مقبوضہ کشمیر: محاصرے میں سسکتی زندگی کے 100روز
بھارت کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اگست میں مسلمان اکثریتی ریاست کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرکے انتظامی لحاظ سے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
اس اقدام کے پیشِ نظر کسی بھی متوقع مزاحمت کو شروع ہونے سے پہلے ہی روکنے کے لیے بی جے پی حکومت نے طویل عرصے سے ریاستی جبر کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی زندگیوں کو مزید مشکل کردیا۔
5 اگست کے یکطرفہ اقدام سے پہلے ہی کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی غیر معمولی نقل وحرکت سے مقامی افراد میں اس بات کا خوف پھیل گیا تھا کہ حکومت کوئی انتہائی قدم اٹھانے جارہی ہے لیکن اس سے پہلے ہی بھارت نے کشمیر پر ایسی پابندیاں عائد کیں کہ بہت سے لوگوں کو ریاست کی حیثیت میں تبدیلی کے اقدام کا علم بھی کئی روز بعد ہوا۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بعد سے خطے اور عالمی منظر نامے پر کیا کیا اہم واقعات رونما ہوئے اس کے چیدہ چیدہ نکات ہم یہاں ضبط تحریر لارہے ہیں۔
2 اگست
بھارتی حکام نے مبینہ طور پر دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر مقبوضہ کشمیر کی سیر کے لیے آئے ہوئے سیاحوں کو وادی سے واپس جانے کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ مقامی افراد کو اشیائے خورو نوش اور ایندھن ذخیرہ کرنے کی بھی ہدایات کی گئیں جبکہ اضافی نفری کے ساتھ سیکیورٹی کے دیگر اقدامات نے عوام میں خوف اور تشویش کی لہر پیدا کردی تھی۔
صورتحال اتنی پیچیدہ تھی کہ عوام میں بغاوت اٹھنے یا دہشت گردی کے حملے جیسی قیاس آرائیاں بھی سامنے آنے لگی تھیں۔
5 اگست
اس روز تمام قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا اور بھارتی حکومت کا واضح اقدام سامنے آگیا جس میں اس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا۔
بھارتی صدر رام ناتھ کووِند نے آئین میں موجود مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بل پر دستخط کیے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا، لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔
اس اقدام سے قبل مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنماؤں، میر واعظ عمر فاروق اور سید علی گیلانی سمیت دیگر کو ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا، تاہم کسی بھی ممکنہ مخالفت سے بچنے کے لیے حکام نے بھارت کی حمایت کرنے والے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی نظر بند کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ 5 اگست کی رات سے ہی پوری وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے ساتھ موبائل فون انٹرنیٹ سمیت ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا گیا تھا، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وادی میں لینڈ لائن موبائل سروس بھی معطل کی گئی۔
ادھر پاکستان نے بھارتی اقدام کو مسترد کیا اور بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے سخت احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر مشترکہ ردِ عمل دینے کے لیے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا۔
6 اگست
اس تمام تر صورتحال پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور اس سے خطے میں امن اور سیکیورٹی کی صورتحال کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا۔
اسی روز پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی ہوا جس میں بدنظمی دیکھنے کو ملی اور بعد ازاں بھارتی حکومت کے اقدام کی مذمت اور کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے قرار داد منظور کی گئی۔
7 اگست
پاکستانی حکومت نے احتجاجاً بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور پاکستان کے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ بھارت کے لیے نامزد پاکستانی ہائی کمشنر کو نئی دہلی نہیں بھیجے گا۔
اس کے علاوہ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اہم اجلاس میں بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل کرنے اور سفارتی تعلقات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
8 اگست
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جانے کا فیصلہ کیا اور 28 ممالک کو کشمیر کے حوالے سے تشویش اور قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
اسی روز پاکستان کے وزیر ریلوے نے دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس سمجھوتہ ایکسپریس بند کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ جب تک میں وزیر ہوں یہ ٹرین نہیں چلے گی۔
