• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

ٹک ٹاک پاکستان کے بارے میں کیا بتاتا ہے

اس ایپ کو پروا نہیں کہ میرا سوشل نیٹ ورک کتنا بڑا ہے، میں کس سے واقف ہوں یا میرے خیال ری ٹوئٹ ہورہے ہیں یا نہیں۔
شائع November 3, 2019 اپ ڈیٹ November 4, 2019

سب سے پہلے جس چیز نے میری توجہ مرکوز کرائی وہ ان کی آوازیں تھیں۔ آپ انہیں جانے بغیر دیکھتے ہیں۔ میں انہیں چند دن سے دیکھ رہی ہوں مگر بہت کم ہی ان کو بولتے سنا۔ میں نے انہیں ان کے بیڈروم، گھروں، کالجز، پسندیدہ ریسٹورنٹس اور مالز میں گھومتے پھرتے دیکھا۔

میں نے انہیں دن کے مختلف اوقات میں دیکھا۔ وہ ایسا سب کچھ کرتے ہیں جیسا میں ان کو کرتے دیکھنا چاہتی ہوں، یا یوں کہہ لیں کہ میں ایسا کرنا سیکھنا چاہتی ہوں۔

سب سے پہلے میں نے سیکھا کہ مجھے کیا پسند ہے اور بتدریج وہ اس تفصیلات میں ڈھلتے گئے اور میرے لیے پرفارم کرنے لگے، میری خواہشات کے مطابق ڈھلنے لگے۔ میں کسی بھی وقت وہ حاصل کرسکتی ہوں جو میں چاہتی ہوں اور میری ضرورت کے مطابق نہ ہونے پر مسترد کرسکتی ہوں۔

میں کہاں ہوں؟ یقیناً ٹک ٹاک میں۔ ویڈیو شیئرنگ سوشل میڈیا ایپ۔

ٹک ٹاک کریٹیرز یا 'محظوظ کرنے والے' جو بیشتر پاکستانی ٹک ٹاکرز خود کو کہتے ہیں، یہ مختصر ویڈیو لپ سنک گانوں، فلمی اور ٹی وی شوز کے ڈائیلاگ یا کئی بار اوریجنل مواد کے ساتھ بنائی جاتی ہے۔ یہ ویڈیو بہت مختصر ہوتی ہیں، درحقیقت آپ ایک ٹک ٹاک ویڈیو اتنے وقت میں دیکھ سکتے ہیں، جتنی دیر میں آپ نے یہ جملہ پڑھا ہوگا۔

میں کچھ وقت سے ٹک ٹاک سے واقف ہوں، فاصلے سے الجھن کے حوالے سے۔ میں نے اس کے بارے میں صرف بری چیزیں ہی سنی، یہ لت کی طرح، یہ ہماری توجہ کی صلاحیت ختم کرسکتی ہے۔ ٹک ٹاک کے بارے میں میرا خیال تھا، میں آپ اس وقت جاتے ہیں جب آپ ایک شخص کی ایسی ویڈیو دیکھنا چاہتے ہیں جو ٹی شرٹ اور شلوار میں ملبوس ہوتا ہے، 2 مرغے ہاتھ میں ہوتے ہیں، دیہی علاقوں کی خواتین کو مرغیاں دیتے ہوئے عمران خان کے خطاب کی نقل کرتا ہے۔

یا اس وقت جب آپ مردوں کے ایسے گروپ کو دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے دوستوں کو بہلا پھسلا کر بستر کی چادر پر لِٹا دیتا ہے اور پھر چاروں کونوں کو پکڑ کر ہوا میں اٹھا کر اسے زمین پر پٹخ کر قہقہے لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ وہ مقام بھی ہے جہاں آپ ایک لڑکے کو گاڑی کی چھت سے الٹی قلابازی اس وقت لگاتے دیکھتے ہیں جب ایک طیارہ سر کے اوپر سے گزرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کو چھو رہا ہے، یا اس وقت جب آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پی آئی اے ائیرہوسٹسز کام کے دوران وقت کیسے گزارتی ہیں۔

