ناشتے سے پہلے یہ کام کرنا جسمانی چربی کو گھلانے میں مدد دے
کیا جسمانی وزن میں اضافے خصوصاً توند بڑھنے سے پریشان ہیں ؟ تو صبح اٹھتے ہی ایک کام کو فوری عادت بنانا اسے گھلانے کا عمل دوگنا تیز کرسکتا ہے۔
درحقیقت ناشتے سے پہلے ورزش کرنے کی عادت جسم کا انسولین کے حوالے سے ردعمل بہتر کرنے کے ساتھ ذیابیطس ٹائپ ٹو اور خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ چربی گھلانے کا عمل تیز کرتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
باتھ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 30 موٹاپے کے شکار افراد کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ نکالا گیا کہ ناشتے سے پہلے ورزش کرنے والے افراد ایسے افراد کے مقابلے میں دوگنا زیادہ چربی گھلاتے ہیں، جو ناشتے کے بعد ورک آﺅٹ کرتے ہوں۔
طبی جریدے جرنل آف کلینکل اینڈوکرینولوجی اینڈ میٹابولزم میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش اور غذا کے اوقات میں تبدیلی لوگوں کو بلڈ شوگر لیول اور جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ ناشتے سے قبل ورزش کرنے پر جسم محفوظ شدہ کاربوہائیڈریٹس کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رات بھر کے فاقے کے بعد ورزش کرنا لوگوں کے لیے طبی فوائد کو بڑھا دیتا ہے چاہے دورانیہ، شدت یا کوشش زیادہ نہ بھی کی جائے۔
6 ہفتوں تک جاری رہنے والی تحقیق کے دوران رضاکاروں کو 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ ناشتے سے پہلے اور دوسرا ناشتے کے بعد ورزش کرتا تھا جبکہ ان دونوں سے ہٹ کر ایسے افراد کو بھی دیکھا گیا جن کے طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
ناشتے سے قبل ورزش کرنے سے جسم ایندھن کے لیے چربی کو استعمال کرتا ہے اور اس تحقیق کے 6 ہفتوں کے دوران رضاکاروں کے جسمانی وزن میں کوئی نمایاں کمی تو نہیں دیکھی گئی مگر محققین کا کہنا تھا کہ ان افراد کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ ان کا جسم انسولین پر زیادہ بہتر ردعمل ظاہر کرنے لگا، بلڈ شوگر لیول کنٹرول میں آگیا، جس سے ذیابیطس اور امراض قلب کا خطرہ بھی کم ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ ناشتے قبل ورزش کرنے والے رضاکاروں کی انسولین پر ردعمل کی صلاحیت میں اضافہ ہوا اور یہ بس ورزش کے وقت یا ناشتے کے وقت میں تبدیلی کا نتیجہ تھا۔
محققین کے مطابق ناشتے سے قبل ورزش کرنے والے افراد کے مسلز میں اہم پروٹین کی شرح بڑھ گئی، خصوصاً وہ پروٹین جو دوران خون سے گلوکوز کو مسلز میں منتقل کرتے ہیں۔
مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ چھوٹے پیمانے پر ہونے والی تحقیق تھی جس میں صرف مردوں کو شامل کیا گیا اور اس حوالے سے یہ دیکھنا باقی ہے کہ طویل المعیاد بنیادوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کیا خواتین کو مردوں جیسا فائدہ ہوسکتا ہے یا نہیں۔