• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

میرا 13 سال قبل ریپ کیا گیا، معروف فلم ساز جامی

شائع October 21, 2019 اپ ڈیٹ October 28, 2019
جامی کا شمار پاکستان کے نامور فلم سازوں کی فہرست میں کیا جاتا ہے — فوٹو/ اسکرین شاٹ
جامی کا شمار پاکستان کے نامور فلم سازوں کی فہرست میں کیا جاتا ہے — فوٹو/ اسکرین شاٹ

پاکستان کے نامور فلم ساز جمشید محمود عرف جامی ہمیشہ سے ہی خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف سامنے آئی مہم 'می ٹو' کا کھل کر سپورٹ کرتے آرہے ہیں اور اب انہوں نے ایسا کرنے کی وجہ بھی بتادی۔

فلم ساز نے 'می ٹو' کے دو سال مکمل ہونے پر اس مہم کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ساتھ ہوا ایک بھیانک حادثہ مداحوں کے ساتھ شیئر کیا۔

جامی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹوئٹس کے ذریعے بتایا کہ کیریئر کے آغاز میں پاکستانی میڈیا انڈسٹری کی ایک نامور شخصیت نے ان کا ریپ کیا تھا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ وہ آج تک اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کو نہیں بھولے اور یہی وجہ ہے کہ وہ 'می ٹو' مہم اور اس کا سہارا لے کر سامنے آئے افراد کی حمایت میں ہمیشہ ہی آگے سے آگے رہتے ہیں۔

جامی کا کہنا تھا کہ 'میں می ٹو کا حمایتی کیوں ہوں؟ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ جسے ہراساں کیا گیا ہو اس پر کیا گزرتی ہے اور وہ کیوں سب سے چھپ کر رہنا پسند کرتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میڈیا انڈسٹری کی ایک نامور اور طاقت ور شخصیت نے میرا بےدردی سے ریپ کیا، میں اس سے قد میں ضرور بڑا ہوں البتہ میں کچھ نہیں کرپایا، 13 سال گزر گئے لیکن آج تک مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا، میں خود پر لعنت بھیجتا ہوں کہ میں نے اس کی آنکھیں کیوں نہیں نکال لیں، وہ میرا دوست تھا اور میں اس کے لیے کام بھی کرتا تھا'۔

جامی کے مطابق 'میں نے اپنے چند قریبی دوستوں کو اس بارے میں بتایا تاہم کسی نے میرا یقین نہیں کیا، 6 ماہ تک میں نے ہسپتال میں اپنا علاج کروایا، تاہم بعدازاں میں پاکستان چھوڑ کر چلا گیا، میں نے آج تک اس شخص کا نام نہیں لیا اور میں جانتا ہوں کہ اگر اب بھی میں کچھ کہوں گا تو میرے دوست میرا مذاق اڑائیں گے'۔

جامی کا شمار پاکستان کے بہترین فلم سازوں میں کیا جاتا ہے، وہ 'آپریشن 021' اور 'مور' جیسی فلمیں بنا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے کئی گانوں کی ویڈیوز اور اشتہارات بھی ڈائریکٹ کیے ہیں۔

علی ظفر کے کامیاب گانے 'چل دل میرے' کی ویڈیو کی ہدایات بھی جامی نے ہی دی تھی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں 'می ٹو' مہم کا آغاز گلوکارہ میشا شفیع نے دو سال قبل اداکار و گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراساں کا الزام لگانے کے ساتھ کیا تھا۔

میشا شفیع نے علی ظفر پر جیمنگ سیشن کے دوران ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد سے اب تک جامی کھل کر میشا شفیع کی سپورٹ کرتے نظر آئے۔

جامی نے رواں سال لکس اسٹائل ایوارڈز کا بھی بائیکاٹ کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ ایوارڈ شو میں علی ظفر کو بہترین اداکار کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔

چند روز قبل علی ظفر نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لاہور کے پروفیسر کی خودکشی کے واقعے کا حوالہ دینے ہوئے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ 'لیکچرار مسٹر افضل نے خود پر لگائے گئے غلط الزامات کے بعد خودکشی کرلی، خودکشی کے بعد ایک نوٹ چھوڑا جس میں لکھا کہ ان کی اہلیہ نے انہیں چھوڑ دیا اور ان کی عزت مٹی میں مل گئی، اب ان کے لیے کتنے لوگ آواز اٹھائیں گے؟ می ٹو کے غلط استعمال کے خلاف کتنے لوگ آواز اٹھائیں گے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟'

جامی نے بھی اپنی ایک ٹوئٹ میں اسی واقعے کا حوالہ دیا، اور بتایا کہ انہوں نے 13 سال بعد کیوں سب کو یہ بات بتائی۔

جامی کے مطابق 'میں یہ سب اب اس لیے بتا رہا ہوں کیوں کہ می ٹو مہم تنازع کا شکار ہورہی ہے، ایک حادثہ یہ ثابت نہیں کرتا کہ اس مہم کا سہارا لے کر سامنے آنے والے باقی تمام افراد جھوٹے ہیں، مجھے غصہ آرہا ہے کہ لوگ اس مہم کو غلط کہہ رہے ہیں، اس لیے میں 13 سال بعد سامنے آکر سب کچھ بتارہا ہوں اور یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس مہم کا سہارا لے کر سامنے آنے والے آتے رہیں گے۔

انہوں نے اپنی بات کے اختتام پر نتیجہ اخذ کیا کہ ‘یہ مختارہ مائی سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کیسا محسوس کرتی ہیں جب نظام گینگ ریپ یا متاثرین یا ثبوتوں اور الزام ثابت ہونے کو نہیں دیکھتا اور مجرموں کو جانے دیتا ہے، ہم نے ایک انتہائی افسوس ناک کیس دیکھا اور یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غلطی تھی، جنہوں نے پروفیسر کو کلئیرنس فراہم نہیں کی، نظام نے انہیں بھی متاثر کیا۔ سچائی یہ ہے کہ تمام متاثرین کے ساتھ ہر وقت کھڑے رہیں تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، منتخب سرگرمیاں ناانصافی ہے۔


نوٹ: قانونی اور ایڈیٹوریل معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس خبر کو عارضی طور پر ہٹایا گیا تھا، اور ساتھ ہی مذکورہ خبر کا ایڈٹ ورژن شائع کیا گیا تھا، طویل مشاورت کے بعد اس خبر کو اپنی اصل شکل میں بحال کردیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024