دھرنے والوں کے ساتھ گزاری گئی ایک رات
اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے دھرنے کو 12 روز گزر چکے، مگر مظاہرین اور حکومت میں وزیرِاعظم کے استعفے پر تعطل برقرار ہے۔ مظاہرین کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا وہ پُرامن طور پر گھروں کو لوٹ جائیں گے؟ یا پھر دارالخلافہ کی طرف بڑھیں گے؟
مولانا کا پلان بی یا سی کیا ہے؟ 2 ہفتوں سے جاری غیر یقینی کی اس اعصاب شکن جنگ میں کس کا پلڑا بھاری ہے؟ جواب کی تلاش میں ہم نے رخ کیا سیکٹر ایچ 9 کا، جہاں مظاہرین دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
کنٹینروں سے بچ بچا کر اور گاڑیوں کی طویل قطاروں کو پھلانگتے کراچی کمپنی جی 9 سے ہوتے ہوئے آخر ہم جلسہ گاہ تک پہنچ ہی گئے۔
کشمیر ہائی وے پر نصب کنٹینر سے بنی دیواروں، بڑے بڑے برقی قمقموں اورکالی وردی میں ملبوس خیبر پختونخوا پولیس کی موجودگی میں داخلی دروازے کی تلاش چنداں مشکل نہ تھی۔
سیکیورٹی حصار سے گزر کر ایک خوش اخلاق اہلکار کو رسمی تلاشی دے کر ہم پنڈال میں داخل ہوگئے۔ کنٹینروں کے اس پار تو ایک دنیا آباد تھی۔ ایک میلے کا سماں تھا اور سڑک کے دونوں اطراف کھانوں کے اسٹالوں سے اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ درمیان میں موجود گرین بیلٹ پر ریڑھیاں موجود تھیں، جہاں عمدہ پھل سجے تھے۔ فروٹ چاٹ کے رنگ برنگے ٹھیلے تھے۔ چولہے پر چائے چڑھی ہے تو کہیں تازہ روٹیاں لگائی جارہی ہیں۔ داخلی دروازے کے قریب دائیں ہاتھ پر اونچا اسٹیج تھا جو کسی ٹرالے پر بنایا گیا تھا
بڑے بڑے بورڈز سے سجے روشن اسٹیج پر قیادت کی جانب سے تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔
یہاں ہماری ملاقات لورالائی بلوچستان سے آئے محمد رسول سے ہوئی جو قائدین کو سننے کے لیے اپنے خیمے سے کئی منٹ پیدل چل کر مرکزی اسٹیج تک آئے تھے۔ گزشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو اپنے گاؤں سے روانہ ہونے والے رسول لورالائی سے اسلام آباد تک کے تھکا دینے والے سفر اور ایچ 9 کے ویرانے میں مسلسل بیٹھنے کے باوجود پُرعزم تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آگے بڑھنے کا، ڈٹے رہنے کا یا پھر واپسی کا، جو بھی فیصلہ قیادت کرے گی انہیں قبول ہوگا اور یہ صرف انہیں نہیں بلکہ یہ ہر کارکن کی پارٹی کے ساتھ بنیادی کمٹمنٹ ہے‘۔ رسول نے بتایا کہ ’اس دھرنے کی میزبان مرکزی قیادت ہے۔ شرکا میں سے بیشتر کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا سے بڑی تعداد میں شرکا آئے ہیں۔ جماعت کے 30 سے 40 ہزار مدارس ہیں۔ سارے شرکا کا تعلق انہی مدارس سے ہے۔ صرف ان کے چھوٹے سے ضلع لورالائی میں 2 لاکھ 44 ہزار کی آبادی میں 109 مدارس رجسٹر ہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہر کیمپ تقریباً 7 سے 9 افراد پر مشتمل ہے جس کی قیادت ایک امیر کرتا ہے‘۔
محمد رسول نے یہ بھی بتایا کہ مارچ کے شروع میں اپنے امیر کے پاس راشن کے لیے 3 ہزار روپے کی رقم جمع کروائی گئی تھی جو ابھی تک چل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نہاتے تو وہ کم کم ہی ہیں تاہم رفع حاجت کے لیے کھلا میدان ان کے لیے کافی ہے۔
ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے پنڈال میں پہنچنے کا اعلان ہوا۔ سڑک کے دونوں اطراف کئی کلومیٹر تک پھیلی خیمہ نما بستی سے نکل نکل کر مزید کارکن اسٹیج اور قد آدم اسکرینوں کے اطراف جمع ہونا شروع ہوگئے۔
’مارچ کے شروع میں ہم نے اپنے امیر کے پاس راشن کے لیے 3 ہزار روپے کی رقم جمع کروائی تھی جو ابھی تک چل رہی ہے‘۔