ٹک ٹاک ایسا پلیٹ فارم بھی ہے، جہاں، گزشتہ دنوں ہی ایک صارف حریم شاہ تنازع کا باعث اس وقت بنیں، جب انہوں نے دفتر خارجہ کے کانفرنس روم میں اپنی فلم بنائی، جہاں وہ اس کرسی پر براجمان تھیں جو وزیراعظم کے لیے مختص ہے، جبکہ بولی وڈ گانے چل رہے تھے۔

چین سے تعلق رکھنے والی کمپنی بائٹ ڈانس کی پراڈکٹ ٹک ٹاک چین سے باہر 2017 میں متعارف ہوئی اور بہت تیزی سے مقبول ہوئی، جس کے 2019 میں 54 کروڑ سے زائد عالمی صارفین ہیں، جبکہ ماہانہ صارفین کی تعداد کے حوالے سے یہ ٹوئٹر یا اسنیپ چیٹ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

اس ایپ کی تیزی سے مقبولیت میں اس کے ڈیزائن کا بڑا حصہ ہے، یہ آپ کو گرفت میں لینے کے لیے بنی ہے۔ ٹک ٹاک میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو یہ جاننے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ آپ کو کیا پسند ہے اور پھر آپ کے حسب ذائقہ ویڈیوز کی ختم نہ ہونے والی اسکرولنگ شروع ہوجاتی ہے۔

میں نے ٹک ٹاک کو اکتوبر میں ڈاﺅن لوڈ کیا اور 10 دن میں سیکڑوں 15 سے 60 سیکنڈ کی ویڈیوز دیکھ کر ایپ کی مقبولیت کو سمجھا۔ میں نے ٹاک ٹاک بنانے والوں سے بات کی جن کی ویڈیوز آپ کو پاگل کرتی ہیں اور ہر بار جب میں نے کسی سے انٹرویو کے لیے رابطہ کیا، جہاں میں نے ان کی آوازیں سنیں، میں نے ان کے چہروں کو دیکھتے ہوئے دن گزارے، جو فون کیمرے کو سیلفی موڈ پر خود فلماتے ہوئے ہاتھ بھر کے فاصلے پر تھے، میں ان کے تاثرات سے واقف ہوئی، میں نے انہیں اداس، خوش یا مشتعل دیکھا۔

کچھ مواقع پر تو میں بھول گئی کہ میں درحقیقت ان میں سے کسی کو نہیں دیکھ رہی، یہ تو صرف نقل ہے اور اداسی، خوشی یا غصے کے تاثرات 15 سیکنڈ کی ویڈیو کے اختتام پر غائب ہوجاتے ہیں۔

فیس بک کو ٹکر کا حریف مل گیا

بائٹ ڈانس بہت تیزی سے فیس بک کے میدانوں ورچوئل اور حقیقت میں ابھری ہے، سلیکون ویلی میں ایک دفتر کھول چکی ہے اور ترقی کے لیے فیس بک کے ملازمین کی خدمات حاصل کررہی ہے۔

یہ ایپ بہت تیزی سے ہماری توجہ کا مرکز بنی اور جوان، عام طور پر نوجوان یا عمر کی تیسری دہائی کے اوائل کے افراد میں زیادہ پسند کی جاتی ہے۔

جب آپ ایپ کو اوپن کرتے ہیں، تو اسکرین کے اوپر موجود فون کلاک غائب ہوجاتی ہے اور 2 ٹیب سامنے آتے ہیں،' ڈسکور' جہاں آپ ٹرینڈنگ ویڈیوز یا ہیش ٹیگز دیکھتے ہیں اور دوسرا 'فار یو'، جہاں ان کیٹیگریز کی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں جو اس ایپ کے خیال میں آپ کو پسند آسکتی ہیں۔

میں ٹوئٹر یا فیس بک کے ڈسکوری فارمیٹ سے واقف ہوں، جہاں میں وائرل ویڈیوز کو دیکھتی ہوں۔ مگر جب مجھے خود سرچ کرنا پڑا تو میں نے کیا تلاش کیا؟ میں نے عام چیزوں سے آغاز کیا جیسے کتے، پاپ سانگ، سیاسی شخصیات وغیرہ۔ عمران خان کی ایک ویڈیو دیکھتے ہوئے میں نے ہیش ٹیگ جیو نیوز دیکھا، جو اب میری پسندیدہ ٹک ٹاک کیٹیگری ہے، جہاں خبروں کی پیروڈی ہوتی ہیں۔

