پیمرا کا متنازع فیصلہ: وزرا اور صحافتی تنظیموں کی شدید مذمت
میڈیا پرسن اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سمیت کابینہ کے اراکین نے بھی اینکر پرسن کی حالات حاضرہ (کرنٹ افیئر) کے پروگرامز میں بطور تجزیہ کار شرکت کی ممانعت سے متعلق پیمرا کے نوٹی فکیشن کو تنقید کا نشانہ بنا دیا۔
چاروں اطراف سے ہونے والی تنقید کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ پیمرا نے احکامات عدالتی فیصلے کی روشنی میں جاری کیے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ‘کسی اینکر کو بولنے سے نہیں روکا گیا، ان کے پاس سب کچھ اور ہر چیز پر تبادلہ خیال کے لیے اپنے شوز ہیں’۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے پیمرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’پیمرا کا حیرت انگیز فیصلہ سامنے آیا کہ اینکرز کو کسی دوسرے ٹاک شو میں جا کر اپنے اظہار خیال سے روک دیا‘۔
مزید پڑھیں: پیمرا کا نجی چینل کو وزیر اعظم کی نجی زندگی سے متعلق 'جھوٹی خبر' دینے پر معافی چلانےکا حکم
اسد عمر نے پیمرا کو قدرے بہتر کام کرنے کا مشورہ دینے کے ساتھ کہا کہ ’پیمرا کو جعلی خبروں (فیک نیوز) کے سدباب پر کام کرنا چاہیے نہ کہ اینکر سمیت کسی بھی انفرادی شخص کو اظہار خیال کے بنیادی حق سے روکا جائے‘۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے پیمرا کے نوٹی فکیش پر قدرے طنزیہ پیمرا سے پوچھا کہ یہ بھی بتا دیں کہ سیاسی معاملات کا ماہر کون ہوتا ہے؟
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ ایکسپرٹ کون ہے؟ تعلیمی اور غیر سیاسی سطح پر زبردست بحث و مباحثہ شروع ہوگیا: کیا سیاست کا ایکسپرٹ ہونے کے لیے مجھے سیاست کی ڈگری لینی ہوگی؟ میرے پاس انسانی حقوق کی ڈگری نہیں اس لیے مجھے ٹی وی پر انسانی حقوق سے متعلق مسائل پر بات نہیں کرنی چاہیے؟ ۔
یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے اینکرز کو پروگرامز میں تجزیہ پیش کرنے سے روک دیا
شریں مزاری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’کیا مجھے خارجہ اور دفاعی پالیس پر تبصرہ کرنے کے لیے آئی آر یا جنگی تذویراتی/ حکمت عملی میں ڈگری حاصل کرنی چاہیے؟‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’انفارمیشن کے لیے مجھے کون سے ڈگری لینی چاہیے؟ کیا ڈگری قابلیت صلاحیت طے کرتی ہے؟
بعدازاں ڈاکٹر شیریں مزاری کے موقف کی سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تائید کی اور کہا کہ ’پیمرا کے احکامات غیر منطقی، غیرضروری اور مقصدیت سے عاری ہیں‘۔
دوسری جانب کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے ٹی وی اینکر کو بطور تجزیہ کار آنے کی ممانعت پر تشویش کا اظہار کیا۔
مزیدپڑھیں: پیمرا نے تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی پر پابندی عائد کردی
سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے پیمرا کے نوٹی فکیشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی تفویض کرتا ہے اس لیے سپریم کورٹ کے نام پر ایسے احکامات ’ناقابل فہم‘ ہیں۔
پاکستان الیکڑونک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن نے پیمرا کے فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا۔
ادارے کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’پیمرا نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں آزاد ذرائع ابلاغ پر قدغن لگانے کی کوشش کی‘۔
انہوں نے پیمرا سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر نوٹی فکیشن واپس لے۔
مزیدپڑھیں: پیمرا نے نجی چینل کے پروگرام پر ایک ماہ کی پابندی عائد کردی
اعلامیے میں کہا گیا کہ پیمرا کی ہدایات آمرانہ اقدام کی عکاسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ پیمرا کے دائرے کار میں نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ ٹی وی شوز پر کون مہمان، ماہر اور اسپیکر ہو‘۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں، آئین کے تناظر میں حکومت جوابدہ ہے‘۔
علاوہ ازیں اینکرز کی جانب سے قدرے دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا، ’ہم لڑائی کرنا جانتے ہیں، ہم نے جمہوری اقدار، جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خلاف کھڑے ہوئے، ہم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑی، ہمارے دوستوں کو مشکلات کا سامنا رہا، دھمکیاں دی گئیں، ہراساں کیا گیا اور انہیں بے روز گار کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پیمرا کے چینل 24 کو احکامات
بعدازاں پیمرا نے ایڈوائزری پر وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایڈوائزری کی غلط تشریح کی گئی جس کا کسی طور پر یہ مطلب نہیں تھا کہ آزادی اظہار پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔
وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ ایڈوائزری پیمرا قوانین اور الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے ضابطہ اخلاق 2015 کے تحت جاری کی گئی اور ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے وقتاً فوقتاً ایڈوائزری جاری کی جاتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پیمرا، آئین پاکستان کے تحت آزادی اظہار کا مکمل ہامی ہے اور اس کا کردار اس آزادی کو اتھارٹی کے قوانین اور ضابطہ اخلاق کے مطابق ریگولیٹ کرنا ہے۔