سندھ میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین ناپید، مزید 2 افراد جاں بحق
کراچی: صوبہ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں کتے کے کاٹنے کے بعد زندگی کے تحفط کے لیے دی جانے والی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے مزید 2 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
جس کے بعد صوبے میں انسداد ریبیز ویکسین (اے آر وی) کی کمی کے باعث کتے کے کاٹنے سے اموات کی تعداد 21 تک پہنچ گئی۔
پہلا واقعہ شہر قائد کے علاقے نیو کراچی کے مکین کے ساتھ پیش آیا، جہاں ایک ماہ قبل آوارہ کتے کے کاٹنے سے ریبیرز کا شکار ہونے والا شخص جاں بحق ہوگیا۔
اس حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ 46 سالہ محمد سلیم 6 ہفتوں قبل علاقے کی دکان پر اپنی 4 سالہ بیٹی کے ہمراہ تھا کہ جب ایک آوارہ کتے نے حملہ کیا۔
مزید پڑھیں: کراچی: 2 روز کے دوران کتے کے کاٹنے کے درجنوں واقعات
انہوں نے بتایا کہ والد نے بچی کو بچانے کے لیے کوشش کی لیکن اس سارے عمل کے دوران کتے نے محمد سلیم کے انگوٹھے پر کاٹ لیا۔
دوسری جانب متوفی کے چھوٹے بھائی محمد عامر کا کہنا تھا کہ 'انہیں ابتدائی طور پر سندھ گورنمنٹ ہسپتال نیو کراچی لے جایا گیا تھا اور پھر انہیں عباسی شہید ہسپتال لے جایا گیا لیکن دونوں ہسپتالوں نے ویکیسنیشن سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس اینٹی ریبیز ویکسین نہیں'۔
انہوں نے بتایا کہ 'اس واقعے کے ہفتوں بعد ان کے بھائی کی طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی اور ہم نے بالآخر انہیں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) منتقل کیا لیکن اس وقت تک انہیں مکمل ریبیز ہوچکی تھی'۔
حکام نے بتایا کہ متاثرہ شخص ہسپتال میں دم توڑ گیا، متوفی ایک درزی اور 6 بچوں کا والد تھا۔
واضح رہے کہ حالیہ واقعہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کی سندھ حکومت کے ان دعووں سے متصادم ہے کہ وہ سندھ میں ریبیز سے نمٹنے کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے پاکستان پیپلز پارٹی 2008 سے مسلسل تیسری مرتبہ سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے۔
متوفی کے بھائی محمد عامر کا کہنا تھا کہ 'کچھ روز قبل میں نے دیہی سندھ میں ایک لڑکے کی ویڈیو دیکھی تھی جو اسی وجہ سے اپنی والدہ کی گود میں انتقال کرگیا تھا، مجھے حیرت ہے کہ (کیوں) یہ کراچی جیسے شہر میں ہورہا ہے۔
متاثرہ شخص کے بھائی نے اس ویڈیو کا حوالہ دیا جو ستمبر کے مہینے میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور اس ویڈیو میں شکارپور میں ایک 11 سالہ لڑکے کو ریبیز کے باعث اپنی والدہ کی گود میں دم توڑتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
اس بارے میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکوت پر تنقید ہوئی تھی اور پارٹی کے چیئرمین سے واقعہ کے اگلے دن سوال کیا گیا تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کی زیر قیادت سندھ حکومت کو بچے کی موت کے لیے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: اگر کتا حملہ کردے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟
تاہم ملک کے تجارتی حب اور صوبائی دارالحکومت کراچی میں محمد سلیم کی موت نے اس بحث کو دوبارہ کھولتے ہوئے کئی سوالات اٹھا دیے۔
جے پی ایم سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ ' 40 سے 42 روز قبل کتے کے کاٹنے کے بعد سے (سلیم) کو ریبیز ہوگئی تھی'، ان (سلیم) کے اہل خانہ نے 'ہمیں بتایا کہ انہیں سندھ گورنمنٹ ہسپتال نیو کراچی اور پھر عباسی شہید ہسپتال لے جایا گیا لیکن دونوں کے پاس ویکسین نہیں تھی'۔
انہوں نے کہا کہ اہل خانہ نے کچھ ویکسین مارکیٹ سے خریدی تھی لیکن بظاہر متوفی کو صرف ایک ہی ڈوز دی جاسکی۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ محمد سلیم کو آوارہ کتے کے کاٹنے کے بعد کوئی ویکسین نہیں دی گئی، انہیں کسی دوا کا انجیکشن دیا گیا جو انسداد ریبیز ویکسین کا نہیں تھا، جس کی وجہ سے 40 دن بعد اس شخص میں ریبیز ہوگئی تھی'۔
ریبیز کا شکار 11 سالہ لڑکا جاں بحق
دوسری جانب سندھ کے علاقے چھاچھرو کے قریب رتو جو تھر گاؤں میں آوارہ کتے کے کاٹنے سے 'ریبیر' کا شکار ہونے والا 11 سالہ لڑکا امتیاز سمیجو کراچی میں جاں بحق ہوگیا۔
اس حوالے سے متاثرہ لڑکے کے والد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کو ستمبر کے اواخر میں آوارہ کتے نے کاٹا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر 'وہ اپنے بیٹے کو چھاچھرو میں ہی صحت مرکز میں لے کر گئے تھے جہاں ڈاکٹروں نے ان کے بیٹے کو ایکسپائر ویکسین دی جس کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوئی اور اسے کراچی میں ہسپتال منتقل کرنے کا کہا گیا۔
لڑکے کے والد نے کہا کہ انہیں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹرز نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ لڑکے کو جو ویکسین دی گئی وہ درکار درجہ حرارت پر نہ رکھی گئی ہو جس کی وجہ سے امتیاز کو ریبیز ہوا اور وہ جاں بحق ہوگیا'۔
ساتھ ہی انہوں نے اپنے بچے کی موت پر انکوائری کا مطالبہ کردیا۔
مزید پڑھیں: کتے کن افراد کو زیادہ کاٹتے ہیں؟
دوسری جانب ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر (ڈی ایچ او) تھرپارکر ڈاکٹر ارشاد میمن سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے والد اور اہل خانہ کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ لڑکے کو پہلی ویکسین 10 ستمبر 2019 اور پانچویں اور آخری ویکسین 8 اکتوبر 2019 کو دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ بچے کو دی گئی ویکسین مکمل طور پر ٹھیک تھی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'بعض معاملات میں اس بات کو 100 فیصد یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایک بار سگ گزیدگی کا شکار لڑکا مطلوبہ ویکسین دینے کے باوجود زندہ رہ سکتا ہے'۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