’باجرے کے تنکوں کو چھوڑ کر ٹڈیاں سارے پتے اور دانے کھا گئیں‘
رواں سال مون سون کی بارشیں اپنے ساتھ عمر کوٹ اور تھر کے لیے خوشیوں کی بہاریں لے کر آئیں۔ 3 برسوں سے خشک سالی کے ستائے لوگوں کی مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور ہر ایک کھیتی باڑی کے کام میں صبح تا شام مصروف ہوگیا۔
اگر گزشتہ کچھ عرصے کی بات کی جائے تو قحط کی صورتحال نے چند مقامیوں کو اپنے گھر چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ بارشوں کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا کہ تھری باشندے اپنے مشکل حالات پر غالب آچکے ہیں۔ انہوں نے یہ توقع کرتے ہوئے سکھ کا سانس لیا تھا کہ ان کی بوئی فصل سے اچھی خاصی پیداوار ہوگی۔ تاہم قدرت نے ان کے لیے کچھ اور ہی منصوبہ بندی بنا رکھا تھا۔
برساتوں کا سلسلہ اختتام کو پہنچا ہی تھا کہ لاکھوں ٹڈیوں نے خوراک اور چارے کی فصلوں پر حملہ کردیا۔ پتّوں، گھاس اور جاڑھیوں کے ساتھ ساتھ ان ٹڈیوں نے ان فصلوں کو بھی برباد کردیا جن سے تھری باشندوں کو خوراک کی ضروریات پوری کرنا تھیں اور جنہیں منڈی میں بیچنا تھا۔
گزشتہ چند ہفتوں سے چھاچھرو، ڈاہلی، نگرپارکر اور ضلع تھر کے دیگر اضلاع زرد رنگ کی ٹڈیوں کی زد میں ہے، جس کے باعث کھیتی کرنے والوں کی نندیں حرام ہوگئی ہیں۔
تعلقہ چھاچھرو سے تقریباً 25 کلومیٹر دُور واقع بھڈاری نامی گاؤں کے 60 سالہ گردھاری ہر روز صبح سویرے اپنے کھیت جاتے ہیں۔ خواتین اور بچوں سمیت درجن کے قریب خاندان کے دیگر افراد بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ ٹڈیوں کو ڈرا کر بھگانے کے لیے خالی ڈبے بجاتے ہیں اور الاؤ جلاتے ہیں۔ مگر ٹڈیوں کا ایک گروہ بھاگتا ہے تو دوسرا گروہ کھیت کا رخ کرلیتا ہے۔
گردھاری کی 3 پوتیاں بھی ٹڈیوں کو بھگانے کی اس کوشش میں شامل ہوتی ہیں۔ وہ بوتلوں میں پتھر بھر کر انہیں زور زور سے ہلاتی ہیں تاکہ اس سے پیدا ہونے والے شور سے ٹڈیوں کو کھڑی فصلوں سے بھگایا جاسکے۔ بچے تو اس عمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر گردھاری مایوس ہیں۔ انہوں نے ‘ای او ایس‘ کو بتایا کہ ’اس آفت کا خاتمہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔‘
ٹڈیوں کا حملہ
صحرائی ٹڈی دراصل حملہ آور ٹڈیوں کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں جو کافی مشہور ہیں اور چونکہ یہ زرعی زمین کو زبردست نقصان پہنچاتی ہیں اس لیے ان سے کھیتی کرنے والے خائف بھی رہتے ہیں۔ ان کی اچانک یلغار اور حملوں کو روکنے کے لیے ان کی گہری نگرانی کی جاتی ہے۔
زرعی ماہر کِلتر گل ٹڈی کا دائرہ حیات یا لائف سائیکل سمجھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’نم مٹی اور معتدل درجہ حرارت ان کی افزائش نسل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ زیادہ تر باجرے کی فصلوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور کسی حد تک مونگ اور گوار کی فصل پر بھی یلغار کرتی ہیں۔‘
دیہات کے لوگ قریب سے ٹڈیوں کا مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں اور ان کی عادتوں سے متعلق اپنے تصورات جوڑے ہوئے ہیں۔ بھیریوں بھیل سے تعلق رکھنے والے استاد اور کھیتی کا کام کرنے والے کانجی بتاتے ہیں کہ ’شام کے 5 بجنے والے ہیں اور یہی وہ وقت ہے جب ٹڈیاں انڈے دیتی ہیں۔ ہم نے گزشتہ 5 دنوں سے یہی ہوتا دیکھا ہے۔ مادہ ٹڈیاں صحرائی زمین میں چھوٹے چھوٹے سراخ بنا کر ان میں انڈے دیتی ہیں‘۔ وہ زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایسے ہزاروں کی تعداد میں سراخ زمین پر بنے ہوئے ہیں۔
نگرپارکر کے تعلقہ ڈاہلی کے 15 سے زیادہ دیہاتوں اور ضلع عمرکوٹ سے متصل دیہاتوں میں ہزاروں کی تعداد میں ٹڈیوں کو آسمان میں اڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ اس سے بھی زیادہ یہ فصلوں پر بیٹھی نظر آسکتی ہیں۔ کِلتر گل خبردار کرتے ہیں کہ ’اگر ان پر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ ہماری فصلوں اور اس کے ساتھ ساتھ گھاس اور پتوں کو بھی کھا جائیں گی۔‘
عمر رسیدہ کسان ماضی میں بھی ٹڈیوں کے ان حملوں کا سامنا کرچکے ہیں۔