9 اگست
سمجھوتہ سروس کی بندش کے اعلان کے بعد آخری ٹرین بھارت کو روانہ ہوئی اس کے ساتھ اسی روز دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی بس سروس بھی معطل کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
پاکستانی حکومت نے بھارتی اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے تمام تر ثقافتی روابط بھی منقطع کرنے کا اعلان کیا اور وفاقی کابینہ نے بھارت کے ساتھ تجارت معطل کرنے کی باقاعدہ منظوری دے دی۔
12 اگست
عید الاضحیٰ کے موقع پر بھارتی حکومت نے پابندیوں میں نرمی کرنے کا اعلان کیا لیکن اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا جس کے نتیجے میں کشمیریوں کی بڑی تعداد قربانی کا فریضہ ادا نہیں کرسکی۔
جس پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) حکام نے ٹوئٹ میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ’مکمل کرفیو‘ کی مذمت کی جس کے باعث مسلمان مذہبی تہوار منانے کے لیے جمع نہیں ہوسکے۔
14 اگست
پاکستان نے اپنا 73واں یومِ آزادی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کے نام کرتے ہوئے 'یومِ یکجہتی کشمیر' کے طور پر منایا۔
15 اگست
بھارت کے یومِ آزادی کو پاکستان میں ملک گیر سطح پریومِ سیاہ طور پر منایا گیا جس میں ہر شہر میں بھارتی اقدام کے خلاف اور کشمیر سے یکجہتی کے لیے مظاہرے ہوئے۔
16 اگست
پاکستان کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اہم اور ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا۔
یہ 50 سال میں پہلا موقع تھا، جب خصوصی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تنازع پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، چاہے وہ مشاورتی اجلاس ہی کیوں نہ ہو۔
سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں اراکین نے مقبوضہ جموں اور کشمیر کی موجودہ صورتحال اور وہاں انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
19 اگست
بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو میں نرمی کے بعد سری نگر میں 190 پرائمری اسکولز کھل گئے تاہم والدین نے موبائل فون سروس کھلنے تک اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے انکار کردیا۔
22 اگست
دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے ایک انتباہی رپورٹ جاری کرتے ہوئے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر اور اس کی ایک ریاست آسام میں نسل کشی کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔
28 اگست
بھارت کی سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائر متفرق درخواستیں سماعت کے لیے منظور کی گئیں۔
30 اگست
مقبوضہ جموں اور کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے وزیراعظم عمران خان کی اپیل پر پاکستانیوں نے 'کشمیر آور' منایا۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارتی مظالم کے خلاف ملک بھر میں تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، تاجر، وکلا اور سیکیورٹی اداروں نے ریلیوں و تقریبات کا اہتمام کیا۔
6 ستمبر
مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ سے بند مکمل مواصلاتی نظام اور لاک ڈاؤن کے بعد بھارتی حکومت نے لینڈ لائن ٹیلی فون سروس بحال کرنے کا دعویٰ کیا تاہم اس کے باوجود لوگوں کو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں شدید مشکلات پیش آئیں۔
9 ستمبر
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ مشیل باشیلے نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے اقدامات کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا کہ شہریوں کی بنیادی ضروریات تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
10 ستمبر
مقبوضہ کشمیر میں 35 روز سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران بھارتی فورسز نے یوم عاشور کے دوران وادی میں نکالے جانے والے جلسوں پر پیلٹ گنز اور شیلنگ کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں متعدد کشمیری عزا دار زخمی ہوگئے۔
13 ستمبر
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا، یہ تعداد وادی میں جاری کریک ڈاؤن کی سنگین صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
15 ستمبر
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام بحال کرنے کے لیے آن لائن پٹیشن کا آغاز کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے زور دیا کہ دنیا جاننا چاہتی ہے کہ وادی میں کیا ہورہا ہے کیوں کہ اس وقت دنیا صرف قیاس ہی کرسکتی ہے کہ وادی میں کس نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف سنگین ورزیاں جاری ہیں۔
