• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

'جسٹس فائز عیسیٰ اپنی اور اہلخانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں'

شائع October 29, 2019
جسٹس قاضی فائز عیسی کو صدارتی ریفرنس کا سامنا ہے۔ — فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسی کو صدارتی ریفرنس کا سامنا ہے۔ — فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس رکوانے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ان کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اور اپنے اہلخانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے سماعت کی، جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔

منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ میرے موکل کو ٹیکس ریٹرن اور اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق نوٹس بھیجے گئے جن میں 2015 سے 2018 تک کی تفصیلات مانگی گئیں، جبکہ متعلقہ تفصیلات پہلے ہی جمع کرائی جاچکی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو قاضی فائز عیسیٰ کی 2009 سےدسمبر 2018 تک کی سفری معلومات فراہم کیں۔

مزید پڑھیں: ’جسٹس فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی تلاش کیلئے متعلقہ اتھارٹی سے اجازت نہیں لی‘

انہوں نے کہا کہ 'میرے موکل اور ان کے اہلخانہ کی جاسوسی کیسے ہوئی یہ ہمیں بھی نہیں پتا تاہم مبینہ جاسوسی کے دنوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہلخانہ بیرون ملک نہیں گئے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ 'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اور اپنے اہلخانہ کی جاسوسی پر بیان حلفی دینے کو تیار ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق جائیدادوں کے ایڈریس لینے کیلئے جاسوسی کی گئی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت کو جسٹس فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کی جائیداد کا علم کیسے ہوا کچھ نہیں بتایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'معزز جج کے اہلخانہ کی لندن میں 10 سالہ سرگرمیوں کی رپورٹ لینے کے لیے نجی سیکیورٹی ایجنسی کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا کیس یہ ہے کہ جو الزامات عائد کیے گئے سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں جس پر منیرے اے ملک نے کہا کہ میرا کہنا یہ تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی واحد ادارہ ہے جو کسی بھی جج کے خلاف شکایت کی صورت میں انکوائری کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ کونسل کے اختیارات کو نظر انداز کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائرعیسیٰ کے خلاف تحقیقات انتظامیہ کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں اور کابینہ کی منظوری کے بغیر ریفرنس بھیجنا درست نہیں۔

منیراے ملک نے کہا کہ میرا کیس ہی یہ ہے کہ صدر ریفرنس بھجوانے کے لیے کابینہ کی منظوری کے پابند تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'کونسل کو ریفرنس پر کاروائی سے پہلے ان پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے تھا'۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

ان کا کہنا تھا کہ 'انتظامیہ کی جانب سے عدلیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش اور بد نیتی پر مبنی ریفرنس کو خارج ہونا چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف دائر درخواستوں پر مزید سماعت 4 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ریفرنس کو چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔

انہوں نے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا باعث نہیں ہورہا۔

خط میں انہوں نے کہا تھا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024