’ملک اس وقت افراتفری کا شکار ہے، حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ عوام میں اتنی طاقت ہے کہ وہ یہودیوں کے ایجنٹ سے چھٹکارا حاصل کرلیں‘، مولانا کہہ رہے تھے اور حاضرین بڑی گرمجوشی سے اپنے قائد کو یقین دلا رہے تھے کہ وہ قیادت کے ہر حکم کی پاسداری کریں گے۔
کوئی آدھے گھنٹے کی تقریر کے بعد مولانا پنڈال سے روانہ ہوگئے۔ وہ کہاں جاتے ہیں اور رات کہاں بتاتے ہیں، سردی میں ٹھٹھرتے شرکا کو کچھ معلوم نہیں اور ناں ہی وہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
مولانا کی روانگی کے ساتھ ہی آج کا شو ختم ہوچکا تھا۔ نجی کمپنی نے اپنے لاؤڈ اسپیکرز اور ساؤنڈ سسٹم سمیٹنا شروع کردیے۔ اسکرینیں بھی لپیٹی جانے لگی تھیں۔ میڈیا والے بھی اپنے کیمرے اور براہِ راست نشر کرنے والے آلات سمیٹ کر اسٹیج کے دونوں اطراف کھڑی گاڑیوں میں رکھنے لگے۔
دوسری طرف کارکن ٹولیوں کی صورت اپنے کیمپوں کی طرف لوٹنے لگے۔ اسٹیج پر موجود برقی قمقمے گل ہوچکے تھے۔ چند مقامی شرکا نے موقع غنیمت جانا اور خاردار تاروں کو عبور کرتے ہوئے اسٹیج کے قریب پہنچ کر سیلفیاں بنانے لگے۔ سخت موسم اور ویرانے سے مسلسل 12 دن لڑنے کے بعد لہجے میں کچھ کچھ جھنجلاہٹ عود آئی تھی۔
’وزیرِاعظم آخر استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ وہ اگر سیاست میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کو متبادل (درمیانی) راستہ نکالنا ہوگا تاکہ ان کی بھی جان چھوٹ جائے اور ہم بھی پُرامن طریقے سے واپس چلے جائیں‘، پشین سے تعلق رکھے والے آغا عبدالرحمٰن نے کہا۔
دوسرے جن شرکا سے بھی ہماری بات ہوئی ان سب کی نظر میں مولانا وزارتِ عظمی کے موزوں ترین امیدوار تھے۔ ان کے خیال میں موجودہ حکمران ریاستِ مدینہ کی بات تو کرتے ہیں مگر ان کا عمل اسلام کے عین خلاف ہے۔ مظاہرین کو یقین ہے کہ مولانا اقتدار میں آکر ملک میں شرعی نظام نافذ کردیں گے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملکی وسائل کو بروئے کار لاکر معدنیات بیچ کر ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ پیسہ عام ہوگا تو ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری خود ہی ختم ہوجائے گی۔
شرکا میں سے اکثریت کا تعلق ملک کے دُور افتادہ علاقوں سے تھا جنہیں زیادہ باریکیوں کا ادراک نہیں۔ انہیں تو فقط اتنا ہی معلوم تھا جو انہیں ان کے قائدین نے بتایا تھا۔
’ہمیں پاکستان کو آزاد کروانا ہے، اسی لیے ہم نے آزادی مارچ شروع کیا۔ ڈھائی ہزار کلومیٹر کا سفر کرکے ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے‘، بلوچستان کی تحصیل بسیمہ سے آئے ایک بزرگ جوش سے بولے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک اور قوم کے لیے احتجاج میں شامل رہیں گے۔ لیکن ان جذبات میں کہیں شفقت بھی تھی اور وہ مصر تھے کہ ہم ان کی مہمان نوازی قبول کرلیں۔ ان سے تو ہم نے کسی طور پر معذرت کرلی لیکن آخر دوسروں کی بے پایاں شفقت اور خلوص کے آگے مجبور ہوگئے اور چائے کی دعوت قبول کرلی۔
’وزیرِاعظم آخر استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ وہ اگر سیاست میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کو متبادل (درمیانی) راستہ نکالنا ہوگا تاکہ ان کی بھی جان چھوٹ جائے اور ہم بھی پُرامن طریقے سے واپس چلے جائیں‘
دعوت قبول کرنے کی دیر تھی کہ لوگ ہم سے بے تکلف ہوگئے۔ کچھ جاننا چاہتے تھے کہ اسلام آباد دھرنے کے مقام سے کتنا دُور ہے اوریہاں کون کون سی مارکیٹیں یا سیاحتی مقامات ہیں۔ کچھ یہ جاننا چاہتے تھے کہ وزیرِاعظم کے استعفے کے حوالے سے ہمارا کیا تجزیہ تھا۔ ان کی نظر میں مولانا وزارتِ عظمیٰ کے لیے موزوں ترین امیدوار تھے اور وہ برسرِ اقتدار آکر ملک میں شرعی نظام نافذ کردیں گے۔
