کربلا: ایرانی قونصل خانے کے قریب فائرنگ سے 3 مظاہرین ہلاک
عراق کے شہر کربلا میں ایرانی قونصل خانے کے نزدیک فائرنگ کرکے 3 مظاہرین کو ہلاک کردیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شعبہ فرانزیک کے سربراہ نے بتایا کہ کربلا میں سیکیورٹی فورسز نے قونصل خانے کی دیوار پر چڑھنے اور اسے آگ لگانے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست اسلحہ استعمال کیا۔
خبررساں ادارے کے نمائندے نے خود اس بات کی مشاہدہ کیا کہ گولیاں لگنے کے باعث مظاہرین نے پیش قدمی روک دی جس کے بعد شعبہ فرانزک میڈیسن نے اس بات کی تصدیق کی کہ 3 افراد گولی لگنے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:عراق میں حکومت مخالف سول نافرمانی کی مہم، سرکاری دفاتر بند
خیال رہے کہ کربلا میں اتوار کی رات مظاہرین کی جانب سے ایران کے قونصل خانے کے اطراف میں لگائے گئے بلاکس پر عراقی پرچم لٹکا دیے گئے تھے اور اسپرے پینٹ سے لکھا گیا تھا کہ کربلا آزاد ہے، ایران جاؤ یہاں سے، جاؤ یہاں سے‘۔
دیگر مظاہرین نے قونصل خانے کی دیوار پر پتھر اور آتش بازی کا مواد پھینکا اور جب پولیس پہنچی تو عمارت کے گیٹ پر موجود ٹائروں کو آگ لگادی گئی بعدازاں جب مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوا تو شدید فائرنگ اور آنسو گیس کے شیل برسائے گئے۔
مظاہرین میں شامل ایک نوجوان نے سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ہوا میں فائر نہیں کررہے تھے، ان کا ارادہ منتشر کرنے کا نہیں بلکہ قتل کرنے کا تھا۔
مزید پڑھیں: عراق: حکومت مخالف مظاہرے جاری، ہلاکتوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر گئی
نوجوان نے مزید کہا کہ وہ ایرانی سفارت خانے کا تحفظ کررہے تھے جبکہ ہمیں صرف ملک چاہیے، آخر کیوں وہ اپنے ہی لوگوں کو ایک دوسرے ملک کے لیے قتل کررہے ہیں؟
خیال رہے کہ عراق کے ایران کے ساتھ قریبی لیکن پیچیدہ تعلقات ہیں ہر سال لاکھوں ایرانی زائرین کربلا میں زیارت کے لیے عراق کا سفر کرتے ہیں۔
لیکن عراقی شہریوں کی بڑی تعداد گزشتہ ایک ماہ سے ایران کے خلاف احتجاج کررہی ہے، جن کا الزام ہے کہ ایران، ان کے ملک میں بدعنوان، ناہل نظام کا سب سے بڑا اسپانسر ہے جسے وہ اٹھا کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ عراق میں تقریباً 2 سال تک نسبتاً امن کی فضا قائم رہنے کے بعد یکم اکتوبر سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں اب تک 250 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں تاہم حکام کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد فراہم نہیں کی جارہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت، 93 ہلاکتوں کی تصدیق
واضح رہے کہ امریکا اور برطانیہ نے نیٹو اتحادیوں کی مدد سے 2003 میں عراق پر حملہ کرکے یہاں صدر صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا لیکن اسی دوران ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا اور یہاں القاعدہ کی اتحادی جنگجو تنظیموں نے قدم جمانے شروع کردیئے تھے اور امریکا و نیٹو اتحاد کے تحت بنائی گئی مقامی حکومت کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔
بعد ازاں 2014 میں داعش نامی مسلح تنظیم نے عراق اور اس کے پڑوسی ملک شام میں خلافت کا اعلان کرتے ہوئے ابو بکر البغدادی کو خلیفہ نامزد کردیا تھا اور ساتھ ہی عراقی حکومت، مقامی سیکیورٹی فورسز اور امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو فورسز پر حملوں کا آغاز کیا تھا جبکہ مذکورہ تنظیم کے حملوں میں بڑی تعداد میں عراقی اور شامی شہری بھی ہلاک ہوئے۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے داعش کے خلاف عراق میں خود بھی بھرپور حملوں کا آغاز کیا اور ساتھ ہی مقامی فورسز اور علیحدگی پسند کردوں کو داعش کے خلاف حملوں میں فضائی اور زمینی مدد فراہم کی، جس کے بعد داعش کو عراق سے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور وہ شام کے سرحدی علاقوں تک محدود ہوگئی جہاں حال ہی میں کارروائی کرتے ہوئے امریکا نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو ایک آپریشن کے دوران ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