ان میں سے متعدد ویڈیوز ٹوئٹر پر پوسٹ ہوتی ہیں جہاں آپ 15 سیکنڈ کے کلپ میں دیہاتی افراد کو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شہزادہ محمد بن سلمان کو نورخان ائیربیس پر ریسیو کرنے کی نقل کرتے دیکھتے ہیں، جو شہزادے کو بیل گاڑی کی جانب لے جاتے ہیں جبکہ شاہی دورے کے لیے جیو نیوز ہیڈلائن کی دھن پیچھے بج رہی ہوتی ہے۔

میں جتنا وقت ٹک ٹاک پر گزار رہی ہوں، یہ اتنی ہی زیادہ اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ اس ایپ میں مجھے کسی کی زندگی کی اپ ڈیٹس جاننے کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی کی تعطیلات کی تصاویر دیکھ کر حسد کرنے کا موقع نہیں ملتا، مجھے کسی کی سالگرہ یاد رکھنے کی ضرورت نہیں یا ان کے بچے کو کھانا ان کے چہرے پر دیکھنا نہیں پڑتا۔

اس ایپ کو پروا نہیں کہ میرا سوشل نیٹ ورک کتنا بڑا ہے، میں کس سے واقف ہوں یا میرے خیال ری ٹوئٹ ہورہے ہیں۔ جس واحد چیز کی اس ایپ کو پروا ہے اور مجھے دینا چاہتی ہے، وہ ہے مجھے اچھا محسوس کرانا، یہ سوشل میڈیا نہیں، یہ تو بہت ذاتی ہے۔

اگرچہ ٹک ٹاک دیگر سوشل میڈیا ایپس سے مختلف ہے مگر یہ ان مختلف وجوہات کی بنا پر شہ سرخیوں میں رہتی ہے جن کا سامنا دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھی ہوتا ہے۔ رواں برس بائٹ ڈانس پر ہانگ کانگ کے مظاہرین کی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کے الزام کا سامنا ہوا۔

مقبول ایپ میوزیکلی کو بائیٹ ڈانس خرید کر 2018 میں ٹک ٹاک کا حصہ بنایا تھا، اور اس کے بارے میں دریافت ہوا کہ وہ غیرقانونی طور پر کم عمر بچوں کے نام، تصاویر اور دیگر ڈیٹا اکٹھا کررہی ہے، ٹک ٹاک پر بھارتی صارفین کے خلاف نفرت انگیز مواد کو نظرانداز کرنے کا الزام بھی لگا جبکہ 4 اراکین پارلیمان نے اس پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

یہاں تک کہ ٹک ٹاک ویڈیو کے نتیجے میں قتل کی خبریں بھی موجود ہیں، حال ہی میں اگست کے مہینے میں تامل ناڈو میں ایک ویڈیو میں دلت کو کتے اور کم ذات قرار دیا گیا جو وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد اس ویڈیو کو بنانے والے ایک صارف نے دیگر کو اس بحث کے بعد قتل کردیا کہ اس ویڈیو کو بنانے کا آئیڈیا کس کا تھا۔

پابندی کا مطالبہ

ایسے وقت جب ہم آن لائن ٹی وی شوز مسلسل دیکھتے ہیں، یہ ایپ ہمیں وہ تفریح فراہم کرتی ہے جس کو ہم پسند کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، یعنی مستحکم اور بلاتعطل اسٹریم، مگر یہ دیکھنا کہ اگلی ویڈیو کس طرح آخری ویڈیو کو پیچھے چھوڑتی ہے، ہمارے لیے کچھ نیا ہے، کچھ حیران کن اور کچھ پُرمزاح بھی۔

27 سالہ وکیل ندیم سرور اسے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور انہوں نے اگست میں لاہور ہائیکورٹ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے لیے درخواست اس وقت دائر کی، جب ان کے علاقے کے کچھ والدین نے شکایت کی کہ ان کے بچے ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھنے یا بنانے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔

انہوں نے ایپ کو انسٹال کیا اور پریشان ہوگئے، انہوں نے مجھے بتایا 'اس کی کچھ ویڈیو اور پورن میں بہت کم ہی فرق ہوتا ہے، میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک خاتون بچے کو دودھ پلارہی ہے۔ ایسی ویڈیوز تو آپ گھر میں اکیلے بھی دیکھیں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ بھارت میں رقص یا جسم دکھانے والے ملبوسات پر پابندیاں نہیں، مگر وہاں بھی پابندی کا مطالبہ ہورہا ہے۔ یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے اور ہم اس کی اجازت دے رہے ہیں؟'

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں مقدمہ جیتنا ان کا مقصد نہیں 'ہم ٹک ٹاک پر لوگوں کی ویڈیوز کے حوالے سے زیادہ کنٹرول اور اصول و ضوابط چاہتے ہیں تاکہ ان کے مواد کو مانیٹر کرسکیں، میں جانتا ہوں کہ میری پٹیشن میڈیا کی توجہ حاصل کرے گی۔ مجھے توقع ہے کہ والدین بھی یہ جان سکیں گے کہ ان کے بچے اس ایپ میں کیا کررہے ہیں'۔

ٹک ٹاک سے دور افراد میں اس حوالے سے 2 عام ردعمل سامنے آتے ہیں، کچھ تو اس کے حوالے سے الجھن کا شکار ہیں جبکہ دیگر اسے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

مگر ندیم سرور پسند کریں یا نہ کریں، اس ایپ کی مقبولیت میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ یوزر فرینڈلی ہے کیونکہ یہ صرف ویڈیوز کے گرد گھومتی ہے اور زبان کی بندش نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس انٹرنیٹ سے کنیکٹ ایک فون کی ضرورت ہے، جس کے بعد ہم ملک بھر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہزاروں ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں، ایسے افراد کی جنہوں نے کبھی کسی بڑے ریسٹورنٹ میں نفاست سے سجی سلاد کی تصاویر اپ لوڈ نہیں کیں، یا ان کی جو کبھی ریسٹورنٹ ہی نہیں گئے۔

کچھ افراد اسے پسند نہیں کرتے اور وہ ٹک ٹاک کو بہت زیادہ عوامی قرار دیتے ہیں، آخر وہ ایک دیہاتی کی زندگی کا وہ حصہ کیوں شیئر کریں کہ وہ کس طرح روزگار کمارہا ہے؟۔ ویسے تو ہم ٹک ٹاک کو بس تفریح قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں، مگر میں نے دریافت کیا کہ اس ایپ میں موجود افراد اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ اپنے ناظرین کو کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے مقابلے میں بہت زیادہ رسائی فراہم کررہے ہیں۔

تو اس پلیٹ فارم میں انہوں نے اپنی آواز کیسے بلند کی اور وہ اسے کس طرح استعمال کررہے ہیں؟

ٹک ٹاک صارفین

پھلو : ایک عام انسان

13 لاکھ فالورز

27 سالہ توقیر عباس المعروف پھلو منڈی بہا الدین کے قریب واقع قصبے ڈھوک شاہانی کا رہائشی ہے، جس کے 6 بچے ہیں۔ 7 برس تک اس نے ایک زمین دار کے لیے 600 روپے روزانہ دیہاڑی پر کام کیا۔ ایک سال قبل اس کے دوست عبدالمنان نے پھلو سے کیمرے کے سامنے ایک گیت گانے کی نقل کرنے کا کہا۔

عباالمنان کے مطابق 'میں نے بھارتی لڑکے اسرائیل انصاری کی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھیں اور جب میں نے دیکھا کہ وہ اس طرح مزاحیہ انداز سے رقص اور اداکاری کرتا ہے، تو میں نے سوچا پھلو بھی ایسا کرسکتا ہے، وہ بہت ہی سادہ سا بندہ ہے اور کیمرے کے سامنے نروس بھی نہیں ہوتا، تو مجھے لگا کہ ہارنے کے لیے کچھ نہیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرح مشہور ہوجائے'۔

پھلو کیمرے کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے کام سے وقفہ لیتا جو وہ روز کرتا، اس کا بھورا کرتا پسینے سے شرابور ہوتا، وہ پڑھ یا لکھ نہیں سکتا۔

پھلو نے ہر طرح کی ویڈیوز کو آزمایا : وہ ایک گدھے پر کھڑا ہوا، ایک مائیک کو لیا اور ایک عشقیہ گانے پر لب ہلائے، نیون گرین سن گلاسز پہن کر پُرمزاح رقص کیا، اس کے بقول 'یہ بس تفریح کا ایک ذریعہ ہے'۔

ایک دن اس نے اپنے بیٹے کی نعت کی ویڈیو بنائی، جسے 12 لاکھ بار دیکھا گیا جب پھلو کسی گانے، فلمی ڈائیلاگ کی بجائے اپنی ذات تک محدود رہتا ہے یا اپنی زندگی کا کوئی گوشہ شیئر کرتا ہے تو لوگوں کو وہ زیادہ پسند آتا ہے۔

جب وہ کھیتوں میں کام کی ویڈیوز بناتا ہے تو فالورز کی تعداد بڑھنے لگتی ہے، کئی بار وہ مصروف ہوتا ہے اور ویڈیوز نہیں بنا پاتا تو فالورز پریشان ہوجاتے ہیں، جن کو ایک ویڈیو میں اس نے کہا 'ٹینشن نہیں لینی، گندم کاٹ رہا ہوں، اس لیے ویڈیو نہیں بنارہا'۔

عبدالمنان اب اس کے 'منیجر' بن چکے ہیں اور انہوں نے پھلو کے لیے ایک مخصوص فقرے کی ضرورت پر زور دیا اور اسے کہا کہ وہ اپنی ویڈیوز السلام و علیکم سسٹرز اینڈ برادرز سے شروع کریں۔

پھلو اسے ششٹرو اور بلیدرو بولتا ہے اور دیکھنے والے بھی اسے پسند کرتے ہیں۔

پھلو کے مطابق 'شروع میں پنڈ کے لوگ میرا مذاق اڑاتے تھے، مگر پھر منڈی بہا الدین کے لوگ یا میرے زمین دار کے دوست میرے ساتھ ویڈیو میں آنے کی خواہش ظاہر کرنے لگے'۔

پھلو اور منان آنے والے افراد کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے سامنے ویڈیوز بناتے ہیں، ستمبر میں پھلو ایک میوزک ویڈیو میں نظر آیا جس میں ایک گانا تھا 'مہران گڈی'۔ اس نے اسلام آباد کا سفر کیا جہاں کپڑے کی دکان کے مالک مداح نے اس کے لیے شیروانی تیار کرکے اسے پہنائی۔

ایک گلوکار نے اسے ایک رنگ لائٹ بطور تحفہ دی جس سے اب وہ بہتر روشنی میں ویڈیوز بنارہا ہےاس کے علاوہ اس نے ایک موبائل فون بھی جیتا۔

ویسے تو اسے بہت زیادہ حوصلہ بخش کمنٹس ملتے ہیں مگر پھلو جانتا ہے متعدد افراد اس کی ویڈیوز اس کا مذاق اڑانے کے لیے دیکھتے ہیں 'میں ایک پنڈو ہوں اور میں فرفر انگلش نہیں بولتا، مگر میں دکھاتا ہوں کہ میں کیسے زندگی گزارتا ہوں، کیا غذا ہم کھاتے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں'۔

پھلو نے اسلام آباد اور جہلم میں 2 ایونٹس میں فی کس 15 ہزار روپے لے کر شرکت کی، عبدالمنان یوٹیوب پر کام کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ ویڈیوز سے کماسکیں گے، ان کا کہنا ہے 'اس کے 10 لاکھ سے زائد فالورز ہیں تو ہم اب خوش آمدیدی تقاریب میں کم از کم 30 ہزار روپے فیس کے بغیر شرکت نہیں کریں گے'۔

اب اس کے پاس پاسپورٹ بھی ہے اور نومبر میں وہ معاوضہ لے کر دبئی جارہے ہیں جہاں مختلف تقاریب میں شرکت کریں گے۔

جب میں نے پھلو سے پوچھا کہ اس کے بچے اس کی ویڈیوز دیکھتے ہیں تو اس کا جواب تھا 'نہیں، میں انہیں اپنا فون نہیں دیتا، میں چاہتا ہوں کہ وہ پڑھائی کریں اور اس سے دور رہیں'۔

