے لیے بنائی، ہم نے اپنے ملک کے شہریوں کو ہی حقوق سے محروم کردیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنگی جرائم کا معاملہ بلکل الگ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی ایسے قوانین بنائے گئے، اسلام قیدیوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: حراستی مراکز کو غیرقانونی قرار دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل
یاد رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 25 اکتوبر کو خیبرپختونخوا ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے معاملے پر لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر کی گئیں درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے معاملے کو قومی اہمیت کا حامل قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی بھی قیمت پر آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔
گورنر خیبرپختونخوا نے اگست میں ایکشن ان ایڈ سول آف سول پاورز آرڈیننس 2019 نافذ کیا تھا جس کے تحت مسلح فورسز کو کسی بھی فرد کو صوبے میں کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بغیر وجہ بتائے اور ملزم کو عدالت میں پیش کیے بغیر گرفتاری کے اختیارات حاصل ہوگئے تھے۔
17اکتوبر کو چیف جسٹس وقار احمد شاہ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاٹا ایکٹ 2018، فاٹا ایکٹ 2019 اور ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) ریگولیشن 2011 کی موجودگی میں ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاورز) آرڈیننس 2019 کو کالعدم قرار دیا تھا۔