پرویز مشرف سنگین غداری کیس: حکومت نے استغاثہ کی ٹیم کو فارغ کردیا
اسلام آباد: موجودہ حکومت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے مقدمے میں سرکاری پراسیکیوٹر (استغاثہ) کی پوری ٹیم کو فارغ کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ ٹیم مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت میں تشکیل دی گئی تھی جو پرویز مشرف کے خلاف آئین معطل کرنے اور 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے کے خلاف کیس کی پیروی کررہی تھی۔
چنانچہ جب خصوصی عدالت نے سابق فوجی آمر کے خلاف مقدمے کی کارروائی کا دوبارہ آغاز کیا تو اسے بتایا گیا کہ حکومت نے پروسیکیوشن ٹیم کو معطل کردیا ہے۔
تاہم عدالت کو پوری ٹیم معطل کرنے کی وجوہات سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: وزارت قانون کو پرویز مشرف کے نئے وکیل کے اخراجات ادا کرنے کی ہدایت
ٹیم کی معطلی کی اطلاع نے استغاثہ کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر طارق حسن کو بھی حیران کردیا، جنہوں نے عدالت میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ابھی اس بات کا علم ہوا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پروسیکیوشن کی جانب سے ستمبر 2014 میں تمام تر شواہد اور تحریری دلائل بھی عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں اور اس مرحلے پر کہ جب مقدمہ منطقی انجام کی جانب گامزن ہے کچھ خاص کارروائی باقی نہیں۔
اس معاملے پر ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق حسن نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود استغاثہ نے بہترین کام کیا اور اس کیس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ جنرل (ر) پرویز مشرف متعدد مرتبہ بلانے کے باجود کرمنل پروسیجر کورٹ کی دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کروانے نہیں آئے تو عدالت دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ کرسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کو سوال نامہ ارسال
تاہم خصوصی عدالت نے وکیل دفاع رضا بشیر کو 19 نومبر کو ہونے والی سماعت میں پیش ہونے کی اجازت دے دی، جنہیں عدالت کے احکامات کی روشنی میں مقدمے میں معاونت کے لیے وزارت قانون نے مقرر کیا تھا۔
بعدازاں عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو اس بات کی وضاحت کے لیے طلب کرتے ہوئے کہ کس قانون کے تحت پروسیکیوشن ٹیم معطل کی گئی، کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
سنگین غداری کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔
اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔
فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
مزید پڑھیں: پرویز مشرف جہاں اتریں گے انہیں سیکیورٹی دیں گے، چیف جسٹس
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کو سوال نامہ ارسال
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