• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

'دھرنا سیاسی سرگرمی ہے جس میں فوج کا کوئی کردار نہیں'

شائع November 6, 2019 اپ ڈیٹ November 7, 2019
حکومت اگر الیکشن میں نہیں بلائے گی تو فوج نہیں جائے گی، میجر جنرل آصف غفور — فائل فوٹو: آئی ایس پی آر
حکومت اگر الیکشن میں نہیں بلائے گی تو فوج نہیں جائے گی، میجر جنرل آصف غفور — فائل فوٹو: آئی ایس پی آر

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا اسلام آباد میں دھرنا سیاسی سرگرمی ہے جس میں فوج کا بحیثیت ادارہ کوئی کردار نہیں ہے۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے نجی چینل 'ہم نیوز' کے پروگرام ’پاکستان ٹونائٹ‘ میں میزبان ثمرعباس کو انٹرویو کے دوران کہا کہ 'حکومت اگر الیکشن میں نہیں بلائے گی تو فوج نہیں جائے گی، فوج وہی کام کرتی ہے جو حکومت اس سے کہتی ہے جبکہ فوج کی خواہش نہیں ہوتی کہ الیکشن میں کوئی کردار ادا کرے۔'

انہوں نے کہا کہ 'آئین میں رہتے ہوئے طلب کرنے پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں، الیکشن میں فوج کا کوئی کردار نہیں، اسے صرف سیکیورٹی کے لیے بلایا جاتا ہے جبکہ فوج حکومت کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔

جے یو آئی (ف) کے 'آزادی مارچ' کے حوالے سے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 'دھرنا سیاسی سرگرمی ہے جس میں فوج کا بحیثیت ادارہ کوئی کردار نہیں ہے۔'

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک سینئر سیاستدان ہیں اور وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'فوج 20 سال سے ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے کاموں میں مصروف ہے جو ہمیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ خود کو اس طرح کی چیزوں میں ملوث کریں یا الزام تراشیوں کا جواب دیں جبکہ جو بیان دیتا ہوں فوج کے ترجمان کی حیثیت سے دیتا ہوں۔'

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: چوہدری برادران کی 36 گھنٹوں میں مولانا فضل الرحمٰن سے تیسری ملاقات

میزبان کے ایک سوال پر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’میرا جو بھی بیان ہوتا ہے وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی حیثیت سے ہوتا ہے، سیاست میں شاید ایسا ہوتا ہو کہ آپ بیان دیں اور پھر کہیں کہ وہ میرا ذاتی بیان تھا لیکن میں جو بھی بات کرتا ہوں وہ میرے ادارے کی طرف سے ہوتی ہے۔‘

2014 کے دھرنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت بھی فوج نے حکومت وقت کا ساتھ دیا تھا، فوج ہمیشہ حکومت کے احکامات پر عمل کرتی ہے‘۔

کرتارپور راہداری سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'امن راہداری یک طرفہ کوریڈور ہے، سکھ یاتری بھارت کی طرف سے آئیں گے اور اسی دن چلے جائیں گے جبکہ ان کی پاکستان آمد مکمل طور پر قانون کے مطابق ہوگی۔'

ان کا کہنا تھا کہ کرتار پور راہداری کا کشمیر سے کوئی لنک نہیں بنتا، مسئلہ کشمیر پر کوئی سمجھوتا کیا اور نہ کبھی ہوگا۔

ترجمان پاک فوج نے مزید بتایا کہ کرتار پور راہداری میں داخلہ بالکل قانونی طور پر ہوگا جو کہ پاسپورٹ بیس آڈینٹیٹی کے طور پر دیا جائے گا، سیکیورٹی پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں جے یو آئی (ف) کا حکومت مخالف 'آزادی مارچ' گزشتہ کئی روز سے جاری ہے جس میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں اور فوج کے کردار کے بغیر نئے انتخابات کرائے جائیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے یکم نومبر کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملک کے استحکام کو کسی صورت نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج ایک غیر جانب دار اور قومی ادارہ ہے اور جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہ کر تعاون کررہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے میزبان کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پہلی بات تو ان (فضل الرحمٰن) سے یہ پوچھنے کی ہے کہ وہ کس ادارے کی بات کررہے ہیں، کیا ان کا حوالہ الیکشن کمیشن کی طرف ہے، عدالتوں کی طرف ہے یا فوج کی طرف ہے، لیکن جیسے آپ کہہ رہے کہ انہوں نے فوج کی بات کی، اگر ایسا ہے تواپوزیشن کی سمجھنے کی یہ بات ہے کہ فوج ایک غیر جانب دار ادارہ ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم آئین اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری سپورٹ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کے ساتھ ہے کسی ایک جماعت کے لیے نہیں ہے لیکن انہیں اگر الیکشن کی شفافیت سے متعلق شکایت ہے تو وہ اس سلسلے میں فوج کو گھسیٹ رہے ہیں تو پہلی بات یہ ہے کہ فوج نے الیکشن میں آئینی اورقانونی ذمہ داری پوری کی ہے’۔

میجر جنرل آصف غفور نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘ پھر بھی انہیں کوئی شکایت ہے تواس سلسلےمیں ایک سال کا عرصہ گزر گیاہے، اس کے باوجود ان کا آئینی حق ہے کہ وہ اپنے تحفظات متعلقہ اداروں کے پاس لے کر جائیں، سڑکوں پرآکر صرف الزام تراشی سے مسئلے حل نہیں ہوتے تو ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ وہ اس اپنے آئینی حق کو استعمال کریں اور جو بھی الزامات ہیں وہاں لے کر جائیں، بجائے اس طرح فوج پر الزام تراشی کریں’۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024