• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان، بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری فعال کرنے کے معاہدے پر دستخط

شائع October 24, 2019
معاہدے پر دستخط کی تقریب کرتارپور زیرولائن پر منعقد ہوئی —  فوٹو: وزارت اطلاعات ٹوئٹر
معاہدے پر دستخط کی تقریب کرتارپور زیرولائن پر منعقد ہوئی — فوٹو: وزارت اطلاعات ٹوئٹر

پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری کا منصوبہ فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوگئے جس کے بعد بھارت اور دنیا کے دوسرے حصوں سے سکھ برادری دنیا کے سب سے بڑے گردوارے آسکے گی۔

کرتارپور راہداری کا منصوبہ فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط کی تقریب نارروال پر واقع پاک-بھارت سرحد کرتارپور زیرو لائن پر منعقد ہوئی۔

اس موقع پر پاکستان کی جانب سے ترجمان دفتر خارجہ اور ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیاو سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے جبکہ بھارت کی جانب سے بھارتی وزارت امور خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری اور مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ایس سی ایل داس نے دستخط کیے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کرتارپور راہداری منصوبے کے معاہدے پر دستخط کی یادگار کے تحت ایک پودا بھی لگایا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کیے گئے معاہدے کے تحت روزانہ 5 ہزار سکھ یاتری بغیر ویزا گرردوارہ کرتار پور صاحب میں اپنی مذہبی رسومات ادا کرسکیں گے۔

18 نکات پر مشتمل معاہدے کے تحت 5 ہزار سکھ یاتری، انفرادی یا گروپ کی شکل میں یاتری پیدل یا سواری کے ذریعے صبح سے شام تک سال بھر ناروال میں کرتارپور آسکیں گے، حکومت پاکستان یاتریوں کی سہولت کے لیے شناختی کارڈ جاری کرے گی اور ہر یاتری سے 20 ڈالر سروس فیس وصول کی جائے گی، تاہم سرکاری تعطیلات اور کسی ہنگامی صورتحال میں یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔

معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ راہداری بند کرنے کی صورت میں دونوں ملک ایک دوسرے کو نوٹی فکیشن کے ذریعے آگاہ کریں گے۔

علاوہ ازیں سکھ یاتریوں کو موثر بھارتی پاسپورٹ پر کرتارپور راہداری استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، بیرون ملک رہائشی سکھ یاتریوں کو بھارتی اوریجن کارڈ پر اس سہولت کا فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوگی۔

اس سلسلے میں بھارتی حکومت سکھ یاتریوں کی فہرست 10 دن قبل پاکستان کے حوالے کرے گی جبکہ پاکستان سفر سے 4 روز قبل یاتریوں کی منظور شدہ فہرست بھارت کو بھجوائے گا۔

یہ معاہدہ اگلے 5 سال تک قابل عمل ہوگا جس کی خلاف ورزی کی صورت میں کرتارپور راہداری آپریشن معطل ہو سکے گا جبکہ معاہدے میں مشترکہ رضا مندی سے ترمیم ہو سکے گی، معاہدے پر عملدرآمد کے لیے جوائنٹ ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا اور ایک مہینے کے نوٹس پر کوئی بھی ملک معاہدہ منسوخ کر سکتا ہے۔

معاہدے میں ممنوعہ اشیا کی فہرست بھی شامل ہے جو بارڈر پار نہیں لائی جا سکیں گی۔

مذاکرات بہت زیادہ مشکل تھے، ترجمان دفتر خارجہ

کرتارپور راہداری فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بعد ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے وژن کے تحت ہم نے بھارت کے ساتھ کرتارپور کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان 9 نومبر کو کرتارپور راہداری کا باضابطہ افتتاح کریں گے جس کے لیے پُروقار تقریب کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔

معاہدے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد فیصل نے کرتار پور راہداری کی تکمیل میں کردار ادا کرنے پر دفتر خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت قانون، مسلح افواج اور دیگر اداروں کا شکریہ ادا کیا۔