16 ستمبر
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ می بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، نقل و حرکت پر پابندی، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کی بندش کے باوجود بھارتی حکومت کے خلاف مسلسل عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باجود بھارتی حکومت کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 احتجاجی مظاہرے کیے جارہے تھے۔
18 ستمبر
پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے جرمنی جانے کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی درخواست کو مسترد کیا۔
25 ستمبر
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریقین سے مذاکرات کے ذریعے بحران حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
27 ستمبر
وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی اقدامات کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے عالمی برادری کو بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت نے کچھ غلط کیا تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'آپ کیا سمجھتے ہیں 80 لاکھ کو بھول جائے جب 8 ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا سوچے گی، یورپی کیا سوچیں گے، اگر کسی برادری کے لوگ اس طرح محصور ہوں تو وہ کیا کریں گے کیا انہیں درد نہیں ہوگا'۔
دوسری جانب امریکا نے بھارت پر زور دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر لگائی گئی پابندیاں فوری طور پر نرم کی جائیں اور اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا اعادہ بھی کیا گیا۔
یکم اکتوبر
بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف درخواست پر نئی دہلی حکومت سے 4 ہفتوں میں جواب طلب کیا تھا۔
5 اکتوبر
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے نئی دہلی جانے والے امریکی سینیٹر کو وادی کا دورہ کرنے سے روک دیا تھا۔
7 اکتوبر
امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں مواصلاتی روابط پر پابندی کے باعث تقریباً ایک درجن سے زائد مریض ایمبولینس کو کال نہ کر پانے یا سڑکوں کی بندش کی وجہ سے وقت پر ہسپتال نہیں پہنچ سکے تھے اور انتقال کر گئے۔
موبائل فون سروس کے بغیر ڈاکٹر ایک دوسرے سے رابطہ قائم نہیں کر پاتے، ماہرین کو ڈھونڈ نہیں پاتے یا زندگی اور موت کی صورتحال میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مدد حاصل نہیں کر پاتے۔
زیادہ تر کشمیریوں کے گھر میں لینڈ لائن نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی کو بھی مدد کے لیے نہیں پکار سکتے۔
10 اکتوبر
بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر میں 2 ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں نرمی کے لیے عالمی دباؤ کے باعث 3 سیاست دانوں کو رہا کردیا تھا۔
14 اکتوبر
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے 73 روز بعد وادی میں پوسٹ پیڈ سروس پر کال کی سہولیات بحال کردی تھیں جبکہ انٹرنیٹ سروس تاحال بندش کا شکار ہے۔
27 اکتوبر
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 27 اکتوبر کا دن یوم سیاہ کے طور پر منانے اور وادی میں مکمل شٹر ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کا مقصد بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف واضح پیغام دینا تھا۔
سید علی گیلانی نے کہا کہ گزشتہ 82 روز سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں شٹر ڈاؤن جاری ہے تاہم 27 اکتوبر کو ہڑتال کے اعلان کا مقصد یوم سیاہ منانا ہے۔
29 اکتوبر
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) نے بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں تمام حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
31 اکتوبر
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے 5 اگست کے احکامات پر عمل درآمد کا آغاز ہوا جس کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل ہوگیا جس میں ایک جموں و کشمیر اور دوسرا بدھ مت اکثریتی لداخ کا علاقہ شامل ہے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کے بعد سخت سیکیورٹی کی موجودگی اور عوامی غم و غصے کے باوجود وادی پر براہِ راست وفاقی حکومت کی حکمرانی کے آغاز کے بعد متنازع علاقہ اپنے پرچم اور آئین سے بھی محروم ہوگیا۔
10نومبر
12 ربیع الاول کے موقع پر بھارتی فورسز نے سری نگر میں حضرت بل اور دیگر مقدس مقامات اور مساجد کی جانب جانے والے راستوں کو بند کیا اور اس مبارک موقع کی مناسبت سے نکلنے والے جلوسوں کو جبری طور پر روکا۔
مرتب کردہ: ثوبیہ شاہد