• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 4:41pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:48pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 5:05pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 4:41pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 4:48pm

نواز شریف شدت پسندوں سے مذاکرات کے عزم سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

شائع July 24, 2013

Despite promises to talk, new Pakistan PM gets tough on insurgents 670
میاں محمد نواز شریف پانچ جون کو پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئے۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

اسلام آباد: اب جبکہ پاکستان کے نئے وزیراعظم نواز شریف کو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کےساتھ مذاکرات کا عزم کیے کئی مہینے گزر گئے ہیں، تو وہ اپنے اس عزم سے پیچھے ہٹتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں کو متاثر کرنے والے دہشت گردی کے اس سلسلے کو روکنے کے لیے فوجی قوت کے استعمال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

تقریباً 200 افراد اس دن سے اب تک دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں، جب گزشتہ ماہ وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا، یاد رہے کہ نواز شریف پاکستانی طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی حمایت کرتے تھے۔

حکومت کی جانب سے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سیاسی انتظامیہ نے دوسری سیاسی انتظامیہ کو اقتدار منتقل کیا ہے، نواز شریف یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور فوج کو اب بھی پالیسی سازی میں برتری حاصل ہے۔

ایک حکومتی اہلکار جو طالبان کے ساتھ نمٹنے کے حوالے سے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ایک بات چیت سے واقف ہیں، کا کہنا ہے کہ ”یقیناً ہم اُن کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے امکانات بہت دور ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ ”اس کام کے لیے ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب آپ ایک ایسے گروہ سے بات کرنے جارہے ہوں جو اندرونی طور پر بہت سے دھڑوں میں تقسیم ہو تو آپ کس طرح یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ کون سا گروہ ایسا ہے جس سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔“

پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک 66 برس کے عرصے میں سے فوج نصف سے زیادہ برسوں کے دوران حکمران رہی ہے۔

نواز شریف کا یہ نکتہ نظر کہ ”بندوقیں اور گولیاں ہر سوال کا جواب نہیں ہوتیں۔“ اب رفتہ رفتہ کمزور پڑتا جارہا ہے، انہوں نے قومی سلامتی کے حوالے سے نئی حکمت عملی لانے کا وعدہ کیا تھا۔

لیکن اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت انتہائی سُست ہے، جو  اندرونی کشمکش کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ فوج بھی ایک طویل عرصے سے سیاسی قیادت کی تحقیر کرتی رہی ہے۔

2011ء میں پاکستان کے اندر امریکن فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر ایک سرکاری رپورٹ جو اسی مہینے لیک ہوئی،پر اگر گہرائی سے غور کیاجائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بداعتمادی کی جڑیں کس قدر مضبوط ہوچکی ہیں۔

مذکورہ رپورٹ کی دستاویز میں فوج کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کسی بھی پالیسی کو تشکیل دینے کے قابل نہیں ہے۔

اس دوران دہشت گردوں کے ہلاکت خیز حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ایک بم دھماکہ  7 جولائی کو لاہور کی ایک مصروف اسٹریٹ پر ہوا، یہ شریف برادران کا آبائی شہر ہے، جو دوسرے شہروں کی نسبت پُرامن شہر سمجھا جاتا ہے۔ اُدھر کراچی میں 10 جولائی کو ایک خودکش دھماکے میں صدر آصف علی زرداری کے چیف سیکورٹی آفیسر ہلاک ہوگئے تھے۔

طالبان کے حوالے سے ایک تجزیہ نگار اور مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ ”پاکستانی طالبان اسے اپنے لیے ایک اچھا موقع سمجھ رہے ہیں، وہ نواز شریف کو اپنی طاقت اور ان کی کمزوری کے حوالے سے پیغام دینا چاہتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ ”فوج ابھی مذاکرات کے خلاف ہے، وہ شدت پسندوں پر مزید طاقت کا استعمال کرکے ان کی قوت کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔“