عبدالمنان نے بتایا کہ پھلو کی بیٹیاں کبھی ٹک ٹاک نہیں دیکھیں گی 'توبہ کریں، ہمارے گاﺅں کی کوئی خاتون ٹک ٹاک نہیں دیکھتی، اگر اس نے ایسا کیا توآپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ لوگ اس کا کیا حال کریں گے'۔

سونو : دی لور

5 لاکھ 70 ہزار سے زائد فالورز

ارسلان المعروف سونو ایک 22 سالہ نوجوان ہے جو کوئٹہ سے تعلق رکھتا ہے مگر اب کراچی میں رہائش پذیر ہے، جہاں اس کے بقول وہ کچھ زیادہ نہیں کررہا۔ اس نے ماڈلنگ کی کوشش کی مگر پھر اسے چھوڑ دیا کیونکہ 'وہ کسی پابندی کو نہیں چاہتا'۔

اس کا کہنا ہے 'روزگار کے لیے میری پوری زندگی پڑی ہے'۔

سونو کا خواب ہمیشہ سے یہ تھا کہ پورا پاکستان اس کے نام سے واقف ہو اور اب اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر سے روٹی لینے بھی جائے تو ٹک ٹاک کی بدولت کوئی نہ کوئی اسے پہچان کر سیلفی کا مطالبہ کرتا ہے۔

سونو رومانوی ویڈیوز کا ماہر ہے جن میں وہ مایوس عاشق نظر آتا ہے، فیس فلٹرز سے آنکھیں سرخ کی جاتی ہیں جیسے وہ روتا رہا ہو، محبت سے محرومی کے گانوں پر لب ملاتا ہے، اور اس کے فالورز بھی یہ پسند کرتے ہیں، ایک خاتون نے کمنٹ کیا تم میرے سابق بوائے فرینڈ جیسے ہو۔

مگر کمنٹس یا لوگوں کی جانب سے پہچاننے کو وہ اپنی کامیابی نہیں قرار دیتا، درحقیقت اس کا سب سے فخریہ لمحہ وہ تھا جب ایک لڑکی کے ذریعے اس نے جاننا چاہا کہ وہ کتنا مقبول ہے 'میں ہر وقت اسے میسج کرنے کا عادی ہوگیا تھا مگر مجھے کبھی جواب نہیں ملا۔ ایک دن میں رک گیا، میں نے ایک ایسے دن کی دعا کی جب میں اسے نظرانداز کرسکو'۔

اسے حال ہی میں اس لڑکی کی فون کال موصول ہوئی اور اس نے کہا 'یہ میں ہوں، میں وہی لڑکی ہوں'۔

جس پر سونو نے جواب دیا 'ہاں، مگر میں وہ لڑکا نہیں رہا'۔

اس نے مجھے بتایا 'یہ وہ دن تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ میں نے حقیقی کامیابی حاصل کرلی ہے'۔

سونو ٹک ٹاک میں ایک خاتون کی محبت میں گرفتار ہوا اور ایک دن اسے ٹک ٹاک بنانے والوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا، جہاں وہ خاتون بھی تھی۔ انہوں نے چیٹنگ شروع کی اور سونو کے خاندان نے رشتہ بھیجا ، خاتون کے خاندان کو ایک اعتراض تھا کہ سونو لڑکیوں کے ساتھ ویڈیوز کیوں بناتا ہے؟۔

تو اب کوئی مداح کسی ویڈیو کا کہتا ہے تو وہ انکار کردیتا ہے 'میں انہیں کہتا ہوں کہ وزیراعظم کا حکم آیا ہے کہ اب میں یہ کام مزید نہ کروں ورنہ ٹک ٹاک پر پابندی لگ جائے گی'۔

رومیسا خان اور جینس تیسا ( JANICE TESSA) : اداکارائیں

11 لاکھ اور 2 لاکھ 31 ہزار سے زائد فالورز

19 سالہ رومیسا کراچی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں جبکہ 21 سالہ جینس لاہور میں پڑھ رہی ہیں۔ یہ دونوں ٹک ٹاک کے ذریعے دوست بنیں اور وہ ایک دوسرے کی ویڈیوز پر کمنٹس کرتی ہیں، تعریف یا اکٹھے مل کر مذاق اڑانے کی کوشش پر جواب دیتی ہیں۔