تعلقہ عمرکوٹ کے امرہار گاؤں سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ منگل 1999ء میں ہونے والے اسی طرح کے ٹڈی حملوں کو یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سفید ٹڈیاں سارے پتے کھا گئی تھیں مگر انہوں نے فصل کو بخش دیا تھا‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کھیتی کا کام کرنے والے حکومت کی مدد سے کیڑوں یا ٹڈیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’حکومت نے ان دنوں بروقت مہم چلائی تھی اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے زہریلے پاؤڈر کا چھڑکاؤ کروایا تھا۔‘
ہمارے مسئلے کی ٹھیک عکاسی کی جائے
ٹڈیوں کے حملوں نے میڈیا کی بالکل اسی طرح توجہ حاصل کی جس طرح دہائیوں پہلے کی تھی۔ تاہم مقامیوں کا کہنا ہے کہ اس دفعہ ان کے مسائل کی ٹھیک عکاسی نہیں کی جا رہی ہے۔ چند میڈیا نمائندگان ان افواہوں پر توجہ کر رہے ہیں کہ تھری لوگ ٹڈیوں سے بہت سارے طعام تیار کرتے ہیں کیونکہ یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ تاہم امرہار کے دیہاتی اس بات سے انکاری ہیں۔ گردھاری کہتے ہیں کہ ’ہم تو بس اپنی فصلوں کو بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو کسی تھکادینے والی اذیت سے کم نہیں ہے‘۔ بلاشبہ اس علاقے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دیہاتیوں کی بھوک اور نیند اُڑ چکی ہیں۔
ٹڈیاں نہ صرف تھریوں کی فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان کی زد میں مویشی بھی آجاتے ہیں۔ جب برساتیں ہوئیں تو تھری باشندوں نے سوچا کہ وہ اپنی بکریوں، بھیڑوں، گائیں اور اونٹوں کے لیے چارہ اگا سکیں گے۔ مگر جب سے ٹڈیوں کے حملے شروع ہوئے ہیں تب سے دیہاتیوں کے پاس مویشیوں کے آگے ڈالنے کے لیے چارہ ہی نہیں بچا ہے۔ منگل بتاتے ہیں کہ ’ہمارے جانور گھاس، پتے اور چارہ نہیں کھا رہے ہیں کیونکہ ٹڈیاں ان پر ایسی بوچھاڑ کردیتی ہیں جو جانوروں کو ناگوار گزرتی ہے۔ اگر ہم اپنے مویشی جانوروں کو خوراک نہ کھلاسکے تو وہ مرجائیں گے‘۔
منگل کہتے ہیں کہ وہ 10 ایکڑوں پر محیط زمین پر 40 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کرچکے ہیں، تھر میں رہنے والے کسان کے لیے یہ ایک اچھی خاصی رقم ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں فصل کی کٹائی میں ڈیڑھ مہینے کی تاخیر ہوچکی ہے۔ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہیں کیے تو ہماری پوری فصل برباد ہوسکتی ہے‘۔
محکمہ لائیو اسٹاک کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایکسٹینشن، ٹیکم داس جگتانی کے نزدیک صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے جتنی گاؤں والے سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تھر میں اس وقت صورتحال زیادہ تشویشناک نہیں ہے۔ نہ ہی ٹڈیوں نے فصلوں کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کے باوجود بھی وفاقی محمکہ برائے تحفظ چھاچھرو، ڈاہلی اور نگرپارکر تحصیلوں کے مختلف دیہاتوں کے لیے 3 اسپرے مشینوں کا بندوبست کر رہا ہے۔
کھیتوں کو ٹڈیوں سے کیسے بچایا جائے؟
جہاں کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا حل یہی ہے کہ محکمہ زراعت متاثرہ علاقوں پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسپرے کروائے وہیں چند لوگ یہ سوال کھڑا کرتے ہیں کہ اس معاملے میں اسپرے کتنی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے؟
کپل دیو گرڑو نامی سماجی کارکن کہتے ہیں کہ ضلع سانگھڑ کے ’اچھڑو تھر‘ میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں کامل ہنگورو، رانک ڈہر، بانکو چانہیوں اور رونجھو جیسے علاقوں میں ٹڈیوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ضلعی حکومت کی جانب سے علاقے میں ٹڈیوں پر اسپرے کروایا ہے مگر اس کے باوجود بھی فصلوں اور گھاس کو بھاری نقصان پہنچا ہے‘۔
کسان اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ کہیں وہ ہاری ہوئی جنگ تو نہیں لڑرہے؟ کانجی کو پورا یقین تھا کہ فصل سے حاصل ہونے والی رقم سے وہ اپنا پرانا قرضہ اتار لے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’باجرے کے تنکوں کو چھوڑ کر ٹڈیاں سارے پتے اور دانے کھا گئی ہے۔ اس وجہ سے میرے گھروالوں کو زبردست دھچکا پہنچا ہے اور ہر کوئی فکرمند ہے‘۔
فصل سے منافع کمانا تو دُور کانجی کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ فصل کی کاشتکاری پر آنے والی لاگت کو کیسے پورا کرپائیں گے۔
یہ مضمون 27 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔
منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں