عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس کرنے پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
عدالت عالیہ کی جانب سے توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے تحت نوٹس جاری کیا گیا۔
نوٹس میں کہا گیا کہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں عدلیہ پر تنقید کی اور کہا کہ نواز شریف کو ضمانت دینے کا حکم مختلف بیماریوں کا سامنا کرنے والے قیدیوں کو اسی طرح کی درخواستیں دینے کے لیے راستہ کھولے گا۔
توہین عدالت کے نوٹس میں کہا گیا کہ فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بدنام کرتے ہوئے کہا کہ بیمار نواز شریف کی رہائی پر درخواست کی سماعت خصوصی طور پر کی۔
مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی سزا 8 ہفتوں کیلئے معطل
معاون خصوصی کو جاری نوٹس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کی ترجمان کے طور پر اپنے اس بیان سے عوام کی نظر میں عدلیہ کو اسکینڈلائز، عدلیہ کے وقار کو نیچا دکھانے کی کوشش کی، وزیراعظم کی معاون خصوصی کے طور پر آپ کا عدلیہ سے متعلق بیان غیر ضروری ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری نوٹس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات کو یکم نومبر (جمعہ) کو صبح 9 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا۔
ساتھ ہی شوکاز نوٹس میں یہ کہا گیا کہ فردوس عاشق اعوان بتائیں کہ کیوں ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔
واضح رہے کہ ہفتہ 26 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی درخواست پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو 29 اکتوبر تک طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی۔
اس ضمانت کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے پریس کانفرنس کی تھی، جس میں نواز شریف کی ضمانت اور عدالتی کارروائی پر بات کی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 8 ہفتوں کے لیے سزا معطل کردی تھی۔
عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کی جاتی ہے جس کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف کو 8 ہفتے کے لیے ضمانت پر رہا کیا جائے، بیس بیس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرائے جائیں جبکہ 8 ہفتوں کی رہائی کی مدت ضمانتی مچلکے داخل ہونے کے بعد شروع ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: 'حکومت کیسے بتا سکتی تھی نواز شریف کی صحت ٹھیک رہے گی یا نہیں؟'
عدالت کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی صحت ناساز رہنے کی صورت میں 8 ہفتے کی مدت ختم ہونے سے قبل پنجاب حکومت سے رجوع کیا جائے جبکہ صوبائی حکومت جب تک نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ نہ کرے ان کی ضمانت برقرار رہے گی۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ اگر نواز شریف نے صوبائی حکومت سے رابطہ نہ کیا تو 8 ہفتے کی مدت کے بعد ان کی ضمانت ختم تصور ہو گی۔
اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے پریس کانفرنس کی تھی اور عدالتی فیصلے اور عدالتی کارروائی پر بات کی تھی۔