رومیسا کے والد تنویز اختر خان 30 سال تک اسٹیج اداکار کے طور پر کام کرتے رہے اور پھر انتقال کرگئے۔ رومیسا میوزیکلی میں ویڈیوز بناتی تھی اور اس کے والد اس ہسپتال کی نرسوں کو وہ ویڈیوز دکھاتے، جہاں ان کے کینسر کا علاج ہورہا تھا۔

انہوں نے اپنی بیٹی میں اداکاری کی قدرتی صلاحیت کو دیکھا، 8 ویں جماعت میں اس نے ایک ڈراما لکھا، اسے ڈائریکٹ کیا اور 4 کردار بھی ادا کیے۔

رومیسا کا ٹک ٹاک اکاﺅنٹ اس وقت تک پرائیوٹ تھا جب تک اسے یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ اسے انسٹاگرام اکاﺅنٹ سے لنک کرسکتی ہے۔ جیسے ہی وہ پبلک ہوا، اس کے انسٹاگرام فالورز کی تعداد 2 لاکھ 32 ہزار تک پہنچ گئی۔

یہ ان کمپنیوں کے لیے اہم تھا جو پیڈ مواد کے لیے اس کی خدمات حاصل کرتے اور بہت جلد ہی اسے یوفون اور سپر بسکٹ کے اشتہار میں کام ملا، الکرم کے ساتھ ایک فیشن ویڈیو کی جبکہ پیپسی کے لیے ایک انسٹاگرام اسٹوری۔

مگر وہ تقاریب میں بہت کم شرکت کرتی ہے جس کی وجہ ایک تجربہ تھا جہاں لڑکیوں کے گانوں پر لپ سنک یا ایونٹس میں رقص کو فلمبند کیا گیا اور سوشل میڈیا پر مردوں نے اسے فحش قرار دے کر مذاق اڑایا۔ رومیسا ایسے ایونٹس میں 40 ہزار روپے لے کر شرکت کرتی تھی مگر اب وہ 90 ہزار سے کم پر نہیں مانتی۔

رومیسا اور جینس بتاتی ہیں کہ ٹک ٹاک پر متعدد لڑکیاں سوچتی ہیں کہ ایک مخصوص روپ ہی توجہ کا مرکز بنتا ہے، اکثر جینس کے فالورز اسے رنگت صاف کرنے والی کریموں کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں اور 'کالی' کہتے ہیں۔ ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی نے اس سے اشتہار کے لیے رابطہ کیا اور پھر کہا کہ انہیں صاف رنگت والی ماڈل چاہیے۔

جینس کے مطابق 'مجھے لگتا ہے کہ کمپنی کا خیال ہے کہ گہری رنگت والی لڑکیاں ان کی سم استعمال نہیں کرتیں'۔

کمنٹس میں اکثر ان دونوں خواتین کو دوپٹہ اوڑھنے کا کہا جاتا ہے یا شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رومیسا کی ایک ویڈیو پر ایک شخص نے کمنٹ کرتے ہوئے پوچھا کہ اس کے والدین اسے ویڈیوز بنانے کی اجازت دیتے ہیں تو رومیسا کی والدہ، جو ٹک ٹاک پر ہیں، نے جواب دیا 'میں یہاں ہوں، جو چاہے مجھ سے پوچھ لیں'۔

جینس اور رومیسا ٹک ٹاک کو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں بریک کے ذریعے کے طور پر دیکھتی ہیں، جس میں عام طور پر نئے افراد کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا ہے جبکہ بولی وڈ اور ہولی وڈ جیسا منظم اسٹرکچر بھی موجود نہیں۔

جینس کے مطابق 'آپ کو آن لائن توجہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوامی شخصیت کے طور پر نظر آئیں اور اس طرح کام کے مواقع حاصل کرسکیں'۔

انگلش میں مکمل پڑھیں


صنم مہر ’سینسیشنل لائف اینڈ ڈیتھ آف قندیل بلوچ‘ کی مصنفہ ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر SanamMKhi فالو کیا جاسکتا ہے۔

یہ مضمون 3 نومبر کے ڈان ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