یہ تمام باتیں انہوں نے اپنے قائدین سے تقاریر اور مجالس میں سنی تھیں۔ تمام شرکا کا اس بات پر اجماع تھا کہ اگر ان کی قیادت نے انہیں مہینوں بیٹھنے کا بھی کہا تو وہ کوئی سوال کیے بغیر بیٹھے رہیں گے۔ لیکن ان کے لہجے میں اب پہلے دن والا عزم نہیں تھا بلکہ ہمیں ان کی آنکھوں میں بے چینی نظر آئی۔
پنجگور سے آئے حافظ محمد اعظم کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکمران ریاستِ مدینہ کی بات تو کرتے ہیں لیکن کسی محکمے میں عدل و انصاف نہیں ہے اور ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ لیکن جو نظریہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت نے پیش کیا وہ روح اسلام کے عین مطابق ہے‘۔
’تو کیا مولانا دوسری جماعتوں کو کم مسلمان سمجھتے ہیں؟‘، میں نے فوراً پوچھا۔
’نہیں ہم مسلک کی نہیں نظام کی بات کرتے ہیں‘، وہ تحمل سے بولے۔
انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ ’آپ مولانا کا چہرہ دیکھیں اور دوسروں کا دیکھیں۔ مولانا کا چہرہ کتنا نورانی ہے‘۔
’کیا کسی اسلامی ریاست میں چہرے کی بنیاد پر بھی کسی کو حکمرانی عطا کی گئی؟‘، میں نے حیرت سے سوال کیا۔
’نہیں صرف چہرہ نہیں اعمال بھی دیکھیں۔ ان کی صورت اور سیرت دونوں کو ہم دیکھتے ہیں‘، وہ بولے۔
رات بھیگ رہی تھی۔ سڑک کے بیچوں بیچ گرین بیلٹ پر کئی کلومیٹر تک پھیلے پلاسٹک کی ترپالوں سے بنے ان ہنگامی خیموں میں خاموشی چھا رہی تھی۔ کچھ شادی بیاہ والی قناتوں کے نیچے سو رہے تھے تو کچھ کے اچھے خیمے تھے جن میں روشنی کا انتظام بھی تھا، جب کہ کچھ محض پلاسٹک کی چادروں کو موسم کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ پنڈال میں گاڑیوں کی بے روک ٹوک آمد و رفت جاری تھی۔
اسٹیج کے قریب دونوں اطراف ایک کنارے پر کھڑی ڈی ایس این جی پر رات کی ڈیوٹی پر مامور صحافی ابھی مستعد تھے۔
عطا الرحمٰن جو پہلے دن سے مارچ کو کور کر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ ’پنجاب سے اسلام آباد تک انتظامیہ اور پولیس نے پورے جلوس کو پروٹوکول فراہم کیا۔ ایچ 9 میں بھی شرکا سے انتظامیہ کا رویہ بہت مشفقانہ ہے۔ کچھ صحافیوں نے ازراہِ مذاق کہا کہ پولیس اور انتطامیہ کے رویے کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ اپوزیشن کا نہیں بلکہ برسرِ اقتدار پارٹی کا مارچ ہو۔ ان صحافیوں نے ہمیں یہ بتایا کہ مرکزی قیادت کا جلسہ گاہ میں قیام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختصر ہوگیا ہے۔
آدھی رات ہوچلی تھی تاہم لنگر کے آنے کا سلسلہ اب بھی جاری تھا۔ ہر طرف اتنا وافر کھانا تھا کہ کھانے والے کم پڑگئے تھے۔ اب یہ اتنا کھانا کہاں سے آرہا تھا۔ پھر جدید ساؤنڈ سسٹم، کیمرے، کرینیں اور دوسرے آلات کے لیے رقم کون مہیا کر رہا تھا، اس سے کسی بھی کارکن کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہاں مظاہرین کے لیے طبّی عملہ اور 2 ایمبولینس بھی موجود تھیں۔
شاہراہِ کشمیر سے چند کلومیٹر دُور جہاں مظاہرین براجمان تھے، اب وہاں سڑک ویران ہوچکی تھی۔ کچھ خوانچہ فروش اپنے اسٹالوں کے آگے دبکے پڑے تھے۔ میلہ اجڑ گیا تھا۔ مگر کل پھر جڑواں شہروں سے لوگ آکر اس میں روح پھونکیں گے۔ لیکن مزید کتنے دن؟ اگر کوئی نیا سرکس نہ لگے تو میلہ بھلا کتنے دن بھرا رہ سکتا ہے؟ میں اور خالد صاحب اسی ادھیڑ بن میں واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔
صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں