آزادی مارچ: پشاور ہائی کورٹ کا صوبائی حکومت کو شاہراہیں بند نہ کرنے کا حکم
پشاور ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ’آزادی مارچ‘ کے شرکا کو روکنے کے لیے شاہراہوں پر رکاوٹیں لگا کر انہیں بند نہ کرنے کا حکم دے دیا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کو روکنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
مذکورہ پٹیشن جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے عظمت علی اور عبیداللہ کے توسط سے صوبائی حکومت کے کنٹیرز لگا کر سڑکوں کو بلاک کرنے کے اقدام کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ آزادی اظہار رائے اور احتجاج کرنا شہریوں کا آئینی حق ہے، صوبائی حکومت غیر قانونی طور پر شاہراہوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھین: ’ آزادی مارچ‘ کے پیشِ نظر پولیس کی انسداد فسادات مشقیں
سماعت میں چیف جسٹس وقار احمد نے ریمارکس دیے کہ خبروں میں سنا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی معاہدہ طے پایا ہے۔
انہوں نے ہدایت کی کہ ٹی وی چینلز جتنا وقت حکومت کو دیں گے اتنا ہی اپوزیشن کو بھی دیا جائے۔
عدالت میں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل آفس کا نمائندہ پیش نہ ہونے پر بھی برہمی کا اظہار کیا تاہم سماعت میں موجود ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مظاہرین کے ساتھ قانون کے مطابق پیش آنے کی یقین دہانی کروائی۔
عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت کو حکم دیا کہ اٹک تک کوئی سڑک کنٹیر لگا کر بند نہ کی جائے اس کے ساتھ انہوں نے مارچ کے شرکا کو بھی پر امن رہنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: ’آزادی مارچ‘ سے متعلق ہدایت نامے سے دھرنا طویل ہونے کا اشارہ
خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے حکومت کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا جسے ’آزادی مارچ‘ کا نام دیا گیا تھا۔
پشاور ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت میں عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومت، خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل (آئی جی)، سیکریٹری داخلہ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے حکام کو نوٹس جاری کردیا۔
ہائی کورٹ نے جے یو آئی (ف) کی درخواست پر فریقین کو 29 اکتوبر تک جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت اس وقت تک کے لیے ملتوی کردی۔
جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘
واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ مستعفی ہوکر گھر چلی جائے اور اگر یہ خود نہیں جاتے تو ہم ان کو گھر بھیجیں گے'۔
ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔
مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمٰن متحرک
تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری جانب دھرنے میں شرکت کے حوالے سے مرکزی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کے درمیان بھی اختلافات کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
بعدازاں 18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کے حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا۔
ادھر حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔
تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے لیکن ان کی جماعت کے رہنما نے کہا تھا کہ جماعت نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔
جے یو آئی (ف) کی جانب سے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی اطلاعات سامنے آنے پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس ضمن میں ایک پی پی پی عہدیدار نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت پر پی پی پی کو اعتماد میں نہیں لیا اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ف) کا فیصلہ اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیے کی خلاف ورزی ہے۔
پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضگی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اپوزیشن کے آزادی مارچ پر تبادلہ خیال کیا تھا جس کے بعد مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