لیکن اس کے باوجود فوج اور آئی ایس آئی پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شمولیت کے حق میں ہے۔

پاکستانی طالبان اگرچہ افغان طالبان کے لیڈروں کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ دونوں گروہ علیحدہ علیحدہ ہی کام کرتے ہیں۔

واضح منصوبہ بندی کی ضرورت:

پاکستانی فوج کی اعلیٰ سطح کی قیادت کو افغان اور پاکستانی طالبان کے درمیان امتیاز کرنے میں دشواری پیش آتی ہے، جو یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک پر قبضے کے خلاف جنگ کررہے ہیں، جبکہ مقامی افراد جو افغان طالبان کی پیروی کرتے ہیں، انہیں فوج مقامی دہشت گرد کے طور پر دیکھتی ہے۔

امریکہ جو پاکستان کو امداد دینے والے ملکوں کی صف میں سب سے آگے ہے، اسلام آباد سے توقع رکھتا ہے کہ وہ ایک واضح منصوبہ بندی کے ساتھ حقانی نیٹ ورک جیسے گروہوں کے خلاف اپنی مہم شروع کرے، جو پاکستانی پہاڑوں میں اپنی پناہ گاہوں سے مسلسل امریکی افواج پر حملے کررہے ہیں۔

حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کے اتحادی ہیں، لیکن انہوں نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ سنگلاخ پہاڑی علاقوں کو اپنا مرکز بنایا ہوا ہے، جہاں دیگر دہشت گرد گروہوں نے بھی پناہ لی ہوئی ہے۔

ساؤتھ ایشیا پروجیکٹ کی ڈائریکٹر برائے انٹرنیشنل کرائسز گروپ ثمینہ احمد کا کہنا ہے کہ ”مذاکرات کا دباؤصرف حکومت پر ہے، اس لیے کہ دہشت گردوں کی جانب سے تو مسلسل اس بات کا ہی اظہار ہورہا ہے کہ انہیں کسی کی پرواہ نہیں ہے کہ نہ ہی اس بات سے انہیں کوئی غرض ہے کہ اس وقت کون اقتدار میں ہے۔“

پاکستانی طالبان جو تحریک طالبان کے نام سے جانے جاتے ہیں، القاعدہ کے ساتھ ایک کمزور اتحادی ہیں، جو پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے اور کٹر مذہبی شریعت کے بالجبر نفاذ کے لیے مسلح جنگ کررہے ہیں۔

فوج کا کہنا ہے کہ جب تک دہشت گرد ہتھیار نہیں ڈال دیتے، اس وقت تک ان کے ساتھ مذاکرات بے معنی ہوں گے۔ لیکن اپنے نائب سربراہ ولی الرحمان کی ڈرون حملوں میں  28 مئی کو ہوئی ہلاکت سے مشتعل ہونے کے بعد اب طالبان مذاکرات کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے مغربی خطے کے قبیلے میں ایک طالبان کمانڈرنے بتایا ”پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے اپنے لوگوں کی طرف سے ہمیں اس بات کی مکمل اجازت ہے کہ اگر پاکستانی حکومت یا  سیکیورٹی فورسز ہمارے خلاف کارروائی کریں تو ہم اس کی بھرپور مزاحمت کریں۔“

بنیادی معاملات پر الجھنیں:

بلاشبہ جنگ بندی کے معاہدے ماضی میں ناکام رہے ہیں، جن سے شدت پسندوں کو منظم ہونے اور دوبارہ حملے شروع کرنے کا موقع ہی فراہم ہوا ہے۔

نواز شریف پچھلی حکومت سے ملنے والی تین نکاتی پالیسی ”شدید مزاحمت، ترقی، سیاست“ کو ”منتشر کرنا، احاطہ کرنا، روکنا، تعلیم دینا اور ازسرِنو متحد کرنا“ سے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔

لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ عملی طور پر ان سے کیا مُراد ہے، اور تاحال اس حوالے سے کوئی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے لیے منعقد کی جانے والی کل جماعتی کانفرنس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ہے۔ؕ

اس سلسلے میں ایک اہم رکاوٹ تو فوج کو قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستانی فوج کو داخلی سلامتی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اختیارات کی آزادی حاصل ہے۔ اب یہ فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے اور طالبان خود یہ فیصلہ کریں گے کہ انہیں جنگ جاری رکھنی ہے یا مذاکرات کی میز پر آمنے سامنے بیٹھنا ہے۔

سیاستدانوں کو امید ہے کہ فوج کے رویے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

نواز شریف کی حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ”فوج بھی یہ سمجھتی ہے کہ تنہا مزید آگے نہیں بڑھ سکتی، اور یہ ملکی استحکام اور خود ان کی بقا کے لیے بھی ضروری ہے، اور اسی طرح توازن قائم ہوسکتا ہے۔“

لیکن اب نواز شریف جو دو مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، اور 1999ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا، اب نہایت محتاط ہوکر آگے بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز کا دورہ کرکے جنرلوں سے براہِ راست بات کی تھی، جبکہ ایک ورکنگ گروپ کے قیام کا بھی حکم دیا تھا، جو شدت پسند گروہوں کے ساتھ امن مذاکرات کرے۔

ان کا نکتہ نظر  یہ ہے کہ ایک آزاد باڈی قائم کی جائے جو حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کو باہم مربوط کرنے کا کام کرے، اور اس خیال کو درست کرے پاکستان میں سویلین اور فوجی عدم توازن پایا جاتا ہے۔

ایک ریٹائرڈ سینیئر فوجی افسر نے کہا کہ ”آج اس خیال کو درست کرنے کی ضرورت ہے کہ فوج کو پالیسی کی تشکیل کے معاملے میں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ یہ کہنا تو اب فیشن بن گیا ہے کہ فوج سویلین کو کام کرنے نہیں دیتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ کام کرنا چاہتے ہیں؟۔“

لیکن جب سے طالبان آئے ہیں الجھنیں مزید بڑھ گئی ہیں۔

ایک سینیئر پولیس آفیسر جنہیں خیبر پختونخوا میں افغان سرحد کے قریبی علاقے میں تعینات کیا گیا ہے، کا کہنا ہے کہ ”اگر دیکھا جائے تو بنیادی طور پر اس طرح کی کوئی پالیسی ہے ہی نہیں، کہ ہمیں ان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں، یا جنگ کرنی چاہئیے؟۔“

تبصرے (1) بند ہیں

hafiz Jul 24, 2013 03:20pm
مضمون کے عنوان کی طرح اس کے مندرجات بھی متنشر فکری سے دوچار ہیں۔ مثلاً "فوج [اپنا مورال بلند رکھنے کے لیے] مذاکرات نہیں کرنا چاہتی-سیاستدان کرنے کی خواہش تورکھتے ہیں مگرجمہوری سفینہ ڈوب جانے سےڈر لگتا ہے-صاحب مضمون اور ان جیسے حضرات مذاکرات بھی نہیں چاہتے اور فوج پر برسنے سے پیچھے ہٹنا بھی انھیں گوارا نھیں،اس لیے کہ انھیں پتھرکا زمانہ ہولناک دکھائی دیتا ہے۔ طالبان مذاکرات چاہتے ہیں یا تھے مگر فوج کی بالادستی،روشن خیالوں کا بغض اور سیاستدانوں کی مجبوریاں ان کی اسٹریٹیجک پالیسی کے آڑے ہیں۔" میرے خیال میں اگر مطلوب امن ہے توفریقین اور طرفین کے لیے بہت سے راستے نکل سکتے ہیں،بس اپنی مزعومہ طاقت پہ گھمنڈ سے اجتناب برتنا ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 19 اپریل 2025
کارٹون : 18 اپریل 2025