• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

وزیراعظم کا استعفیٰ ناممکن، فضل الرحمٰن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں، مذاکراتی ٹیم

شائع October 19, 2019
حکومتی مذاکراتی ٹیم کی سربراہی پرویز خٹک کر رہے ہیں—فوٹو: حکومت پاکستان
حکومتی مذاکراتی ٹیم کی سربراہی پرویز خٹک کر رہے ہیں—فوٹو: حکومت پاکستان

وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، اس کا مطلب ہے یہ (مولانا فضل الرحمٰن) چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام آباد میں حکومتی کمیٹی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی، جس میں وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا کہ جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پاناما کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جس پر ہم نے سب سے درخواست کی کہ اس پر تحقیقات کی جائے لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، تاہم جب پاناما کا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں ہم نے حکومتی لوگوں سے بات کی۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے تو بات کریں، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔

مزید پڑھیں: علما نے جب بھی تحریک چلائی ملک میں مارشل لا لگا، شیخ رشید

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے بار بار بات کرنے کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت سے حل کریں، تاہم اگر آپ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو پھر جو افراتفری پھیلے گی، ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اُن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلا نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہ اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے، ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کی فکر ہے، اگر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچا، کاروبار خراب ہوا تو اس کا ازالہ کون کرے گا؟، ہم نے اپنے تمام کارڈز کھول دیے ہیں، اگر کل کو کچھ ہوا تو پھر کہا جائے گا کہ حکومت یہ کر رہی لیکن حکومت نے وہی کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوگا، حکومت نے وہی فیصلے کرنے ہیں جس سے ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے، اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کو روکنے کیلئے پولیس کی حکمت عملی تیار، سیکڑوں کنٹینرز منگوالیے

انہوں نے کہا کہ حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے اور اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔

مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنی پڑے گی لیکن اگر ایجنڈا افراتفری پھیلانا، ملک کو پیچھے لے جانے کا ہےتو یہ پھر بات نہیں کریں گے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے سینئر لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی ہے، جس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو کیوں شامل کیا، تو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس معاملے کو سنجیدہ لینا چاہتے ہیں اور اسی لیے سینئر لوگوں کو شامل کیا ہے۔

انہوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ملک کی تمام جماعتوں سے اپیل کی کہ اگر ملک کے ہمدرد ہیں اور پاکستان سے محبت ہیں تو بیٹھ کر بات کریں، اگر آپ کا کوئی مطالبہ ہے تو سامنے رکھیں ہم خیرمقدم کریں گے۔

اس موقع پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے مجھے نہیں معلوم کہ ان کے پیچھے کس کا ایجنڈا ہے، اگر یہ کسی اور کے ایجنڈے پر چلیں گے تو سب سامنے آجائے گا، پھر یہ چھپ نہیں سکتے اور انہیں سزا ملے گی۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس میں چیئرمین سینیٹ کو بھی شامل کیا گیا کیوں کہ ان کی ایک جماعت ہے جبکہ اگر اس میں وزیراعلیٰ بلوچستان آتے ہیں تو انہیں بھی شامل کیا جائے گا جبکہ جہاں تک چوہدری پرویز الٰہی کی بات ہے تو ان کی بھی اس کمیٹی میں شامل ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن لانگ مارچ کی کال واپس نہیں لیتے تو پھر حکومت موجود ہے اور جو حکومت کی رٹ کو چیلنج کرے گا تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، یہ پھر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں ایسی چیز برداشت نہیں ہوگی اور اس پر کارروائی کریں گے۔

مزید پڑھیں: چوہدری برادران کا فضل الرحمٰن کے ساتھ آزادی مارچ پر بات کرنے سے گریز

اس دوران وزیردفاع کے ہمراہ موجود وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے گزارش کروں گا کہ سیاسی گفتگو تو چلتی رہتی ہے لیکن میں نے ان کی کچھ ویڈیوز دیکھی ہیں، جس میں وہ اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، لہٰذا اس قسم کی سطح پر نہ پہنچیں، جہاں وہ ریاست کے ستونوں پر حملہ کریں کیونکہ پھر اس قسم کی چیز برداشت نہیں کی جائے گی۔

ساتھ ہی وزیر دفاع پرویز خٹک نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ہم ناکام ہوگئے تو پھر جو ہوگا اس کی ذمہ داری تمام اپوزیشن جماعتوں پر ہوگی، ہم نہ کسی سے این آر او نہیں چاہ رہے، جمہوری ملک میں مذاکرات ہوتے ہیں۔

تاہم انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر نریندر مودی کو خوش کرنا ہے اور ملک دشمنی کرنی ہے تو یہ بات نہیں کریں گے لیکن اگر یہ ملک کے ہمدرد ہیں تو یہ بات کریں گے۔

جمعیت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام پر پابندی سے متعلق انہوں نے کہا کہ پابندی لگتی رہتی ہیں اور یہ چلتا رہتا ہے، ساتھ ہی شفقت محمود نے کہا کہ ہمارا آئین و قانون بھی کہتا ہے کہ مسلح گروپ کی پاکستان میں اجازت نہیں اور اس طرح کی چیزیں نہیں ہونی چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024