مزید پڑھیں: کرتارپور راہداری 9 نومبر کو عوام کیلئے کھول دی جائے گی، وزیراعظم

انہوں نے کرتارپور راہداری منصوبے سے متعلق مذاکرات کے مختلف مرحلوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات بہت زیادہ مشکل تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کرتارپور میں دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ تعمیر کیا گیا ہے، پاکستان اپنی اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک رکھتا ہے، اقلیتوں سے متعلق ہمارا یہ نقطہ نظر ہے، اقلیتوں سے متعلق جو نبی کریمﷺ کا حکم ہے یہ اس کے مطابق ہے‘۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ سکھ یاتریوں کا پہلا جتھا 9 نومبر کو آئے گا، راہداری سے آنے والے یاتریوں کو ویزا حاصل کرنے کی ضرورت ہے، یاتریوں کو اپنی شناخت کے لیے پاسپورٹ ساتھ لانا ہوگا جسے اسکین کیا جائے گا۔

ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ معاہدے کے تحت بھارتی حکام جتھے کی آمد سے 10 روز قبل یاتریوں کی فہرست فراہم کریں گے تاکہ ہم ان کے استقبال کی تیاریاں کرسکیں اور کوئی بدانتظامی نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: ’کرتار پور راہداری کھلنے سے مسئلہ کشمیر نظر انداز نہیں ہوگا‘

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ راہداری کے استعمال کی مد میں ہر یاتری سے 20 ڈالر سروس چارجز وصول کیے جائیں گے، پاکستان اس وقت یاتریوں سے 20 ڈالر فیس کی وصولی کے طریقہ کار پر کام کررہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ مقامی یاتریوں کو بھی گردوارے کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور اس سلسلے میں انہیں ایک پاس بھی جاری کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی یاتری الگ اور غیر ملکی یاتری دوسرے دروازے سے گردوارے میں داخل ہوسکیں گے۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’جموں کشمیر پر ہماری پوزیشن سے متعلق کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ آئے گی‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا تھا کہ کوشش ہے کہ کل (بروز جمعرات) کرتارپور راہداری کے معاہدے پر دستخط ہوجائیں۔

اس سے قبل بھارتی وزارت خارجہ (ایم ای اے) نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ ’حکومت 23 اکتوبر 2019 کو کرتارپور راہداری کے سمجھوتے پر دستخط کرنے کے لیے آمادہ ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: منموہن سنگھ کرتارپور راہداری کے افتتاح میں شرکت کریں گے، شاہ محمود

خیال رہے کہ مذکورہ سمجھوتے کی تفصیلات پر رواں برس مارچ سے مذاکرات جاری تھے اور بات چیت کا پہلا دور اٹاری واہگہ سرحد پر بھارتی مقام میں 14 مارچ کو منعقد ہوا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے دوران مختلف امور پر اختلاف پایا گیا تھا جس میں یاتریوں کی تعداد، راہداری کھلے رہنے کی مدت اور پاکستان سکھ پربندھک کمیٹی (پی اسی جی پی سی) میں شامل اراکین کا معاملہ بھی شامل تھا۔

خیال رہے کہ کرتارپور گردوارے تک سکھ یاتریوں کو ویزا کے بغیر رسائی دینے والی راہداری کا افتتاح 12 نومبر کو گرو نانک کی 550ویں جنم دن کے پیشِ نظر 3 روز قبل 9 نومبر کو کیا جائے گا۔

کرتار پور کہاں ہے اور سکھوں کے لیے اتنا اہم کیوں؟

کرتار پور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے، جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے۔

کرتارپور میں واقع دربار صاحب گردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ تین سے چار کلومیٹر کا ہی ہے۔

سکھ زائرین بھارت سے دوربین کے ذریعے ڈیرہ بابانک کی زیارت کرتے ہیں بابا گرونانک کی سالگرہ منانے کے لیے ہزاروں سکھ زائرین ہر سال بھارت سے پاکستان آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کرتارپور راہداری پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات

پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس کرتار پور ڈیرہ بابا نانک سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی۔

سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گردوارے کی زیارت بھی کرتے ہیں۔

کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ

خیال رہے گزشتہ برس اگست میں سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے۔

انہوں نے اس تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملے اور ان سے غیر رسمی گفتگو کی تھی۔

اس حوالے سے سدھو نے بتایا تھا کہ جب ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان گرو نانک صاحب کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق سوچ رہا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان فوج کے سربراہ اس ایک جملے میں انہیں وہ سب کچھ دے گئے جیسا کہ انہیں کائنات میں سب کچھ مل گیا ہو۔

بعد ازاں بھارت کے سکھ یاتریوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ برس 28 نومبر کو کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا تھا جس میں شرکت کے لیے نوجوت سدھو پاکستان آئے تھے۔

پاکستان نے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم انہوں نے شرکت سے معذرت کرلی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024